ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کرسکے


مجھے جینے کی کوئی خواہش نہیں لیکن میرے ڈاکٹر مجھے مرنے نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں زندگی ایک امانت ہے اور اسے اپنے ہاتھوں تلف کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں مگر میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ کسی کو کیوں یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ ہمیں جیتے جی مار دے پھر سانسوں کا یہ بوجھ بھی ہم کیوں اٹھائیں۔ کبھی کبھی ندامت اور پچھتاوے کا احساس مجھے کچوکے لگاتا ہے، ڈستا ہے۔ کاش میں احمر کو یوں آگے نہ بڑھنے دیتی کاش میں جان پاتی کہ دامن چھڑانا دامن بچانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

میرا نام فلک ہے۔ احفاظ مجھے فلکی کہہ کر پکارتے تھے۔ تھے اس لئے کہ اب تو ایک دوسرے کو پکارنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ کام کی بات کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔

میں نے احفاظ سے محبت کی شادی کی تھی اور اس نے اسے نبھایا بھی۔ بہت کچھ دیا لیکن میں خوش نہ تھی شادی کے پانچ سال بعد بھی آنگن خالی تھا۔ ایک کمی تھی خلا تھا۔ بڑے سے گھر میں تنہا پھرا کرتی جو چیز جہاں رکھ دیتی وہ ویرانے میں پڑے پتھر کی طرح وہیں پڑی رہتی۔ فرنیچر کی ترتیب بدلتی گھر میں دعوتیں کرتی۔ لوگوں کے آنے سے رونق ہوجاتی لیکن ان کے جاتے ہی پھر سناٹا۔ دراصل سناٹا گھر میں نہیں روح میں تھا۔ میں نے ماسٹر کیا تھا اور احفاظ کی طرف سے کام کرنے پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی لیکن آشوب بحر ہستی نے کہیں ٹک کر کام نہیں کرنے دیا۔

تین بار حمل ٹھہرا تھا مگر ہمک کر گود میں نہ آ سکا۔ پہلے حمل میں جوش و فرحت، اور اشتیاق کے عروج کا یہ عالم تھا کہ الٹراساؤنڈ پر ننھی سی شبیہ کو ہاتھ پاؤں مارتے دیکھ کر ہی نوزائیدہ کی ڈھیر ساری چیزیں خرید ڈالیں۔ حالانکہ اماں نے کہا بھی کہ آخری مہینے میں خریداری کرنی چاہیے لیکن ہم نئی جنریشن، تعلیم یافتہ، روشن خیال بھلا بڑوں کے دقیانوسی خیالات اور توہمات کو کہاں خاطر میں لاتے۔

پھر کسی نادیدہ ڈائن نے میرے بچے کا کلیجہ چبا لیا اور اس کی جان نکال لی۔ بار دگر الٹراساونڈ پر کھیلتے کودتے بچے کی بجائے چڑ مڑ سے ڈھیری پڑی تھی جس میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ میں ساکت نظروں سے اسکرین کو تک رہی تھی جیسے ڈاکٹر تصویر کو ڈیفریز کرے گی تو دھڑکن لوٹ آئے گی

ڈاکٹر کی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دے رہی تھی وہ کچھ سمجھا رہی تھی کوئی اعداد و شمار بھی بتا رہی تھی تسلی کے الفاظ بھی بول رہی تھی مگر

اس کے الفاظ تسلی نے رلایا مجھ کو
کچھ زیادہ ہی دھواں آگ بجھانے سے اٹھا

میری آنکھوں سے بے آواز آنسو گر رہے تھے درد کی شدت رگ جاں سے الجھتی تھی اور ہر بن مو سے ٹپکتی تھی۔ میاں جی بولے ”اب بس کرو اتنا رونے کی کیا ضرورت ہے انشااللہ پھر ہو جائے گا کوئی عمر تو نہیں گزر گئی۔“ میں جانتی تھی انہوں نے میری خیر خواہی میں ہی ایسا کہا ہوگا ورنہ غم تو انہیں بھی ہوا ہوگا۔ یہ مرد کبھی کبھی بڑے بہادر بننے کی کوشش جو کرتے ہیں۔

اماں چاہتی تھیں کہ نوزائیدہ کے لئے خریدی گئی چیزیں کسی کو دے دی جائیں۔ لیکن میں اس پر بالکل راضی نہیں تھی۔ مجھے آس تھی بہت جلد ان کھلونوں، کپڑوں اور پریم کو استعمال کرنے والا وجود ثانی آ جائے گا۔ لیکن امید بر نہ آئی۔ زعفران کی کونپل تو پھوٹی مگر فصل نہ اتری خوشبو نہ پھیلی ایک بار پھر کھیتی تاراج ہو گئی۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اور پھر باران رحمت نے خشت ویراں سے رخ ہی پھیر لیا۔ برس کے برس گزر گئے اور کوئی بیج نمو نا پا سکا۔

اماں کی طرف سے کئی بار اسٹور میں رکھی چیزیں پھینکنے کی کوشش کی گئی۔ مگر میں انہیں کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانے دیتی۔ شاید میں ایذا پسند ہو گئی تھی اسٹور میں رکھے بے بی کیریر، پرام اور کھلونے ذومبی بن جاتے اور مجھے نوچنے لگتے پھر میں بھی زومبی بن جاتی اور احفاظ کو نوچنے لگتی اور انہیں بھی زومبی بنا دیتی۔ دو ذومبیاں ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیتیں اور دونوں تھک کر ایک دوسرے کی لاشوں پر ڈھے جاتے۔

جانے کب تک ایسا چلتا کہ احفاظ کی دوستی احمر اور حارث سے ہو گئی۔ احمر متمول حیثیت کا۔ مالک تھا اور یہ حیثیت اسے اپنی بیوی روحی کی جائیداد اور کاروبار کی بدولت حاصل تھی۔ حارث ایک مقامی اسپتال میں ڈاکٹر تھا اور اس کی بیوی شمائلہ ایک ائر ہوسٹس تھی۔ یہ چاروں بڑے خوش مزاج، چونچال زندہ دل لوگ تھے اور زندگی سے بھرپور لطف کشید کرنے کے شوقین تھے۔ ہر ویک اینڈ پر تینوں فیملیز اکٹھا ہونے لگیں۔ کبھی روحی کے گھر کبھی شمائلہ کے ہاں اور کبھی ہمارے گھر۔

محفل جمتی۔ رات کے کھانے کے بعد کارڈ کھیلے جاتے یا کیرم کا دور چلتا یا پھر انتاکشری کر کے گلے کا سوز آزمایا جاتا۔ رات کے تیسرے پہر تک رونق لگی رہتی پھر وہیں سو جاتے دوسری صبح حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے جاتے اور اپنے اپنے گھر لوٹ آتے۔ ان لوگوں کی سنگت میں دکھ اور غم کی پرچھائیاں ایسے گھٹ جاتیں جیسے دوپہر کی دھوپ میں چھڑی کا سایہ۔

میں کافی حد تک سنبھل گئی تھی گھر کا ماحول بھی اچھا ہو گیا تھا۔

اور پھر یوں ہوا کہ احمر ویک اینڈ کے علاوہ بھی آنے لگا۔ دن کے وقت میں اکیلی ہی ہوتی تھی یا پھر کچھ دیر کو صفائی کرنے والی لڑکی آجاتی تھی۔ احمر اکیلا ہی آتا۔ اس کے چٹکلے، دلچسپ باتیں مجھے اچھی لگتیں۔ پھر تنہائی کے فسوں نے اثر دکھانا شروع کیا احمر کی باتیں ادھر ادھر سے گھوم کر مجھ پر مرکوز ہونے لگیں۔ پہلے ذومعنی جملے پھر اچکتے اچکتے فقرے میرے لب و رخسار کی ناشنیدہ مدح سرائی میں کہے جانے لگے۔ میں یہ سب روکنا چاہتی تھی میں احفاظ سے محبت کرتی تھی اور بے وفائی اور خیانت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ میں نے احمر کو ٹوکا۔ یہ لب و رخسار کی باتیں زیبا نہیں یہ صرف شوہر کے منہ سے ہی بھلی لگتی ہیں۔ جس پر اس نے کہا ”ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر کہو احفاظ نے آخری بار یہ باتیں کب تم سے کی تھیں“ اور حساب جوڑتے جوڑتے تو واقعی اتنی دیر لگ گئی کہ وہ چٹکی بجا کر بولا

”کہاں کھو گئیں“
میں پوچھنا چاہتی تھی اس نے، روحی سے یہ باتیں آخری بار کب کی تھیں لیکن نہ پوچھ سکی۔

احفاظ کے علم میں آ گیا تھا کہ احمر اس کی غیر موجودگی میں آتا ہے مگر احمر نے اسے مطمئن کر دیا تھا کہ وہ صرف میری طبیعت کی خرابی کی وجہ سے آتا ہے۔ اب یہ احفاظ کی فراخ دلی تھی یا میرے دیوانگی خیز رویے سے پیچھا چھٹنے کی آسودگی، وہ چشم پوشی کرتے رہے۔ احمر کی آمد روز ہی ہونے لگی تھی مجھے اس کی عادت ہو چلی تھی یا پھر اسے سستا نشہ کہا جاسکتا ہے کچی شراب اور ٹھہرے کا نشہ۔ سر چڑھ جائے تو جرات رندانہ پیدا کر دیتا ہے مجھے اب پڑوسیوں کی چبھتی ہوئی نظروں اور رشتہ داروں کے معنی خیز تبصروں کی پروا نہ تھی۔ تاہم اس بے خودی میں بھی عصمت کے تار و پو کو مسلنے بکھرنے نہ دیا۔

_______________________________________
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ دوسری طرف احفاظ تھے

” فلکی تم نے ملیر کراسنگ پر ٹرین اور ویگن کے تصادم کی خبر سنی ہے۔ پھاٹک بند نہیں تھا۔ ویگن ڈرائیور نے نکلنے کی کوشش کی تو دائیں جانب سے آتی ٹرین نے کچل دیا“

”ہاں ٹی وی پر دیکھی۔ بڑی دلدوز خبر ہے۔ بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اخر ڈرائیور کو ٹرین آتی دکھائی کیوں نہ دی۔“

احفاظ نے میرے تبصرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا

”اس ویگن میں ایک پٹھان جوڑا تھا۔ شوہر موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا لیکن اس کی بیوی زندہ ہے تاہم اس کی حالت تشویشناک ہے۔ حاملہ خاتون کو لوگ کراسنگ کے نزدیک نجی اسپتال لے گئے تھے جہاں حارث کام کرتا ہے۔ خاتون نے ابھی ایک بچی کو جنم دیا ہے وہ اس بچی کو کسی کو دینا چاہتی ہے حارث کا فون آیا تھا اگر ہم اس بچی کو اپنے گھر لے آئیں۔“

بچپن میں سنا تھا کہ آسمان سے پری اترتی ہے اور آنگن میں ننھی گڑیا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ پلوشہ وہی پری تھی جو ماہ نور کو میرے آنگن میں اتار کر خود آسمانوں کی طرف پرواز کر گئی۔ ماہ نور ہماری زندگی میں کیا آئی زندگی کے معنی ہی بدل گئے جیسے پنسل سے کھینچا ہوا خاکہ رنگوں سے سجی تصویر میں ڈھل گیا ہو۔ یا شاید یہ استعارہ ٹھیک نہیں کیونکہ تصویر تو بے آواز ہوتی ہے اور ہماری زندگی میں تو ماہ نور کی قلقاریاں تھیں زمزمے تھے رونق تھی۔

اسٹور میں رکھی چیزوں کو وارث مل۔ گیا تھا احفاظ کا بس نہ چلتا تھا دنیا ہی خرید لائیں۔ مجھ سے زیادہ وہ اس پر شیفتہ تھے۔ راتوں کو ایک آواز پر آٹھ کر بیٹھ جاتے وہ اسے گود میں لے کر بیٹھتے اور میں فیڈر بناتی یا وہ دودھ بنا کر لاتے تو میں اسے بہلاتی۔ بچے کے سارے کام۔ میرے لئے نئے اور مشکل تھے مگر احفاظ نے ہر قدم پر ساتھ دیا اسے نہلاتے ہوئے، کپڑے بدلتے ہوئے۔ سلاتے ہوئے۔ حتی کہ اس کے نیپی تک بدلے۔ انہوں نے عام مردوں کی طرح کسی کام میں عیب محسوس نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے جب پہلی بار انہوں نے الٹا پیمپر باندھ دیا تھا اور ہم دونوں خوب ہنسے تھے پھر انہوں نے پیکٹ پر لکھی ہدایات پڑھ کر درست طریقے سے یہ کام سر انجام دیا تھا۔ ان کی بے تحاشا محبت دیکھ کر کبھی کبھی میں انہیں چھیڑتی ”یہ سچ مچ آپ کی بیٹی تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بتا دیں۔“

”ہاں یہ میری بیٹی ہے اس میں کیا شک ہے“ وہ اس استحقاق سے کہتے کہ لمحے بھر کو دل ڈگمگا جاتا۔ منے یاد ہے عید پر ان کی چھوٹی خالہ کے ہاں گئے تو وہاں موجود باقی مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے ان کے خالو نے کہا ”یہ احفاظ ہیں۔ بیگم کے بھانجے، یہ ان کی بیگم اور یہ ان کی لے پالک بیٹی“ ۔ احفاظ مروتاً یا ادب میں کچھ کہہ تو نہ سکے مگر اسی وقت وہاں سے چلے آئے اور پھر دوبارہ ان کے گھر نہ گئے۔

ماہ نور ماشاءاللہ بہت حسین اور ذہین بچی تھی وہ بہت تیزی سے نشوونما کے سنگ میل طے کر رہی تھی۔ جسامت میں وہ اپنی ہم عمروں سے بڑی دکھائی دیتی تھی۔ احفاظ پارک میں سیر کروا کے لاتے تو ان کے کندھوں کے دونوں جانب لٹکتی ہوئی اس کی ٹانگیں اب ان کے پیٹ تک پہنچنے لگی تھیں۔ میں کہتی اب بڑی ہو گئی ہے اسے کندھوں پر کیوں اٹھاتے ہیں مگر باپ بیٹی کہاں سنتے۔ کندھے سے اترتی تو گھوڑا بنا کر کمر پر چڑھ جاتی اور میں کہتی ”اللہ احفاظ اگر آپ کے آفس کے لوگ آپ کو یوں چوپایا بنا دیکھ لیں تو کیا کہیں۔“

ماہ نور اسکول جانے لگی تھی اور تیزی سے تعلیمی مراحل طے کر رہی تھی۔ اسکول میں اپنی اساتذہ کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ ٹی وی پر بچوں کا پروگرام بھی ہوسٹ کرنے لگی تھی۔ میں اسے اس دل جمعی اور عرق ریزی سے پڑھاتی جیسے پرائمری نہیں کالج یونیورسٹی کی طالبہ ہو

احمر کی فیملی کچھ سالوں کے لئے کاروبار کے سلسلے میں لاہور شفٹ ہو گئی تھی لیکن اب وہ لوگ واپس آ گئے تھے اور پرانی محفلوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے تھے لیکن اب میں رات گئے کی ان بیٹھکوں کے حق میں نہیں تھی ماہ نور کو صبح اسکول بھیجنا ہوتا تھا۔ احمر ان دنوں کافی ڈسٹرب تھا۔ اس کے عیاشانہ اسراف اور مالی خرد برد کا معاملہ کھلنے کے بعد روحی نے بزنس کی باگ ڈور خود سنبھال لی تھی اور وہ محض ایک کارکن بن کر رہ گیا تھا۔

احمر احفاظ کی غیر موجودگی میں آنے لگا تھا لیکن اب مجھے اس کا آنا کھٹکتا تھا۔ اس کی لچھے دار باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی جب وہ آتا تو میں کھانا پکانے کے بہانے کچن میں چلی جاتی۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ڈھیر سارا کھانا لیتا ہوا آچتا۔ ساتھ میں ہمیشہ ایک لٹر کی کولڈ ڈرنک کی بوتل ہوتی۔ وہ چاہتا تھا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے ساتھ بیٹھی رہوں۔ وہ شدید ناگواری کا اظہار کرتا جب میں ماہ نور کے کسی کام میں مصروف ہوتی۔

اسے پڑھا رہی ہوتی یا اس کے لمبے بالوں میں برش کر رہی ہوتی یا اس کے ساتھ بورڈ گیم کھیل رہی ہوتی۔ جانے کب یہ ناگواری حسد میں بدل گئی مجھے اندازہ ہی نہ ہوا۔ ایک روز میں نے احمر کو صاف لفظوں میں جتا دیا کہ اس کی آمد کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے مجھے ماہ نور کو وقت دینا ہوتا ہے۔ وہ کچھ کہے بنا اٹھ کر چلا گیا۔

____________&________________________

اس سہ پہر میں ماہ نور کے کمرے میں اسے پڑھا رہی تھی۔ احفاظ لاونج میں پڑی ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھا رہے تھے۔ ماسی کچن میں چائے بنا رہی تھی کہ گھنٹی بجی۔ ماسی نے دروازہ کھولا تو احمر حسب معمول لدا پھندا داخل ہوا۔ کولڈ ڈرنک کی ایک لٹر کی بوتل سفید پلاسٹک کی تھیلی سے جھانک رہی تھی۔

” آ جاو احمر کھانا کھاؤ“ احفاظ نے کہا لیکن وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا سیدھا ماہ نور کے کمرے میں چلا آیا۔ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتی اس نے ایک لٹر محلول ماہ نور پر الٹ دیا۔ تیز بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی تو میں چونکی اور میں نے ماہ نور کو باہر کی جانب دھکیلا لیکن اتنی دیر میں احمر ماچس کی جلتی ہوئی تیلی ماہ نور پر پھینک چکا تھا اور اس کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی تھی۔ میں نے ماہ نور کو دروازے سے باہر دھکہ دیا لیکن راہ میں احمر نے اسے اچک کے بازوؤں میں دبوچ لیا احمر کے کپڑوں میں بھی اگ لگ گئی تھی۔ میں چیختی ہوئی لاونج میں آئی احفاظ کمرے کی طرف دوڑ کر آئے لیکن احمر نے دروازہ مقفل کر لیا تھا۔ احفاظ نے دروازہ کھولنے کی بہت کوشش کی مگر وہ تب تک نہ کھل سکا جب تک دروازے کی چوکھٹ جل کر نہ گر گئی۔ احمر اور ماہ نور بری طرح جھلس چکے تھے احمر اب بھی ماہ نور کو بھینچے ہوئے تھا۔

________________

ایمبولینس کے چیختے ہوئے سائرن کان پھاڑنے والے تھے مگر میرے کان تو ماہ نور کی چیخوں سے بہرے ہو چکے تھے۔ مجھے تو کچھ پتہ نہ چلا کب ماہ نور اور احمر کے سوختہ اجسام ہسپتال لے جائے گئے۔ احمر تو ہسپتال پہنچنے کے بعد مر گیا لیکن ماہ نور انتہائی تشویشناک حالت میں آئی سی یو میں تھی۔ خبر رساں ادارے خبر لینے پہنچ گئے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی خبروں کے دوران ٹی وی اسکرین کے نچلے حصے میں ایک پٹی چل رہی تھی۔

”بیوی سے تعلقات کے شبے میں دوست کو جلا کر مارنے کے الزام میں دوست گرفتار“
____________________________________

ماہ نور کو ہوش آ گیا تھا اور وہ مسلسل پاپا کی گردان کیے ہوئے تھی۔ اس کا ننھا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس پر جان چھڑکنے والا اس کا باپ، اب جبکہ اس کی جان پر بنی ہے اس کے پاس کیوں نہیں۔ وہ جو گرم روٹی سے ہاتھ چھو جانے پر پھونکوں سے ٹھنڈک پہنچاتا تھا، اب جب سارا بدن جلن سے بے کل تھا تو سرد آہوں سے ہی ٹھنڈا کر دیتا۔ اسے کون بتاتا کہ تعطیل کے روز ضمانت کی سہولت صرف خاص لوگوں کے لئے ہوتی ہے اور اس کا باپ ایک عام آدمی تھا۔ وہ اس عام آدمی کی مجبوری کو نہ سمجھ سکی اور ہمیشہ کے لئے ناراض ہو گئی۔ احفاظ ضمانت کے بعد اسے کفن میں ہی دیکھ سکے۔ اس کا معصوم چہرہ معجزاتی طور پر معمولی سا متاثر ہوا تھا حالانکہ جسم کا کوئی ریشہ نہ تھا جو جھلسا نہ ہو۔

ہم نے اپنی پیاری بیٹی کو شرمندگی، دل گرفتگی اور سوختہ دل کے ساتھ اس کی ماں کے پہلو میں سلا دیا ہم اس امانت کے اہل نہ تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments