فارسی کے معتبر عالم، ڈاکٹر خضر نوشاہی: ”وہ جو ہم تم میں نہیں، خاک میں پنہاں ہو کر۔۔۔“


 
پاکستان کے فارسی کے عظيم عالم، دانشور، شاعر اور مترجم، ڈاکٹر خضر نوشاہی بھی سُوئے عدم کُوچ کر چلے۔ اور ملک کے دبستانِ فارسی میں ایک گہرا خلا چھوڑ گئے۔ 
 
ڈاکٹر خضر نوشاہی، 30 مارچ 1952ء کو پنجاب میں ضلع شیخوپورہ کے علاقے ”چنبھل“ میں عبدالکریم عبّاسی نوشاہی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد، خانوادہء نوشاہیہ کے ممتاز صُوفی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ خضر صاحب نے میٹرک کا امتحان، گورنمنٹ ہائی اسکول اجنیانوالہ سے 1969ء میں پاس کیا۔ اسی دوران ان کے والد صاحب کی رحلت ہو گئی، جس وجہ سے ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ کیونکہ ان کے کندھوں پر اپنے جّدِ امجد اور پنجابی کے پہلے صاحبِ ديوان شاعر، حضرت نوشہ گنج بخش رحہ کی خانقاہ کی سجادہ نشینی کی ذمہ داریاں آن پڑیں۔ مگر انہوں نے علم و تعليم کے ساتھ بے پناہ دلچسپی کی بنا پر، اپنی کوششوں سے پرائیویٹ طالب العلم کی حيثيت سے انٹر، بی۔ اے۔ اور ايم۔ اے۔ کے امتحانات پاس کئے اور ماسٹرس تک کی تعليم حاصل کرنے کے بعد، ہمدرد یونیورسٹی کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جس کے بعد انہیں اپنی ہی مادرِ علمی، ہمدرد یونیورسٹی کی بیت الحکمہ لائبریری میں شعبہء مخطُوطات کا سربراہ مقرر کيا گيا۔ وہ بعد ازاں مختلف ادوار میں، اسلام آباد میں قائم، مرکزِ تحقیقاتِ فارسی ایران و پاکستان اور لاہور میں قائم، اقبال اکادمی پاکستان سے بطور محقق وابستہ رہے۔   
 
جيسا کہ ذکر ہوا کہ ڈاکٹر خضر کی پيدائش صاحبانِ علم و دانش کے ایک غیر معمولی علمی خانوادے میں ہوئی۔ وہ قادری مکتبِ فکر کے مرکز، سلسلہء نوشاہیہ سے متعلق ایک عملی صوفی تھے۔ اُن کے چھوٹے سے گاؤں ”ساہن پال“ نے اِس ملک کو اب تک، اُن سمیت سات پی ایچ ڈیز دئے ہیں۔ اُن کے ایک ماموں نے (جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔)، نے مذہب اور ادب سے متعلق مختلف موضوعات پر 300 سے زائد مضامین و مقالہ جات لکھے تھے۔ ڈاکٹر خضر نے اپنے والد سے فارسی زبان اور زبان دانی سیکھی، اور جلد ہی وہ اس زبان میں اس حد تک ماہر ہو گئے، کہ جب ان کی عمر محض 16 برس تھی، تو انہوں نے، زندگی میں پہلی بار ٹھٹھہ سندھ سے متعلق ایک شاعر کا ایک قلمی نسخہ، فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے مخطوطات کی تلاش کو اپنا عشق بنا ليا، جن کی تلاش میں انہوں نے نوجوانی ہی میں سندھ کے کونے کونے میں جا کر ایک ایک لائبريری اور خزانہء کتب کو چهان مارا۔
انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ فارسی زبان و ادب کے قديم نسخوں (مخطُوطاط) پر تحقیق کے لئے وقف کردیا، جو ماضی کے سندھی عالموں کی قلمی اور علمی کاوش تھے۔ فارسی کے ان بُھولے بِسرے اور نایاب نسخوں کو انہوں نے سندھ کی تقریباََ تمام سرکاری لائبریریوں خواہ نجی کُتب خانوں میں تلاش کر کے، اُن پر تحقيقی کام کیا اور اپنی عرق ريزی سے ماضی کو حال سے رُوشناس کرانے کا اہم کام انجام دیا۔ ڈاکٹر خضر کو معروف جرمن اسکالر ـ ڈاکٹر انمیری شمل، حکیم محمّد سعید، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، پیر حسام الدین شاہ راشدی وغیرہ جیسے فارسی کے عظيم عالموں کے ساتھ ملتے رہنے اور ادبی نشستيں کرنے کا موقع ملا، جن کی صحبت سے انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا، اس لئے وہ ہمیشہ ان مشاہیر کی علمی خواہ ادبی رفاقت پر فخر کرتے رہے۔ 
 
ڈاکٹر خضر کا سندھ میں آنا جانا، 16 برس کی عمر سے شروع ہوا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ”میرا صوفیاء کی اس سرزمین سے ایک خاص رشتہ ہے اور میں اس دھرتی سے اس قدر محبّت اور عقيدت رکهتا ہوں، کہ کبھی کبھار مجھے لگتا ہے، کہ میں اِس مٹی کا ایک حصّہ بن گیا ہوں۔“
 
ڈاکٹر خضر نوشاہی نے ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے کلہوڑا دور کے جيّد عالم، مؤرخ، شاعر اور مصنف، ”علی شیر شاہ شکرِ الٰہی شيرازی“ [1728ء ـ 1788ء] (جو عام طور پر ”میر علی شیر قانع ٹھٹوی“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔) کے علمی کارناموں پر بے تحاشہ تحقیقی کام انجام دیا۔ خضر صاحب کی ڈاکٹریٹ کی تھیسز تک، قانع کی آخری کتاب ”معیارِ سالکانِ طریقت“ پر تحقيق پر مشتمل تھی، جو مقالہ انہوں نے، مُلک کے معروف عالم، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ (ڈاکٹر این۔ اے۔ بلوچ) کی نگرانی میں، مکمّل کر کے، اس پر 1997ء میں ہمدرد یونیورسٹی کراچی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جس کے حصول سے اُنہیں ہمدرد یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر بننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ 
بقول ڈاکٹر خضر کے ”میر علی شیر قانع نے اپنے اوّلين اشعار اُس وقت تحریر کئے، جب وہ نونہالِ ناتواں تھے۔ تب ہی انہوں نے ”فتوائے عالمگیری“ کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد آزادانہ طور پر مضامین لکھنا شروع کئے۔ بعد ازاں، انہوں نے بطور عالم، شاعر اور مؤرخ اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا اور عالمانہ مدارج طے کئے۔ انہوں نے ”قانع“ کے قلمی نام کے تحت متعدد موضوعات پر بيشمار تحریریں تخلیق کیں، جن میں امام غزالی اور مولانا جلال الدين رُومی پر کيا ہوا ان کا تحقيقی کام قابلِ ذکر ہے۔ قانع کا سب سے نمایاں کارنامہ، ”تحفتہ الکرام“ تھا، جس میں انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر، بارہویں صدی ہجری کے آخر تک کے صوفیائے کرام کی حيات و افکار کے حوالے سے، خواہ شہدائے کربلا اور عمومی تاریخ پر تفصيل سے لکها ہے۔“ بقول ڈاکٹر خضر: ”اگر میر علی شير قانع ”تحفتہ الکرام“ جیسی کتاب تحرير نہ کرتے، تو سندھ کے عوام کو سندھ ہی کی عظيم شخصیات کی تاریخ کے بارے میں کبھی بھی معلوم نہ ہو پاتا۔“
 
ڈاکٹر خضرنوشاہی کی دیگر اہم فارسی و اردو تصانیف میں ”فہرستِ نسخہ ہائے خطّی فارسی“، ”فہرست ہائے خطّی فارسی“، ”گنجینہء آذر“ (فہرستِ مخطوطاتِ ذخیرہء پروفیسر سراج الدّین آذر)، ”گنجینہء شوق“ (فہرستِ مخطوطاتِ فارسی، ذخیرہء پروفیسر ڈاکٹر نواز علی شوق)، ”فہرست مخطوطاتِ عربی و فارسی“، ”لطائفِ اشرفی“، از: اشرف جہانگیر سمنانی (فارسی سے اردُو ترجمہ)، ”تاریخِ بلوچی“ از: عبد المجید جوکھیہ (فارسی سے اردُو ترجمہ)،”مثنویء گوہر منظُوم“ (فارسی سے اردُو ترجمہ)، ”جمع الجواہر“ از: پیر محمّد راشد روضہ دھنی (مرتب)، ”دیوان میاں محمّد سرفراز خان کلہوڑو“ (مرتب)، ”مکاتیبِ راشدی ـ بنام ڈاکٹر محمّد باقر“ ـ پير حسام الدّين راشدی کے ڈاکٹر محمّد باقر کے نام لکھے خطُوط (مرتب)، ”معیارِ سالکانِ طریقت“، از: ميرعلی شير ”قانع“ ٹھٹوی (فارسی سے اردُو ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔ اور ان کی ایسی کئی کتب، مختلف اداروں کے پاس اشاعت کے لئے موجود ہیں اور کچھ غير طبع شدہ کتب خود ان کے قلمی خزانے میں محفُوظ ہونگی۔
 
ڈاکٹر خضر نوشاہی، فارسی زبان کے مشکل يا آسان ہونے کے سوال پر ایک خُوبصورت جُملہ کہا کرتے تھے کہ: ”ہر اردُو بولنے والا، فارسی زبان جانتا ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا، کہ وہ فارسی جانتا ہے۔“
 
فارسی زبان و ادب کے پاکستان کے  یہ صفِ اوّل کے عالم، دانشور، اديب اور ایک خوشخصلت انسان، 13 اور 14 جولائی 2021ء کی درمیانی شب، 69 برس کی عمر میں، پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدين کے قريب واقع اپنے آبائی گاؤں، ”ساہن پال شريف“ میں، اِس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ مگر اُنہیں اپنے افکار اور ذاتی و شخصی خصائل کی بدولت، تا دير یاد رکھا جائے گا۔
 
”حق مغفرت کرے! عجب مرد تها!“

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments