ان گنت عورتوں سے زندگی چھیننے والا لفظ، ہسٹریا!


”خالہ، خالہ، بھاگ کے آئیے، روبینہ کو پھر سے ’دندلیں‘ پڑ گئی ہیں، اماں آپ کو بلا رہی ہیں“ ، وہ چھوٹی بچی دور سے پکارتی چلی آ رہی تھی۔

نانی نے یہ پیغام پاتے ہی چپل پاؤں میں گھسیٹی، سر پہ چادر رکھی اور یہ جا وہ جا۔ اب چونکہ سکول سے گرمیوں کی چھٹیاں کی وجہ سے ہم نانی کے گھر موجود تھے اور ہاتھ میں موبائل اور سرہانے لیپ ٹاپ کی سہولت تو موجود نہیں تھی سو ہم بھی چپکے سے پیچھے پیچھے ہو لیے۔

وسیع و عریض دالان میں بچھے تخت پوش پہ ایک نوجوان لڑکی آڑی ترچھی پڑی تھی۔ ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند، جسم اکڑ کے کمان بنا ہوا، دانت سختی سے بھنچے، آنکھیں موندی ہوئیں، چہرے پہ اذیت کے آثار۔ سرہانے کھڑی حواس باختہ سی عورت کبھی اسے جھنجھوڑتی، کبھی گھبرائی ہوئی آواز میں رہ رہ کر پکارتی، ارے روبینہ، سن تو روبینہ، جواب دے، منہ کھول، حوصلہ کر، پانی پی لے۔ ایک اور خاتون ہاتھ میں پانی کا گلاس سے بار بار چمچ میں پانی بھرتیں، آپس میں سختی سے پیوست لبوں میں چمچ گھسانے کی کوشش کرتیں جو ایک ناکام کوشش ٹھہرتی کہ پانی لبوں کے گوشوں سے دائیں بائیں بہہ جاتا۔

کچھ اور عورتیں تخت پوش کے گرد تماش بین کا کردار ادا کر رہی تھیں، کچھ کے چہروں پہ تشویش کے آثار اور کچھ کھوجتی نظریں لئے ہوئے۔

انہی میں سے ایک بولی، ارے جوتا تو سنگھا کر دیکھو، ابھی ہوش میں آ جائے گی۔
دوسری بولی، ارے ناک دباؤ، سانس نہیں ملے گی تو منہ کھول دے گی۔
ایک اور آواز آئی، ذرا چٹکی کاٹ کے دیکھو۔
ایک اور مشورہ مرچوں کی دھونی کے بارے میں تھا، مجرب ہونے کی داستان کے ہمراہ۔

”نہیں نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں کرنا، چھوڑ دو تم بچی کو، ابھی ٹھیک ہو جائے گی، پنکھا مجھے دو اور تم سب اپنے گھروں کو جاؤ“

نانی نے تمام تماشبین عورتوں کو گھورتے ہوئے پیچھے ہٹایا اور دالان خالی کرنے کو کہا۔

نانا کے تھانے دار ہونے کی وجہ سے نانی کا بھی اپنے محلے میں کافی رعب و دبدبہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب عورتیں ماتھے پہ شکنیں ڈالے زیر لب بڑبڑاتی ایک ایک کر کے رخصت ہو گئیں۔

نانی روبینہ کے سرہانے بیٹھ گئیں سر اور گردن کے گرد کسا ہوا دوپٹہ ڈھیلا کیا، پنکھا جھلنے کے ساتھ ساتھ وہ آہستہ آہستہ کہتی جاتیں

”روبینہ میری بچی، سب ٹھیک ہے، تم تھوڑا حوصلہ کرو، فکر کی کوئی بات نہیں، ہم سب تمہارے پاس ہیں“

دیکھتے ہی دیکھتے روبینہ کا اکڑا ہوا جسم ڈھیلا پڑ گیا، بھنچی ہوئی مٹھیاں کھل گئیں، آنکھ کے پپوٹے ہلنے لگے، منہ پہ اذیت کے تاثرات میں کمی آنے لگی۔

”پانی پیو گی؟“ نانی نے پوچھا،

سر میں ہلکی سی جنبش ہوئی، روبینہ کی ماں نے بڑھ کر گلاس منہ سے لگایا، روبینہ نے کچھ گھونٹ بھرے اور پھر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔

نانی تخت سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور کچھ دور جا کر کہنے لگیں، روبینہ کی ماں، اس ڈاکٹر نے کیا بتایا جس کے پاس تم گزشتہ ہفتے لے کر گئی تھیں؟

”آپا جی کیا بتاؤں، جس کے پاس لے کر جاؤں ایک ہی علاج بتاتا ہے“
”وہ کیا؟“
”کہ شادی کردو اس کی، خود ہی ٹھیک ہو جائے گی“
”ارے یہ بھلا کیا بات ہوئی“

”ہاں آپا جی، کہتے ہیں کہ اس کو وہ بیماری ہے، کیا کہتے ہیں، سٹریا، سٹریا شاید، میری تو زبان پہ بھی نہیں چڑھتا موا یہ لفظ“

ہم جو کان لگائے یہ سب سن رہے تھے، شادی کا سن کر گدگدی سی ہونے لگی۔ کیسی شوخ اور رنگیلی بیماری ہے یہ، جس کا علاج شادی ہے، واہ جی واہ۔ ان دنوں ہم دلہنوں کے زیورات اور رنگا رنگ کپڑوں سے بہت متاثر تھے اور اکثر سوچا کرتے تھے کہ دلہن کو اتنا سج بن کے کتنا مزا آ رہا ہو گا۔ حقیقت تو بہت بعد کھلی کہ اس مزے کے بعد زندگی کیا نرت بھاؤ دکھاتی ہے۔

اس بیماری سٹریا کا اتہ پتہ نہ تو نانی کو علم تھا اور نہ ہی روبینہ کی امی کو۔

کچھ مایوس ہو کر سوچا، کاش آپا بھی نانی کے گھر آئی ہوتیں تو ایسی زبردست بیماری کے متعلق ہم ان سے تو پوچھتے۔

خیر صاحب، واپس گھر آنے پہ ہمیں سٹریا نامی لفظ ہی بھول گیا تو آپا سے تفتیش کیسے کرتے۔ بس رہ رہ کر روبینہ کا سرسوں سا زرد رنگ یاد آتا رہا۔

ہماری حسرت ناتمام جلد ہی پوری ہو گئی جب ایک قریبی فرشتے دار نے اپنی بیٹی کے متعلق اماں سے مشورہ کیا جسے پراسرار بے ہوشی کے دورے پڑتے تھے۔ ہماری اماں نے فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانے کو کہہ دیا۔ اب یہ تو ہمیں علم نہ ہوا کہ ڈاکٹر نے علاج شادی بتایا تھا کہ نہیں لیکن ان کی اماں نے تعلیم ادھوری چھڑوا کے کچھ ماہ بعد ہی شادی کر دی۔

کچھ اور بڑے ہوئے تو علم ہوا کہ عورتوں اور لڑکیوں کو اکثر سٹریا نامی دورے پڑتے ہیں جن کا علاج شادی تجویز کیا جاتا ہے۔ ایسی مستانی بیماری!

میڈیکل کالج میں سٹریا اور اس کے مست ہونے کا سب بھانڈا پھوٹ گیا۔ اصل صورت حال جاننے کے بعد جی چاہا کہ اپنے عورت ہونے پہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔

ہسٹریا نے رومن لفظ ہسٹرا سے جنم لیا جس کے معنی رحم یا بچے دانی کے ہیں۔ اہل مصر نے دو ہزار برس قبل مسیح عورتوں کے جذباتی مسائل کے لئے یہ لفظ استعمال کیا۔ ان کا خیال تھا کہ عورت میں بے چینی اور اضطراب رحم کے اپنی جگہ سے ہل جانے سے پیدا ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے ٹوٹکوں کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا اور جڑی بوٹیوں کا ناف سے نیچے والے حصے میں لیپ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

قدیم یونانیوں نے نہ صرف مصریوں کی روایت کو قائم رکھا بلکہ شادی اور بچے نہ ہونے کو بھی ہسٹیریا کی چھتری تلے اکٹھا کر دیا۔ یعنی اگر عورت کی شادی نہ ہو تو وہ پاگل پن کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے۔ بقراط کے خیال کے مطابق رحم جسم میں گردش کرتا رہتا ہے اور ہر بیماری کی جڑ ہے۔ افلاطون نے اپنے مشہور زمانہ ڈائیلاگ ٹائمیس میں فتوی دیا کہ وہ رحم اداس اور بدقسمت ہوتا ہے جو جنسی تعلق سے محروم رہتا ہے اور بچہ پیدا نہیں کرتا

جالینوس نے دوسری صدی عیسوی میں ہسٹیریا کو بیوگی سے جوڑ دیا۔ ان کے خیال میں ازدواجی تعلقات نہ ہونے سے عورت ہسٹریک ہو جاتی ہے۔

ہسٹیریا کے متعلق یونانی، مصری اور رومنز کی سجھائی گئی یہ کہانیاں تمام دنیا میں پھیل گئیں اور ان پر ایمان لے آیا گیا۔

پانچویں سے تیرہویں صدی عیسوی میں مسیحیت کے زیر اثر ہسٹیریا کے معنی میں مزید تبدیلی ہوئی۔ سینٹ آگسٹائن کی تحریروں نے یہ خیال پیش کیا کہ انسانی تکالیف یا محرومیاں گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں سو ہسٹیریا کو سزا اور گناہ سے جوڑ دیا گیا۔

ان عورتوں کی بدقسمتی دیکھیے کہ ان کا علاج کرنے کہ ذمہ داری ہسپتال کی بجائے چرچ کو سونپ دی گئی جہاں پادریوں نے طرح طرح کے حربے استعمال کر کے ان کے جسم سے جن یا شیطان نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان طریقوں میں عملیات، تعویذ اور جسمانی اذیت بھی شامل تھی۔

نشاط ثانیہ میں تو بات اس سے بھی بڑھ گئی کہ ہسٹیریک عورتوں کو چڑیلیں اور جادوگرنیاں سمجھ کر آگ میں جلا دیا گیا یا پانی میں دھکا دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

سولہویں اور سترہویں صدی میں اس خیال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، جب دانشوروں نے ہسٹریا کو طبی بیماری سمجھنا شروع کیا۔ فرانسیسی طبیب چارلس لیپوائز نے زور دے کر کہا کہ ہسٹریا کا تعلق دماغ سے ہے جبکہ برطانوی طبیب تھامس سڈنہیم نے ہسٹیریا کی وجہ جذبات کے دباؤ کو قرار دیا۔ چارلس اور تھامس کی تحقیقات کے بعد ہسٹریا کو رحم سے علیحدہ سمجھنے کی تحریک شروع ہوئی۔

بیسویں صدی میں طبی سائنس کی ترویج کے بعد اینگزائٹی اور ڈپریشن کو بیماری کے طور پر جانا گیا اور یوں ہسٹریا ایک نئے دور میں داخل ہو گیا۔ میڈیکل سائنس ترقی کرتے ہوئے عورت پہ مہربان ہو رہی تھی۔ صدیوں سے رحم رکھنے کی سزا جھیلتی عورت کی زندگی پہ معاشرہ تو نہیں البتہ سائنس کو ترس آ گیا تھا۔ لیکن عورت کی یہ خوش قسمتی ابھی مغرب تک ہی محدود رہی۔ مشرق کی بدقسمت عورتوں نے ابھی مزید کئی دہائیوں تک ہسٹریا کی تشخیص کا بوجھ سہارنا تھا۔

وقت آگے بڑھا، ریسرچ نے بانجھ پن اور مرگی کو بھی ہسٹریا کے سائے سے دور کر دیا۔

سگمنڈ فرائیڈ کا نام خوابوں کے حوالے سے تو سبھی جانتے ہیں لیکن فرائیڈ نے یہ کہہ کر دنیا کو دنگ کر دیا کہ ہسٹریا مرد کو بھی ہو سکتا ہے۔ فرائیڈ کے خیال کے مطابق ہسٹریا کی جڑیں بچپن میں ہونے والے جنسی تشدد سے جا ملتی تھیں۔

ہسٹریا کو انیس سو اڑسٹھ میں نفسیاتی بیماریوں کی فہرست میں رکھا گیا۔ ہسٹریا شیطانی اور نسائی اسباب سے ہوتا ہوا نفسیاتی عوارض میں شامل ہو چکا تھا لیکن کچھ سفر ابھی مزید باقی تھا۔

انیس سو اسی تک برسہا برس کی تحقیقات نے ثابت کر دیا کہ ذہنی، نفسیاتی، نسائی اور جسمانی طور پہ ہسٹریا کسی بیماری کا نام نہیں۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ دو ہزار برس قبل مسیح سے جس نام کو عورت کے سر منڈھا گیا اور عورت کی زندگی نہ صرف اذیت بنائی گئی بلکہ عورت سے زندگی چھین لی گئی، وہ سرے سے بیماری ہی نہیں تھی۔

انیس سو اسی میں امریکن سائیکیٹرک ایسوی ایشن نے اپنے ذہنی امراض کی فہرست (DSM) میں سے ہسٹیریا کا نام نکال باہر کیا۔ کئی صدیوں پہ محیط ظلم کے اس خاتمے میں ان گنت عورتوں کے لہو کی قربانی شامل تھی۔

فیمینسٹ تاریخ دان آج مان چکے ہیں کہ ہسٹریا نامی تشخیص عورت کو عورت ہونے کی سزا تھی۔ حقوق سے پہلو تہی، کمتری اور محرومی ہی ہسٹریا کا دوسرا نام تھا۔

تاریخ کا انصاف یہ ہے کہ وہ سب کچھ سامنے لے آتی ہے۔ پدرسری نظام نے عورت سے عورت ہونے کا خراج ہمیشہ سے وصول کیا ہے اور ظلم اور نا انصافی کی یہ داستانیں وقت نے محفوظ کر رکھی ہیں۔ سمجھنے کے لئے چشم بینا چاہیے بس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments