کیا افغانستان میں اب  طالبان کی حکومت ہوگی ؟


افغانستان کے اندر صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے طالبان کا افغانستان پر قابض ہونا پوری دنیا سمیت پاکستان کے لیے بھی انتہائی حیران کن ہے۔ افغانستان کے معاملات بہت ہی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں 212 اضلاع پر طالبان کا مکمل قبضہ ہو چکا ہے 70 اضلاع پر افغان حکومت کا کنٹرول ہے اور 30 سے زائد اضلاع کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بظاہر تو یہی نظر آ رہا کہ افغانستان پر طالبان اپنی زبردستی حکومت قائم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت پوری دنیا اس وقت افغانستان پر گہری اور کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے سب سے اہم صورت حال ہے کیوں کہ افغانستان کے اگر خدا نا خواسطہ حالات خراب ہوتے ہیں تو پاکستان سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ افغان جنگ میں بھی سب سے بڑی قیمت جس ملک نے ادا کی وہ پاکستان ہی تھا چاہیے۔ پاکستان کے لوگوں نے افغان جنگ کا حصہ بن کر اپنی قیمتی جانوں کا نظرانہ پیش کر اپنی غلطی کا ازالہ بھرا ہے۔

مگر اب وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی اور پاکستان کی پالسی واضح کر دی کہ اب مزید پاکستان کسی بھی ملک کی جنگ کا کسی صورت حصہ نہیں بنے گا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کی ایجنسی کے چیف جنرل فیض نے چند ہفتے قبل قومی سلامتی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی قیادت کو بتایا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو پاکستان میں مزید 5 سے 7 لاکھ افغان مہاجرین پناہ کے لئے آئے گے اور ہمیں مزید انتظامات کرنے ہوں گے ۔ کیا پاکستان مزید افغان شہریوں کو برداشت کر سکتا ہے؟

یہ تو الگ بات ہے، لیکن اس وقت جو اطلاعات افغانستان کے اندر سے آ رہی ہے وہ انتہائی اہم ہے اشرف غنی حکومت کے لیے کیوں کہ کسی بھی ملک کا دنیا کے نقشے میں رہنے کے لیے چند اہم انٹرنیشنل لیول پر چند بنیادی چیزیں ہوتی جو فیصلہ کرتی ہے کہ حکومت کس کی ہے۔ جیسے باڈر کراسنگ، باڈر پر تجارت اور سفارتی تعلقات وغیرہ جو کسی بھی ملک کے بہت اہم ہوتی ہے۔ ملک کے اندر جو کچھ بھی ہوتا رہے شاید اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا مگر اصل حکومت وہی ہوتی ہے جو سفارتی تعلقات قائم کرے، بارڈر پر ملک کی حفاظت کرے اور بارڈر پر تجارت کی نگرانی کرے۔

بظاہر دیکھنے میں اور جو انٹرنیشنل میڈیا بتا رہا ہے طالبان یہ تینوں اہم کام کر چکے ہیں امریکہ کے تعاون سے جو سنٹرل ایشا میں قطر کے شہر دوحہ میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر کا قیام ہے۔ پھر ازبکستان اور ایران کے باڈر پر تجارت کا کنٹرول سنبھالنا اور اور اب سب سے اہم بات افغان طالبان نے پاک افغان باڈر پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی اور دیگر ممالک کی نیوز ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق پاک افغان باڈر پر۔ ایک طرف سبز حلالی پرچم یعنی پاکستان کا پرچم ہے اور دوسری جانب افغانستان کے پرچم کے بجائے طالبان نے اپنا پرچم لہرا دیا۔

افغانستان کا کیا مستقبل ہوگا؟ کیا طالبان اپنی حکومت قائم کر سکے گے؟ افغان عوام کس کا ساتھ دیے گی؟ یا پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی؟ کیا پھر سے کوئی اور ملک تو نہیں افغانستان میں آئے گا؟

بظاہر جو کچھ نظر آ رہا ہے تو ایک چیز واضح ہے کہ افغانستان میں امن بہت ہی مشکل اگر ناممکن کہہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ میرے خیال میں افغانستان کی عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کس کی طرف ہے اور کس کی طرف دیکھتے ہیں؟ کیا وہ افغان طالبان کے ساتھ ہے یا پھر افغان جمہوری حکومت جو اس وقت اشرف غنی کی ہے۔ جو اس وقت حالات نظر آرہے ہیں کیا امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان فوج ناکام ہو چکی؟ کیا وہ طالبان کے اگے سلنڈر کر چکے ہیں؟ کیا حکومت بے بس ہو گئی؟ کچھ بھی کہنا شاید اس وقت قبل از وقت ہوگا۔ مگر بہتر یہی ہوگا اگر افغان طالبان اور افغان حکومت ایک پیچ پر آ جائے اور مل بیٹھ کر آپس کے اختلافات کے حل نکالنے کی کوشش کریں۔ تاکہ افغان عوام کو امن حاصل ہو اور افغانستان مزید جنگ نہ کرے بلکہ طالبان اور افغان افواج جنگ بندی کر لے۔

افغانستان میں جو کچھ بھی ہو اس کا اثر پاکستان میں ضرور ہوتا ہے اس لیے پاکستان کے لیے بھی انتہائی اہم وقت ہے اور ہمارے تمام باڈر جو افغانستان کو لگتے وہ ہائی الرٹ پر ہے اس وقت صرف دل و جگر کے مریضوں کو اعلاج اور طلبا کو پڑھائی کے لیے ہی پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہے امریکہ افغان جنگ میں 70 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کی افواج پاکستان کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلا گیا۔ پاکستان کی سرزمین پر معصوم شہروں سے ان کے آبائی علاقوں میں قبضہ کیا گیا۔ مگر اب ہمیں دوبارہ وہی غلطی نہیں کرنی۔ بس پاکستان نے پہلے بھی افغان امن کے لیے بہت سی کاوشیں کی اور اب بھی کر رہا ہے۔ مگر مزید پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بننے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments