سمیع چوہدری کا کالم: گویا یہ ٹیم ورلڈ کپ کا فائنل کھیل رہی ہو


پاکستان کرکٹ کی نمایاں ترین خاصیت یہ ہے کہ اس کے بارے کبھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ یہ ٹیم کسی بھی سیاق و سباق میں کئی اندازوں کو مات دے سکتی ہے۔ اس ٹیم کے مزاج کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ اپنی بہترین شکل میں ہو کہ بدترین، یہ ٹیم گویا اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔

ون ڈے سیریز میں اس ٹیم میں بہت سی خامیاں، کجیاں اور کوتاہیاں دیکھنے کو ملیں۔ بیٹنگ لائن اپنی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی تھی، بولرز اپنی لائن ہی طے کرتے رہ گئے اور فیلڈنگ کے بارے تو خاموشی ہی بہتر ہے۔

پاکستانی کرکٹ جرنلزم کی نمایاں ترین خاصیت یہ ہے کہ ایسی بدترین شکست کو ایک تحفۂ خداوندی سمجھا جاتا ہے اور سبھی اپنے اپنے حصے کی تیر آزمائی کھل کر کرتے ہیں۔

مگر پچھلے دو تین روز میں جو جو کچھ پاکستانی میڈیا نے اس ٹیم پہ اچھالا، بابر اعظم کی الیون نے اس ایک ایک نشتر کا رخ بدل دیا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس ٹیم کو فیلڈنگ نہیں کرنی آتی جہاں شاداب خان باؤنڈری پار جاتے ایک یقینی چھکے کو اچانک ‘آؤٹ’ میں بدل سکتے ہیں؟

اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس بیٹنگ لائن میں دم خم نہیں جو اننگز کے آخری دس اوورز میں ڈیڑھ سو سے زیادہ رنز بنا سکتی ہے؟ جس کے مڈل اور لوئر آرڈر میں فخر زمان، صہیب مقصود اور محمد حفیظ جیسے سٹرائیک ریٹ والے بلے باز ہیں۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس ٹیم کی بولنگ میں جان نہیں جہاں پریمئم بولر حسن علی کی انجری کے طفیل بینچ سے اٹھ کر آنے والے محمد حسنین ایسی بیٹنگ پچ پہ سات کے اکانومی ریٹ سے چار اوورز پھینک سکتے ہیں؟

مزید پڑھیے

پاکستان کو دوسرے ون ڈے میں بھی شکست، انگلینڈ نے سیریز 0-2 سے اپنی نام کر لی

سمیع چوہدری کا کالم: ’یہ شکست نہیں، یہ نری حماقت ہے‘

بابر اعظم کی ‘بادشاہت’ کا جشن

لیام لیونگ سٹون کی اننگز ہوشربا تھی۔ انگلینڈ کی تاریخ کی تیز ترین ٹی ٹونٹی سینچری بنانے میں ان کی ایک ایک شاٹ دل کو موہ لینے والی تھی۔ وکٹ بیٹنگ کے لیے نہایت سازگار تھی اور لیونگ سٹون نے یہاں مکمل برتری کا مظاہرہ کیا۔

مگر بیچ کے اوورز میں شاداب خان نے جس ڈھب سے بولنگ کی اور جس طرح سے بابر اعظم نے اپنے بولرز کو استعمال کیا، وہ لائقِ ستائش ہے۔ لیگ سپنر ہمیشہ کسی بھی کپتان کا جارحانہ آپشن ہوتا ہے اور جیسے بابر ڈیتھ اوورز میں شاداب کو واپس لائے، وہ کمال دانش مندی تھی۔

اور اس بہترین بولنگ کاوش کے سرخیل ٹھہرے شاہین شاہ آفریدی کہ جب وہ اپنے پہلے سپیل کی پہلی گیند کے لیے دوڑے، اس رن اپ میں ایک الگ سا ردھم تھا جو کسی بھی کھلاڑی کو صرف اسی دن نصیب ہوتا ہے جب اس کا ‘دن’ ہو۔

آفریدی اس بولنگ اٹیک کے انچارج ہیں۔ انہیں ہمیشہ باقی ساتھیوں کے لیے مثال قائم کرنا ہوتی ہے۔ آخری ون ڈے میں ان کی کارکردگی اپنے عہدے کے بالکل متضاد تھی مگر یہاں جس رفتار سے وہ بولنگ کر گئے، اس نے کئی خدشے غلط ثابت کر دیے۔

جب گیند سیدھا سیدھا بلے پہ آ رہا ہو تو کسی بھی پیسر کا واحد ہتھیار پیس ہی رہ جاتی ہے۔ یہ وکٹ بھی لگ بھگ شارجہ کے جیسی ہی تھی اور ایسی وکٹ پہ پیس ہی کامیاب رہتی ہے۔ ایسی کنڈیشنز میں لوکی فرگوسن، مچل سٹارک اور ڈیل سٹین جیسے بولرز کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ لینتھ کے معاملے میں طاق ہو جائیں۔

آفریدی نے نہایت مہارت سے انگلش بلے بازوں کو ان کے ‘کمفرٹ زون’ سے نکلنے پہ مجبور کیا اور پھر رفتار کے تغیر سے ان کے تخمینوں کو گڑبڑا ڈالا۔ اس جیت کا بہت سا کریڈٹ بابر اعظم، محمد رضوان، محمد حفیظ، شاداب خان اور فخر زمان کو جاتا ہے مگر ہمارے خیال میں نمایاں ترین کاوش شاہین شاہ کی رہی۔

اگر شاہین اننگز کے آغاز میں ہی وکٹیں نہ لیتے تو یہ ہدف بھی شاید ویسے ہی کم پڑ جاتا جیسے برمنگھم میں سوا تین سو کم پڑ گیا تھا۔ مگر یہاں شاہین نے پاکستانی بولنگ اور فیلڈنگ کا معیار ہی ایسا طے کر چھوڑا کہ گمان ہوا یہ ٹیم ورلڈ کپ کا فائنل کھیل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp