دنیا کو بے بسوں کی بے بسی دکھانے والا دانش صدیقی چلا گیا


روئٹرز کے معروف فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی جمعے کو افغانستان میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

دانش صدیقی اس ہفتے افغان فورسز کے ساتھ جنوبی صوبے قندھار میں تھے اور وہ افغانستان میں جاری لڑائی پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔

ایک افغان کمانڈر نے دانش صدیقی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جس وقت دانش صدیقی مارے گئے اس وقت وہ مقامی دکانداروں سے بات کر رہے تھے۔

‘بے بسوں کی بے بسی دنیا کو دیکھانے والا‘

دانش صدیقی کا تعلق انڈیا سے تھا اور وہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے انڈیا میں ملٹی میڈیا ونگ کے سربراہ بھی تھے۔

روئٹرز میں کام کرنے سے پہلے دانش نے ایک انڈین چینل کے لیے بطور نامہ نگار بھی کام کیا تھا۔

اگرچہ دانش صدیقی نے کئی ممالک میں اہم واقعات پر فوٹو رپورٹنگ کی، جیسے کہ انڈیا میں شہری حقوق کے قوانین کے خلاف مظاہرے، عراق میں موصل کے محاذ کی جنگ، میانمار میں روہنگیا بحران، وغیرہ۔ مگر ایک چیز آپ کو ان کی زیادہ تصاویر میں نظر آئے گی۔ چاہے وہ روہنگیا پناہ گزین ہو یا کشمیر میں سوگ مناتی عورت، ایسا لگتا ہے کہ دانش صدیقی کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ان کی تصاویر دیکھنے والوں سے باتیں کریں۔

دنیا میں مشکل حالات تو بہت سے فوٹوگرافر عکس بند کر پاتے ہیں مگر دانش صدیقی ان مناظر میں موجود لوگوں کے جذبات انتہائی سادہ انداز میں ناظرین تک پہنچاتے تھے۔

دانش صدیقی کو سنہ 2018 میں فیچر فوٹوگرافی کے شعبے میں دنیائے صحافت کا معروف ترین اعزاز پیولٹزر انعام بھی نوازا گیا تھا۔ انھیں یہ اعزاز ساتھی عدنان عابدی کے ساتھ روہنگیا بحران کی تصاویر کے حوالے سے د یا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا میں حالیہ کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے بعد قبروں اور ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات کی عکس بندی کرنے کے سلسلے میں انھیں دنیا بھر سے تعریف ملی۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ دانش صدیقی ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دنیا کو انڈیا میں کورونا کی صورتحال کی اصل شکل دکھائی۔

دانش صدیقی نے نیپال میں زلزلے، ہانگ کانگ میں احتجاج، شمالی کوریا میں فوجی مشقین، افغانستان اور عراق کی جنگیں سبھی کچھ میں بہترین کوریج سے نام کمایا۔ مگر ان کے کچھ معروف ترین تصویری مضامین مُمبی میں کرائے داروں کے مسائل اور سوئٹزرلینڈ میں پناہ گزینوں کی مشکلات پر مبنی تھے۔

دانش افعان فوج کے ساتھ تھے اور اپنی ہلاکت سے پہلے انہھون نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو ٹویٹ کی تھی جس میں وہ جس بکتر بند گاڑی میں تھے اس پر راکٹ سے حملے کا منظر تھا۔

https://twitter.com/dansiddiqui/status/1387460373255577604

پیغام میں انہوں نے لکھا تھا۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ وہ اس حملے میں بچ گئے ۔یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اسی حملے میں ہلاک ہوئے یا بعد میں کوئی دوسرا حملہ ہوا ۔

خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق یہ واقعہ اس وقت رونما جب افغان فورسز قندھار میں سپن بولڈک کے ایک علاقے کو طالبان کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ دانش صدیقی افغان فوج کی خصوصی فورسز کے ساتھ تھے اور وہ اس واقعے کی فوٹوگرافی کر رہے تھے ۔

https://twitter.com/INCIndia/status/1415970713924669441

روئٹرز کے صدر مائکل فرائڈنبرگ اور ایڈیٹر ان چیف ایلیسنڈرا گیلونی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ دانش کی ہلاکت کے واقعے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’دانش ایک بہترین صحافی، ایک محبت کرنے والے شوہر، باپ اور ایک بہترین ساتھی تھے۔ اس برے وقت میں ہماری ساری ہمدردی دانش کے گھر والوں کے ساتھ ہے۔‘

دلی میں افغانستان کے سفیر فرید ماموند زئی نے بھی دانش کی ہلاکت پر رنج کا اظہار کیا ہے۔ ’گزشتہ رات قندھار میں ایک دوست دانش صدیقی کے قتل کی خبر سے بہت رنجیدہ ہوں۔ جس وقت دہشتگردوں نے ان پر حملہ کیا اس وقت وہ افغان سکیوریٹی فورسز کے ساتھ تھے۔ میں ان سے دو ہفتے پہلے کابل روانہ ہونے سے پہلے ملا تھا۔‘

انڈیا کے وزیر اطلاعات اور نشریات نے بھی دانش کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

دانش صدیقی کا تعلق دلی سے تھا۔ انہوں نے دلی کی جامعہ ملیہ سے اکنامکس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور یہیں کے باوقار ادارے اے جے کے ماس کمیونی کمیشن سے صحافت میں ڈگری حاصل کی۔ وہ گزشتہ 10 برس سے زیادہ عرصے سے روئٹرز سے وابستہ تھے ۔

بی بی سی کے سینئر فوٹو صحافی کاشف صدیقی نے بتایا کہ دانش نے اپنی صحافت کا آغاز انڈیا ٹودے چینل میں ایک جونیئر رپورٹر کے طور پر کیا تھا۔ اس وقت کاشف بھی وہیں تھے اور ان سے سینیئر تھے۔

https://twitter.com/HasibaAmin/status/1415961452322586624

کاشف نے بتایا کہ ابتدا سے ہی ان کے اندر فوٹو صحافی بننے کا جنون تھا۔ ’ایک ایسے وقت میں جب رپورٹر کی نوکری آسانی سے نہیں ملتی تھی اور فوٹو صحافی کا پیشہ کمتر سمجھا جاتا تھا اس وقت دانش نے ایک روز آ کر کہا کہ وہ رپورٹر کے بجائے فوٹو صحافی بننا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے اندر جنون تھا۔ پھر وہ دلی سے ممبئی چلا گیا اور وہیں روئٹرز سے وابستہ ہوا۔‘

کاشف کہتے ہیں کہ دانش کے اندر خطرہ مول لینے کی بہت زیادہ صلاحیت تھی ۔دانش نے اپنے ساتھی عدنان ‏عابدی کے ساتھ روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران پر جو فیچر فوٹو گرافی کی تھی اس کے لیے انہیں پولٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ دانش کے ساتھی انہیں ایک بہترین دوست کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

ممبئی منتقل ہونے سے پہلے دانش دلی کے باڑہ ہندو راؤ علاقے میں رہتے تھے۔ 41 سالہ دانش شادی شدہ تھے۔ انہوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی تھی۔ ان کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔

انسانی پہلو دانش کی صحافت کا فلسفہ تھا۔ وہ اپنی تصویروں میں انسانی پہلو اجاگر کیا کرتے تھے۔

دانش صدیقی نے اس سال کے آغاز میں بی بی سی بات کرتے ہوئے انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر کی کوریج کے بارے میں اپنے تجربات بتائے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp