عورتوں کی جدوجہد۔ خط نمبر 06



خط نمبر 6۔ عورتوں کی جدوجہد
محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

آپ ایک اچھی لکھاری ہیں۔ آپ کے خطوط میں ایک فطری بہاؤ ہے۔ جذبات ’خیالات‘ واقعات اور نظریات ایک ندی کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں۔

میں نے جب آپ کو پچھلا خط بھیج دیا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ خط ادھورا تھا۔ اس لیے عورتوں کے مسائل اور جدوجہد کی بارے میں اپنی رائے لکھنے سے پہلے میں چند باتیں گرین زون کے فلسفے اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں۔

گرین زون فلسفے کے مطابق انسانی شخصیت کے تین حصے ہیں۔
ہر بچہ ایک فطری شخصیت لے کر پیدا ہوتا ہے جسے میں
NATURAL SELF
کا نام دیتا ہوں۔
اس نیچرل سیلف کا ایک حصہ اپنے گھر سکول اور معاشرے کی
SOCIAL, RELIGIOUS AND CULTURAL CONDITIONING
سے متاثر ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے CONDITIONED SELF
میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کنڈیشنڈ سیلف کی رہنمائی
WHAT I SHOULD DO
WHAT I HAVE TO DO
WHAT I MUST DO
کے جذبے کرتے ہیں۔ اگر انسان ان جذبوں کی پیروی نہ کرے تو وہ احساس گناہ و ندامت کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس نیچرل سیلف کا دوسرا حصہ CREATIVE SELF
میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کرئیٹیو سیلف کی رہنمائی
WHAT I LIKE TO DO
WHAT I WANT TO DO
WHAT I LOVE TO DO
کے جذبے کرتے ہیں۔
نوجوانی تک پہنچتے پہنچتے کنڈیشنڈ سیلف اور کرئیٹیو سیلف بھرپور طریقے سے اپنا اظہار کرتے ہیں۔

روایتی لوگوں میں کنڈیشنڈ سیلف کرئیٹیو سیلف سے بڑا ہوتا ہے جبکہ تخلیقی لوگوں میں کرئیٹیو سیلف کنڈیشنڈ سیلف سے بڑا ہوتا ہے۔ لیکن اگر تخلیقی فنکار ایک روایتی معاشرے میں رہ رہے ہوں تو ان کے لیے یا تو کرئیٹیو سیلف کا اظہار مشکل ہو جاتا ہے اور اگر اس کا اظہار کریں تو وہ ایک سماجی تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

جب میں پاکستان میں رہتا تھا تو میں زیادہ خوش نہ تھا کیونکہ ایک روایتی معاشرے کی وجہ سے میری زندگی
80% WHAT I SHOULD DO
20% WHAT I LOVE TO DO
کے حساب سے چلتی تھی۔

اب جبکہ میں کینیڈا کے سیکولر اور انسان دوست ماحول میں زندگی گزار رہا ہوں اب میں بہت خوش ہوں کیونکہ میری زندگی

80% WHAT I LOVE TO DO
20% WHAT I SHOULD DO
کے حساب سے گزرتی ہے۔

میری نگاہ میں ہر بچے میں تخلیقی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ بچہ ان صلاحیتوں کا اظہار کھیل میں کرتا ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ اس کے والدین اور اساتذہ اس کی حوصلہ شکنی کرتے رہتے ہیں۔ میں نے ایک سکول کے بچوں کی نفسیاتی تحقیق پڑھی تھی جس میں لکھا تھا کہ

پہلی جماعت کے بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں 85%تھیں جبکہ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچے وہ 15٪رہ گئی تھیں۔

میں اپنے مریضوں سے کہتا ہوں کہ وہ خوشحال اور صحتمند گرین زون زندگی گزارنے کے لیے کوئی مشغلہ اپنائیں اور ہر ہفتے چند گھنٹے اپنے مشغلے کو دیں۔ آہستہ آہستہ ہابی ایک پیشن میں بدل جائے گی اور زندگی کو حسین ’بامعنی اور دلچسپ بنا دے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اپنے ماحول کو
مد نظر رکھتے ہوئے کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور پھر ان فیصلوں کے نتائج سہنے پڑتے ہیں۔

کسی بھی روایتی معاشرے اور ماحول میں عورتوں کو اور وہ بھی غیر روایتی اور تخلیقی عورتوں کو زیادہ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

آپ نے کشور ناہید اور۔ بری عورت کی کتھا۔ کے بارے میں لکھا تو مجھے کشور ناہید سے اپنی ملاقاتیں یاد آ گئیں۔ انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور سنگ میل پبلشر سے کہا کہ وہ میری کتاب۔ انفرادی و معاشرتی نفسیات۔ چھاپیں۔ کشور ناہید نے میرا تعارف فہمیدہ ریاض سے بھی کروایا۔ میں ان دونوں خواتین سے بہت متاثر ہوا۔ ان دونوں عورتوں نے پاکستانی خواتین کی آزادی و خود مختاری کے لیے بہت کام کیا ہے۔

عورتوں کی جد و جہد کی بات نکلی ہے تو میں آپ کو اپنی نئی کتاب کے بارے میں بتاتا چلوں جس کے بارے میں میں آج کل تحقیق کر رہا ہوں۔ اس کتاب کا پہلا حصہ مغربی عورتوں کی جد و جہد کے بارے میں ہوگا جس میں مغرب کی فیمنسٹ تحریک کا تعارف ہوگا۔ اس حصے میں میں

الزبتھ سٹینٹن
بے ٹی فریڈین
سیمون دی بووا
اینائس نن
ایما گولڈمین
جرمین گریر
فریڈا فرام رائخمین
ورجینیا وولف اور
کئی اور فیمنسٹ خواتین کی خدمات کا ذکر کروں گا۔

اس کتاب کا دوسرا حصہ مشرقی عورتوں کے بارے میں ہوگا۔ اس حصے میں میں
فہمیدہ ریاض
کشور ناہید
بانو قدسیہ
عشرت آفرین
امرتا پریتم
فروغ فرخزاد
کی تخلیقات کا ذکر کروں گا۔

میں نے ان شخصیتوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ۔ ہم سب۔ پر چھپنا شروع ہو گیا ہے۔ آج ہی الزبتھ سٹینٹن اور عورتوں کی بائبل۔ پر میرا کالم چھپا ہے۔

جن مغربی عورتوں نے فیمنسٹ تحریک میں زور شور سے حصہ لیا انہوں نے خواتین کے مسائل پر کھل کر مکالمہ کیا اور ایک دوسرے کو بتایا کہ کس طرح۔ مذہب۔ شادی۔ ریاست۔ قانون۔ روایت۔ کلچر۔ عورتوں کے حقوق کو متاثر کرتے ہیں اور عورتیں کس طرح پدر سری نظام کو بدل سکتی ہیں تا کہ وہ بھی معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق حاصل کر سکین اور اول درجے کی شہری بن سکیں۔

مغرب کی عورتوں ابھی اپنی منزل تک تو نہیں پہنچیں لیکن منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ انہوں نے پچھلے دو سو سال میں

ووٹ دینے کا حق
گھر کے باہر کام کر نے کا حق
اپنا بینک اکاؤنٹ رکھنے کا حق
جائیداد کی ملکیت کا حق
کار چلانے کا حق
طلاق لینے کا حق اور
اکیلے رہنے کا حق
حاصل کر لیے ہیں۔

محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

چاہے مشرق ہو یا مغرب عورتوں کا ایک بنیادی مسئلہ ان کی شادی ’خاندان اور بچے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ آج کے دور کی پاکستانی نوجوان خواتین کو شادی کے حوالے سے کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے؟

آپ کی سہیلیوں کا ارینجڈ شادی اور لو میرج کے بارے میں کیا نظریہ اور تجربہ ہے؟
آپ کا کالج اور یونیورسٹی کے نوجوانوں کی ڈیٹنگ کے بارے میں کیا مشاہدہ ہے؟

آپ کا نظریاتی دوست
خالد سہیل 25 مئی 2021

ڈاکٹر خالد سہیل
اس سیریز کے دیگر حصےبری عورت کی کتھا (خط نمبر 5)مشرقی نوجوان اور شادی کا سماجی ادارہ (خط # 7)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments