کیا واقعی ابدالی کے افغانستان کو کبھی شکست نہیں ہوئی؟


ہم اپنے ایک گزشتہ مضمون میں بتا چکے ہیں کہ موجودہ افغانستان میں شامل علاقے زمانہ قدیم سے بہت سی سلطنتوں کے غلام رہے ہیں۔ ایرانیوں، یونانیوں، منگولوں اور وسط ایشیا کے دیگر فاتحین نے ان پر حکومت کی ہے۔ آج ہم جدید ریاست افغانستان کی بات کرتے ہیں جس کا بانی احمد شاہ ابدالی کو قرار دیا جاتا ہے۔

احمد شاہ ابدالی ایک عظیم بادشاہ تھے۔ وہ تاریخ کے ان چنیدہ بادشاہوں میں سے تھے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدلا۔ زمانہ عروج میں احمد شاہ ابدالی کے افغانستان کا رقبہ بیس لاکھ مربع کلومیٹر تھا۔ آج کے افغانستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ افغانوں کو کبھی شکست نہیں ہوئی تو یہ ساڑھے تیرہ لاکھ کلومیٹر کہاں غائب ہو گیا؟ آئیے جدید ریاست افغانستان پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔

سنہ 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد احمد شاہ ابدالی کی درانی سلطنت اپنے عروج پر 1762 میں پہنچی۔ اس وقت پورا پنجاب، کشمیر، موجودہ پاکستان، شمال کی طرف آمو دریا اور ایران میں مشہد اور نیشاپور کے خراسانی علاقے ابدالی کے افغانستان کا حصہ تھے۔ لیکن احمد شاہ ابدالی کی وفات تک ایک نمایاں حصہ ابدالی سلطنت کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔

سنہ 1762 کے فوراً بعد جاٹوں نے پنجاب میں اس کے خلاف بغاوت کر دی۔ سردار جسا سنگھ اہلووالیہ اس بغاوت میں ایک اہم سکھ سردار تھا جس نے پنجاب کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ بغاوت کچلنے کے لیے احمد شاہ ابدالی نے 1764 میں انڈیا پر ساتواں حملہ کیا۔ اب سکھوں نے وہی کیا جو طالبان نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔ وہ کھلے میدان میں مقابلہ نہ کرنے کی سکت پا کر غائب ہو گئے۔ اور اچانک حملے کر کے مسلسل غائب ہوتے رہے۔ احمد شاہ ابدالی کسی خاص کامیابی کے بغیر افغانستان واپس ہوا۔

سنہ 1765 میں سکھوں نے ابدالی سلطنت سے لاہور چھین لیا۔ نومبر 1766 میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر آٹھواں حملہ کیا۔ سکھ سردار لاہور سے غائب ہو گئے اور ابدالی لشکر نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ سپہ سالار جہان خان کو امرتسر میں شکست ہوئی، احمد شاہ ابدالی مدد کو پہنچا تو وہاں بھی سکھ غائب ہو گئے۔ مارچ 1767 میں جیسے ہی ابدالی نے دہلی کا رخ کیا تو سکھوں نے دوبارہ لاہور پر قبضہ کر لیا۔ ابدالی کی اس مہم سے ملتان کے راستے واپسی ہوئی۔ پنجاب ابدالی سلطنت کے ہاتھوں سے نکل کر سکھوں کے قبضے میں چلا گیا۔

پنجاب واپس لینے کے لیے احمد شاہ ابدالی نے 1769 میں ہندوستان پر اپنا آخری حملہ کیا اور پنجاب میں گجرات کے قریب دریائے چناب کے بائیں کنارے پر اپنا کیمپ لگایا۔ اس وقت تک پنجاب میں سکھ اپنی طاقت مضبوط کر چکے تھے اور آگے پیش قدمی آسان نہیں تھی۔ اسی دوران ابدالی لشکر میں پھوٹ پڑ گئی اور احمد شاہ ابدالی نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ پشاور سے کابل کے راستے میں لشکر کے باہمی اختلافات اس قدر بڑھ گئے کہ کئی سردار اور فوجی مارے گئے اور پورے فوجی کیمپ میں لوٹ مار کی گئی۔ سنہ 1772 میں احمد شاہ ابدالی کے وفات پانے تک بیشتر پنجاب افغان سلطنت کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔

احمد شاہ ابدالی کے بیٹے تیمور خان کی حکومت 1793 تک رہی۔ اس دوران شمال میں امیر بخارا اور اور ہندوستان میں سکھ سردار ابدالی سلطنت کے علاقوں پر قبضہ کرتے رہے۔ 1795 میں قاچار خاندان کے بانی آغا محمد خان قاچار نے خراسانی علاقے مشہد اور نیشاپور افغانوں سے چھین لیے۔

احمد شاہ ابدالی کے پوتے محمود شاہ درانی کے زمانے میں 1813 میں وزیر اعظم فتح خان اور دوست محمد خان کی قیادت میں ایک بڑے افغان لشکر نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اٹک کا قلعہ واپس لینے کے لیے حملہ کیا۔ اسے رنجیت سنگھ کے مایہ ناز جرنیل دیوان محکم چند نے شکست فاش دی۔ سنہ 1818 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ابدالی حکمرانوں سے ملتان چھین لیا۔ سنہ 1819 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانوں سے کشمیر بھی لے لیا۔ سنہ 1823 میں نوشہرہ کی جنگ کے بعد پشاور بھی سکھ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یہ تخت لاہور اور افغان سلطنت کے درمیان ہونے والی آخری اہم جنگ تھی۔ اس کے بعد جمرود کی جنگ میں امیر دوست محمد خان نے پشاور واپس لینے کے لیے حملہ کیا مگر جنگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی، ہاں سکھوں کو ایک بڑا دھچکہ ضرور پہنچا جب ان کا اہم ترین جرنیل ہری سنگھ نلوہ اس جنگ میں زخمی ہو کر مارا گیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا جلال آباد اور کابل پر حملہ کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔

سنہ 1849 میں پنجاب کی سکھ سلطنت کا انگریزوں کے ہاتھوں خاتمہ ہو گیا۔

انگریزوں اور افغانوں کی پہلی لڑائی 1839 سے 1842 کے درمیان لڑی گئی۔ یہی وہ جنگ تھی جب افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی شہرت ملی۔ برطانیہ کو یہ خطرہ تھا کہ افغانستان کہیں روس کے ہاتھ میں نہ چلا جائے اور یوں اس کی اہم ترین کالونی ہندوستان براہ راست روسی سلطنت کے ساتھ نہ جڑ جائے۔ برطانیہ نے سفارتی اور فوجی دونوں طرح کی حکمت عملی سے کام لینے کی کوشش کی۔

سفارت میں ناکام ہونے پر افغان امیر دوست محمد خان کی جگہ شاہ شجاع کو تخت نشین کرنے کے لیے لشکر بھیجا گیا۔ 1839 میں انگریز لشکر قندھار میں داخل ہو گیا۔ افغانوں کا مضبوط دفاعی مرکز غزنی بھی آسانی سے انگریزوں کے ہاتھ آ گیا۔ اور پھر کابل پر قبضے کے بعد شاہ شجاع کو تخت نشین کر دیا گیا۔ امیر دوست محمد خان نے پہلے بلخ اور پھر بخارے کا رخ کیا۔ وہ قید ہوا اور فرار ہو کر انگریزوں کے خلاف لڑنے واپس افغانستان آ گیا۔ نومبر 1840 میں دوست محمد خان نے ہتھیار ڈال کر خود کو انگریزوں کے حوالے کر دیا اور اسے ہندوستان بھیج دیا گیا۔

انگریزوں کے خلاف شورش برپا ہوتی رہی۔ افغانوں نے انہیں سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سر ولیم مکناٹن افغانوں کے ساتھ صلح کی بات چیت کے دوران قتل کر دیا گیا۔ چھے جنوری 1842 کو کابل کے نواح میں موجود ساڑھے چار ہزار برطانوی فوجی، اور بارہ ہزار دیگر ملازمین نے ہندوستان واپسی کا سفر شروع کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص زندہ سلامت جلال آباد تک پہنچ پایا۔ باقی سب افغانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

اس جنگ میں ایک اہم عنصر ہتھیاروں کا تھا۔ برطانوی رائفل کی رینج 50 گز تک درست اور 150 گز تک مہلک تھی۔ جبکہ افغانوں کی چقماقی بندوق گو بھرنے اور فائر کرنے میں زیادہ وقت طلب تھی لیکن اس کی مہلک رینج پانچ سو گز تک تھی۔ یوں ایک محفوظ فاصلے سے ہی افغان بندوقچی برطانوی فوجوں پر وار کر سکتے تھے۔

برطانوی فوج نے جوابی حملہ کیا اور ستمبر میں کابل پہنچ گئی۔ برطانوی فوج نے کابل کے اردگرد کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد وہاں لوٹ مار کی۔ اکتوبر میں برطانوی وائسرائے نے فوج کو افغانستان سے واپسی کا حکم دیا۔ افغانوں پر اپنی ہیبت بٹھانے کے لیے کوئی نشان چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قلعہ بالا حصار کو تباہ کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا جو افغان بادشاہوں کی جائے قیام تھی، اس کی بجائے کابل کے صدیوں پرانے مرکزی بازار کو بارود سے اڑا دیا گیا۔ ایک پورا دن شہر میں لوٹ مار، قتل و غارت اور عصمت دری کا راج رہا۔ دو دن بعد 12 اکتوبر 1842 کو برطانوی فوج نے واپسی کی راہ اختیار کی۔

سنہ 1877 میں روسی اور برطانوی تناؤ بڑھ گیا۔ سنہ 1878 میں افغان امیر شیر علی خان نے روسی سفارتی وفد کو افغانستان آنے کی اجازت دے دی۔ یہ جان کر برطانیہ نے بھی اپنا سفارتی وفد بھیجنا چاہا مگر اس وفد کو افغانستان نے درہ خبیر سے ہی واپس لوٹا دیا۔ برطانیہ نے امیر شیر علی خان سے معافی مانگنے اور مستقل وفد کے قیام کی اجازت دینے کا کہا۔ بروقت جواب نہ ملنے پر نومبر میں برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ صنعتی انقلاب سے یک دم بہت طاقتور ہونے والا برطانیہ اس مرتبہ افغانستان سے بہت بہتر تھا۔ برطانوی فوجی مارٹن ہنری رائفلوں سے مسلح تھے جن کی رینج ایک ہزار گز تھی۔ ان کے پاس پہلے سے بہت بہتر توپ خانہ بھی تھا۔

امیر شیر علی خان نے لشکر اکٹھا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ پھر مایوس ہو کر مزار شریف کا رخ کیا اور گزشتہ وعدے یاد دلا کر روسیوں سے مدد مانگی۔ روسیوں نے مدد کرنے سے انکار کیا اور برطانیہ سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیا۔ شیر علی خان نے سینٹ پیٹرز برگ جا کر خود زار سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا مگر روسیوں نے اسے آمو دریا پار کرنے کی اجازت نہ دی۔ شیر علی خان نے مایوس ہو کر بلخ کا رخ کیا اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ برطانیہ نے آسانی سے قندھار پر قبضہ کر لیا۔

نئے افغان امیر یعقوب خان نے برطانیہ سے صلح کی بات چیت شروع کی۔ اس دوران جلال آباد میں موجود برطانوی فوج کو مسلسل افغان قبائلیوں کے گوریلا حملوں کا سامنا رہا۔ مئی 1879 میں امیر یعقوب خان اور برطانیہ کے درمیان گندمک کے مقام پر معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے تحت امیر نے پشین، سبی، کرم، اور خیبر کے علاقے برطانیہ کو دے دیے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کو اپنا مستقل سفارتی مشن بھی افغانستان میں قائم کرنے کی اجازت دی گئی اور افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی برطانیہ کو سونپ دی گئی۔ بدلے میں برطانیہ نے امیر کو 60 ہزار پاؤنڈ سالانہ وظیفہ دینا منظور کیا۔

لیکن اس دوران وہاں موجود برطانوی فوج کو افغانوں نے پے در پے حملوں سے مستقل مصیبت میں مبتلا رکھا۔ سنہ 1880 میں برطانیہ نے امیر عبدالرحمان کو افغانستان کا امیر تسلیم کر لیا۔ جولائی میں میوند کی مشہور جنگ ہوئی جس میں برطانوی فوج کو شکست ہوئی۔ کابل سے جنرل رابرٹس دس ہزار فوج لے کر بیس دن میں قندھار پہنچا اور اس جنگ میں افغانوں کو شکست ہوئی۔ ایک ہزار افغان مارے گئے جبکہ برطانیہ کے 36 فوجی ہلاک ہوئے اور 218 زخمی۔ برطانوی فوجیں افغانستان سے واپس ہندوستان آ گئیں۔

سنہ 1885 میں روسی فوج نے ہرات کے علاقے پر حملہ کیا اور افغانوں کو شکست دی۔ برطانیہ نے امیر عبدالرحمان سے معاہدے کے تحت ایک بڑی جنگ کی تیاری شروع کر دی اور روسیوں کے پاس ایک سفارت بھیج کر اسے خبردار کیا۔ دونوں طاقتوں نے آپس میں الجھنے سے گریز کیا۔ روسی اور برطانوی سفارت کاروں نے افغانستان کی شمال مغربی سرحد کا تعین کیا۔

سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے 1893 میں افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں کا تعین کرنا شروع کیا۔ 1895 میں واخان کا علاقہ برطانیہ نے اصرار کر کے، بلکہ امیر عبدالرحمان کو نذرانہ دے کر افغانستان میں شامل کیا تاکہ انڈیا اور روس کی سرحد کسی جگہ بھی آپس میں نہ مل پائے۔

مئی 1919 میں امیر امان اللہ خان نے تیسری اینگلو افغان جنگ چھیڑی۔ ابتدائی افغان کامیابیوں کے بعد برطانوی جوابی حملے نے یہ سلسلہ روک دیا۔ پھر جب برطانوی ہوائی جہازوں نے جلال آباد اور کابل پر بمباری کی تو امان اللہ خان کو یہ نیا ہتھیار دیکھ کر ایک شاک لگا۔ اس نے برطانوی وائسرائے سے احتجاج کیا کہ برطانیہ نے لندن پر جرمن زیپلن ہوائی حملوں کی مذمت کی تھی لیکن وہ خود بھی کم وحشی نہیں ہے۔

ایک مہینے کے اندر اندر دونوں ملکوں میں معاہدہ امن ہو گیا۔ امان اللہ خان کو برطانیہ نے گزشتہ معاہدے میں طے کردہ پیسے دینا بند کر دیے، ہندوستان سے اسلحے کی برآمد روک دی، اور ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد ماننے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بدلے میں امیر امان اللہ خان نے برطانیہ سے اپنی مکمل خارجی اور داخلی خودمختاری واپس حاصل کر لی۔ یوں افغانستان کی موجودہ سرحدوں کا تعین ہوا۔

سنہ 1762 میں احمد شاہ ابدالی کے عروج کے وقت موجودہ ریاست افغانستان کا رقبہ 20 لاکھ مربعہ کلومیٹر تھا۔ آج یہ رقبہ ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ ساڑھے تیرہ لاکھ مربع کلومیٹر سکھوں، انگریزوں، ایرانیوں، سلطنت بخارا اور روسیوں سے شکست کھانے کے بعد ان ملکوں میں شامل ہو گیا۔ افغانستان آج بھی ڈیورنڈ لائن کو نہ ماننے کا کہتا ہے اور گویا یہ تسلیم کر رہا ہے کہ وہ یہ علاقہ گنوا چکا ہے۔

اس تناظر میں یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ افغانستان کو کبھی شکست نہیں ہوئی۔ ہاں یہ کہنا درست ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے جب جدید افغان سلطنت قائم کی، تو اس کے بعد سے موجودہ باقی ماندہ ریاست افغانستان میں شامل علاقوں پر کوئی دوسرا ملک قبضہ نہیں کر سکا۔ افغانوں کی مزاحمت ناقابلِ شکست ثابت ہوئی لیکن اس کی افغان عوام نے بہت بڑی قیمت چکائی۔

دوسرے ملکوں کے قبضہ کرنے میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ قدیم زمانے میں افغانستان اہم تجارتی راستے پر واقع تھا۔ جدید دور میں بری کی بجائے بحری اور فضائی تجارت پر انحصار ہونے کے باعث افغانستان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی کہ ادھر قبضہ کر کے کوئی دوسری ریاست ایک بڑی انسانی اور مالی قیمت چکائے۔ نہ سوویت یونین کو افغانستان پر قبضہ کرنے میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی امریکہ کو۔ گریٹ گیم شروع ہونے سے پہلے جن سلطنتوں نے افغان ریاست کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہا، انہوں نے کیا۔ گریٹ گیم شروع ہونے کے بعد سے بڑی طاقتوں کی دلچسپی صرف یہ رہی ہے کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت نہ آئے جو ان کے مفادات کو زک پہنچائے۔ اس لیے بلاوجہ افغانوں اور پشتونوں کو جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے کہ وہ امن اور ترقی کی راہ اختیار کریں۔

اسی بارے میں: افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments