مولانا ضروری ہیں اور ان کی ضرورت پڑے گی



شاید وقت قریب ہے جب سب ہی مولانا فضل الرحمن کی طرف مڑ کر دیکھیں گے۔ آج کل کونوں کھدروں سے داڑھیاں لہراتے ( ضروری نہیں کہ ان سب کی داڑھی ہی ہو ) لوگ نکل نکل کر ہم جیت گئے ہیں گاتے اور اپنے ہی دوستوں پیاروں ہم وطنوں کو تقریباً دھمکاتے اور خود پر اتراتے دکھائی دیتے ہیں۔

پتہ نہیں کس نے افغانستان میں امریکی جنگ کا نام فار ایور وار (ہمیشہ کی جنگ) رکھا۔ امریکی میڈیا نے جب اس نام کو دہرانا شروع کیا تو اسی سے پھر عقل آئی ہو گی۔ امریکہ افغانستان سے نکل گیا۔ یہ نہ کوئی فتح ہے نہ شکست۔ امریکی اس نہ ختم ہونے والی جنگ کو جاری رکھنا چاہتے تو بیٹھے رہتے۔ جو اب ہوا ہے ایسی سی فتح کے لیے ایک آدھ اور افغان نسل کام آ جاتی۔

افغان جنگ کے چکر میں کچھ کم زیادہ ستر ہزار بندہ تو ہم نے بھی مروا لیا۔

جے یو آئی میں کچھ سوچنے سمجھنے والے لوگوں سے بات ہوئی۔ کسی تمہید کے بغیر سیدھا اور سادہ سوال پوچھنا تھا کہ کیا آپ پریشر محسوس کر رہے ہیں؟ جو سمجھ گیا اس نے بھی صاف جواب دیا کہ بالکل کر رہے ہیں۔

سیاست سسٹم آئین قانون کی بات کرنے والا عالم دین یا اس کے پیچھے لگا پھر رہا طالب، اس وقت ان کے پریشر میں ہے جو افغانستان میں طالبان کی فتح کو اپنی فتح سمجھ رہے ہیں۔ بندوق کی طرف اٹریکٹ ہونے والے ووٹ پر یقین رکھنے والوں کو دبا رہے ہیں۔ شدت پسندی کی ایک نئی لہر اٹھ سکتی ہے۔

ہمارے ہاں اک دوسرا طبقہ بھی ہے۔ یہ پختون قوم پرست ہیں جو امریکہ کی روانگی، طالبان کے زور پکڑنے اور کابل حکومت کو ڈانوا ڈول ہوتے دیکھ کر بے چین ہیں اور اسے اپنی شکست، اپنی مشکل سمجھ کر فرسٹریشن کا شکار ہیں۔

ہمیں افغانستان کا خیر خواہ ہوتے ان کو اپنا تربور اور شریک سمجھتے ہوئے بھی ان کو خود سے الگ ہی سمجھنا چاہیے۔ ان کا اپنا وطن ہے ہمارا اپنا۔ انہیں اپنے مسئلے خود حل کرنے ہیں اور ہمیں اپنے۔ اگر ہم اس فتح شکست کے چکر میں پڑے رہیں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ اپنی ہی باتوں اپنی ہی سوچ میں پھنستے جائیں گے، کیسے؟

وہ ایسے کہ قومی اسمبلی کی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ میں صاف بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے زور پکڑنے سے پاکستان میں دہشت گردی شدت پسندی بھی زور پکڑے گی۔

مولانا فضل الرحمن کا شروع میں ذکر کیا، ان پر کئی خود کش حملے ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ وہی ان کا سیاسی اور جمہوری موقف اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو وجہ ہے وہ یہ کہ مولانا بھی پاکستان کے ان چند گنے چنے لوگوں میں شامل ہیں۔ جو باہر نکلیں تو لوگوں کا رش لگ جاتا ہے۔ یہ کہیں کھڑے ہو جائیں تو رش لگ جاتا ہے۔ یہ خوف توڑ دیتے ہیں۔ دہشت کا کاروبار خوف سے ہی چلتا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو، اسفندیار ولی خان، آفتاب شیرپاؤ، مولانا فضل الرحمن، امیر مقام اور وہ سارے سیاسی کارکن جو شہید یا زخمی ہوئے، ان پر حملوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ خوف توڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو ملالہ پر حملہ ہوا۔ اک نہتی لڑکی دہشت کے خلاف ہمت کی علامت بن گئی۔ حملہ ہوا تو اس کے بعد دہشت کا اپنا انتقال ہو گیا۔

چینی سفیر سے مولانا نے ستائیس مئی کو ایک ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تصویر کو شئر کرتے ہوئے چینی سفیر نے لکھا کے مولانا نے شنجیانگ کے اپنے دورے کو یاد کیا اور کہا کہ چینی حکومت کی کوششیں قابل تعریف ہیں جو وہ اس مسلمان صوبے میں دہشت گردی کے خلاف کر رہی ہے اور جیسے وہاں کے لوگوں کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔

مئی کی اس ملاقات اور ٹویٹ کی جولائی میں بھی تردید نہیں ہوئی۔ کوئی سفارتکار کسی سے ایسی بات کم ہی منسوب کر سکتا ہے جو اس نے نہ کی ہو۔ اس کا مطلب کیا ہے؟

یہی کہ مولانا دہشت گرد کو جہاں بھی ہو دہشت گرد ہی کہہ رہے ہیں۔ ایسا کہنا دہشت کو چیلنج کرنا ہے۔ اس کی ایک قیمت ہے۔ جو کم از کم بھی یہ ہے کہ ان کی جماعت اک پریشر کا سامنا کرے گی، اور امید یہی ہے کہ اپنے جمہوری اصولی آئینی موقف پر ہی اصرار کرے گی اور کھڑی رہے گی۔ اس سب کے لیے مولانا ضروری ہیں اور ان کی ضرورت پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments