گم نام پتوں پہ بھیجے گئے خط جن کے جواب نہیں آتے


پیارے ابو جی

کیا خیر اور کیا خیریت معلوم کروں۔ آپ وہاں ہیں جہاں سے کچھ خبر نہیں آتی۔ میں جہاں ہوں مجھے اپنی ہی خبر نہیں ہے۔ کئی راتوں سے ٹھیک سے سو نہیں پا رہی۔ سونے لگتی ہوں تو وہ غلطیاں سامنے آ کے ناچنے لگتی ہیں جن کو کرنا میرا نصیب یوں ٹھہرا، کہ آس پاس کوئی اپنا نہیں تھا۔ جب بچہ ہوش کی دنیا میں آتا ہے تو ماں کی گود کے ساتھ ساتھ باپ کی شفقت بھی اس کے لیے اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔

پدرانہ شفقت جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں چھوٹے چھوٹے قدموں سے اتنی دور تک نکل جایا کرتی تھی کہ حساب نہ رہتا تھا۔ حساب ویسے ہی کمزور ہے۔ شاید محبت اور شفقت کی کمی ایسے ہی بندے کا حساب کمزور کر دیتی ہے جیسے میرا ہے۔ پیروں میں چکر پڑنا ایک مثال سہی مگر میرے پیروں میں پڑے بھنور آپ کے دنیا سے جانے تک ختم نہ ہوئے۔

بے جوڑ شادیوں، ذہنی ہم آہنگی کے بنا صرف بدن کی فطری بھوک کے نتیجے میں پیدا ہو جانے والے بچوں کو گر علم ہو کہ دنیا کیسی ظالم جگہ ہے تو وہ پیدا ہونے سے انکار کر دیں۔ ان کو تو پیدا کرنے والے ان چاہی خواہش کے نتیجے میں دنیا میں لے آتے ہیں۔ پھر کہیں نہ کہیں وہ ان بچوں کو اپنی محرومیوں کا ذمہ دار سمجھ کے ان سے جو سلوک کرتے ہیں یہ بھی کسے خبر ہو پاتی ہے۔

ابو جی آپ کو تو میں نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ جب میں اپنے سکول فیلوز کو ان کے باپ کے ساتھ انگلی پکڑے سکول آتے دیکھتی تھی تو میں کتنا روتی تھی۔ مجھے خوامخواہ ان بچوں سے چڑ ہونے لگتی جو اپنے باپ کی محبت بھری باتیں مجھے سناتیں۔ میرا دل کرتا کہ کاش اس کے ابو مجھے مل جائیں یا میں ان کی بیٹی بن جاؤں۔ کئی بار تو میں بلاوجہ ایسی فرینڈز کے ساتھ بات ہی نہ کرتی جو ہر وقت میرے ابو میرے ابو کرتی رہتیں۔

عید آنے والی ہوتی شب برات سالگرہ یا کوئی بھی خوشی کا تہوار۔ بچے اپنے والد والدہ کا ہاتھ پکڑے گود میں چڑھے بازاروں سڑکوں پہ نظر آتے۔ ہمیں بھی سب کچھ مل جاتا تھا۔ اچھے کپڑے جوتے پیسے سب کچھ۔ مگر باپ کی انگلی پکڑنے میں بچے کے چہرے پہ جو فخر جو اعتماد ہوتا ہے۔ وہ کبھی نہیں ملا۔

مجھے آج بھی ایک بات یاد ہے کہ میری ایک فرینڈ کے ابو بہت زیادہ کیئرنگ تھے۔ ایک بار وہ لوگ پارک جا رہے تھے تو میری فرینڈ مجھے گھر سے لینی آئی۔ میری عمر یہی کوئی چھ یا سات سال ہو گی۔ امی نے بھیجنے سے منع کیا۔ میں دروازے پہ ننگے پاؤں کھڑی تھی۔ امی منع کر کے اندر گئیں تو اس نے مجھے کھینچ لیا کہ تم آ جاؤ۔ جوتی میں دے دیتی ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ چھپ کے نکل گئی تو اس کے والدین نیچے گاڑی میں تھے۔ میں ننگے پاؤں ہی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

پارک جا کر میں کھیلنے کی بجائے گھاس پہ پاؤں چھپا کے بیٹھ گئی تو انکل نے کہا بیٹا آپ کھیلنے آئے ہو بیٹھ کیوں گئے۔ میری دوست نے فوراً مجھے اپنے ساتھ اٹھایا اور کھیلنے لگی۔ جب ہم واپس جانے لگے تو انکل نے میرے پاؤں بنا جوتے دیکھ کے کہا بیٹا آپ کے جوتے کہاں ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں بنا جوتے آئی ہوں تو وہ حیران رہ گئے۔ یہ بات اتنی بڑی نہیں ہے ابو جی۔ اگلی بات سنئیے۔

انہوں نے کہا بیٹا آپ کے ابو آپ کا خیال نہیں رکھتے۔ کدھر ہوتے ہیں آپ کے فادر میں ان سے بات کروں گا۔ میرے پاس اس بات کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ میں چپ رہی۔ ان کے بار بار اصرار پہ میں نے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتے گم ہو گئے ہیں شاید۔ واپسی کے پورا راستہ گاڑی میں ایک عجیب سی خاموشی و پراسراریت تھی۔ اس دن کے بعد میں جب بھی اس دوست کے گھر گئی۔ مجھے کہا گیا وہ پڑھ رہی ہے یا سو رہی ہے۔ پھر ایک دن اس دوست نے مجھے کہا کہ میرے امی ابو نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے ساتھ نہیں کھیلنا۔ کیونکہ تمہارے ابو نہیں ہیں۔ تمہارے ساتھ کھیلنے سے میری عادتیں خراب ہوں گی کیونکہ تم ننگے پاؤں پھرتی ہوں۔ کاش ابو جی آپ کو نفسیات کی سوجھ بوجھ ہوتی تو آپ جان پاتے اس بات نے مجھے کیسا توڑ کے رکھا۔

اس دن کے بعد میں کبھی ننگے پاؤں نہیں رہی۔ مگر باپ کے سر پہ نہ ہونے سے جو رویے میں نے دیکھے اور سہے۔ ان کو کیسے بھروں۔ آپ کی شفقت و محبت کی تلاش میں ہی میں نے آپ کو ڈھونڈ نکالا۔ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ آپ تو پھر میری پیدائش کا سبب تھے۔

ابو جی جس عمر میں بچوں کو سوائے پڑھائی کے کچھ اور نہیں سوجھتا۔ اس عمر میں مجھے صرف یہ فکر رہتی تھی کہ خود کو اور چھوٹے بھائی کو کیسے بچانا ہے۔ جن عمروں کے بچے امتحان کی فکروں میں پاگل ہوئے ہوتے تھے۔ میری زندگی ہی امتحان بنی ہوتی تھی۔ والدین بچوں پہ بھروسا کرتے ہیں تو بچوں میں یہ اعتماد آتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر مشکل کو پار کر جائیں۔

ہمارا مسئلہ ہی یہ رہا کہ ہم دو کشتیوں کے سوار بچے تھے۔ جس کی ایک کشتی میں ماں دوسرے میں باپ تھا۔ دل دونوں کی جانب ہمکتا تھا۔ مگر ایک شمال کو جاتی کشتی تھی تو دوسری جنوب کو جاتی تھی۔

میں نے کوئی نہیں لکھنا تھا یہ سب مگر جب بھی میرے سامنے زندگی کوئی ایسی کروٹ لے کر آتی ہے کہ جس میں براہ راست میں فریق ہی نہیں ہوتی۔ تو مجھے پھر بہت رونا آتا ہے۔ آپ کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا ابو جی کہ میں روتی کتنا ہوں۔ رونے میں اب تو اتنی ایکسپرٹ ہوں کہ کمرہ لوگوں سے بھرا ہو اور میں آنسوؤں سے رو کے قہقہے لگا رہی ہوتی ہوں۔

مجھے گلہ شلہ نہیں ہے آپ سے مگر بس یہ کسک ہے یا سمجھ لیں خواہش ہے۔ کہ کبھی وقت پلٹ جائے اور میرے بس میں ہو تو میں آپ کو اور امی کو اکٹھا کر دوں۔ امی ناشتہ بنا کے دیں آپ سکول چھوڑنے جائیں پھر کالج اور پھر یونیورسٹی۔ اور پھر آپ فخر سے بتائیں کہ میری بیٹی افسر بن گئی ہے۔ کمی کوئی نہیں تھی ابو جی۔ بس وقت ہی ہمارا نہ تھا۔ جن عمروں میں پڑھنا تھا۔ تب جھاڑو پونچھے کرنے پہ ماریں کھاتے رہے۔ جس عمر میں سکون کرنا تھا ان میں دس جگہ پھنس کے بیٹھے ہیں۔

آپ کے اصول بڑے پکے تھے۔ آپ نے ان پہ کبھی سمجھوتہ نہ کیا مگر ابو جی بچے اصولوں سے پرے ہوتے ہیں۔ وہ گھڑی کی سوئیاں نہیں ہوتے کہ بس ایک مدار میں ٹک ٹک کر کے گھومتی جائیں۔ جیتے جاگتے انسانوں پہ اصول نہیں محبت اثر کرتی ہے۔ آپ کے آخری دنوں میں آپ نے جتنی شفقت اور محبت مجھ سے کی۔ اس کی ضرورت مجھے ڈھائی سال کی عمر میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔

آپ کے اصول تو آپ کو بڑے پیارے رہے کاش ہم بھی اتنے ہی پیارے ہوتے۔ بچے تو بڑے پیارے لگتے ہیں ابو جی۔ آپ کو کیسے بتاؤں کہ اپنے بچوں میں میری جان ہے۔ اپنی جان کوئی کیسے کہیں پہ بھی چھوڑ سکتا ہے یہ آج تک میں سمجھ نہ پائی۔ ہاں شاید ہم فطری بھوک کی بجائے محبت کے نتیجے میں دنیا میں لائے جاتے تو شاید کچھ بہتر ہو جاتا۔

اتنے سارے سوال ہیں سمجھ نہیں اتی کہ کس سے جواب لوں۔ آپ رہے نہیں ماں سمجھتی نہیں۔ مایوسی سی مایوسی ہے تاحد نگاہ۔ کیوں لکھ رہی ہوں نہیں پتہ بس یہ پتہ ہے کہ نہ لکھتی تو شاید دل بند ہو جاتا۔ آپ کی موت کا سن کر جو دل تیز تیز دھڑکا تھا، آج تک ٹھیک نہیں ہوا۔ سوچیں کہ مجھے کتنی محبت تھی آپ سے۔ آپ سے آخری ملاقات کی باتیں ویسے کی ویسے یاد ہیں۔ حتی کہ میں بھلکڑ ہو چکی ہوں۔ مگر ماضی کیوں نہیں بھولتا یہ ایک راز ہی ہے۔

ابو جی کیا اس دنیا کی باتیں وہاں آپ کو پتہ لگتی ہیں؟ کیا فرشتے آپ کو یہ تو نہ بتائیں گے کہ تمہاری بیٹی یہ خط لکھتے کتنا روئی ہے۔ ہائے کاش نہ بتائیں۔ آپ تو ٹینشن میں خوشی میں غم میں سگریٹ پہ سگریٹ پیتے تھے۔ یہ سن کر کیا کریں گے۔

وقت پلٹ نہیں سکتا۔ جو بیت گیا وہ بدل نہیں سکتا۔ مگر یہ خواہش ضرور ہے کہ ایک یوم حساب ہو اور حساب ہو ان تمام لوگوں کا جن سے میں حساب لینا چاہتی ہوں۔ سزا دینے کا مجھے کوئی شوق نہیں لیکن یہ چاہتی ہوں کہ وہ تمام درد جو میرے اندر کہیں اتر کے ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ اس کا احساس ہو۔

کیسی بات ہے کہ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد آپ کو پہلا خط لکھا۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ جواب نہیں آنا۔ میرے خطوں کے جواب نہیں آتے۔ شاید پڑھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ یا شاید میرے لفظ پتھر ہیں۔ جو گہرے زخم دے دیتے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔

آپ کی محبت میرے دل میں ہمیشہ رہے گی۔ کیونکہ نفرت کرنا مجھے نہیں آتا۔ بس ایک بات پہ ڈر رہی ہوں کہ کہیں گر نانا ابو کو ان کے فرشتوں نے میرے رونے کا بتا دیا، تو وہ آپ کو ڈھونڈنے نہ نکل پڑیں۔ وہ رونے جو نہیں دیتے تھے ابو جی۔

فقط
آپ کی ناہنجار اور باغی بیٹی
نوشی بٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments