ملک عزیز میں جنسی گھٹن کا جائزہ


یقین کیجیے ان عرب ممالک میں جہاں سے جدید مذاہب یعنی یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی ابتدا ہوئی نہ وہاں کبھی پہلے اس قدر جنسی گھٹن تھی نہ آج ہے جتنی برصغیر میں تھی اور آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں ہے۔
مذاہب کی جنسی اختلاط پر قدغنوں کو اس لیے دوش نہیں دیا جا سکتا کہ اگر ایسا ہوتا تو عرب ملک بھی جنسی گھٹن کا شکار ہوتے۔ یہ بھی دیکھیے کہ ہندومت میں نہ صرف جنس بلکہ جنسی عمل تک مذہبی رسوم کا حصہ رہیں۔ دیو داسیاں تو آج تک کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بہت پہلے کام سوتر ( کاما سوترا ) پھر کوک شاستر اور جنس سے متعلق دوسرا مواد بھی اسی خطے میں لکھا گیا۔ جبکہ عربی میں پندرھویں صدی عیسوی میں محمد ابن محمد النفظاوی کی لکھی ایک کتاب, ” الروض العاطر في نزهة الخاطر”‎ ہی مشہور ہو سکی جس کا ترجمہ  The Perfumed Garden کے نام سے انگریزی میں کیا گیا تھا۔
جب مذہبی قدغنیں رکاوٹ نہیں کیونکہ ہندومت میں دیو داسیوں سے متمتع ہوا جا سکتا تھا، زنا کو گناہ خیال نہیں کیا جاتا جبکہ دوسری جانب اسلام میں اگرچہ زنا گردن زدنی جرم کے علاوہ قرآن کے مطابق شیطان کا راستہ یعنی گناہ ہے مگر بیک وقت ایک سے زیادہ اور چار خواتین تک کو مرد اپنی مناکحت میں لے سکتا ہے تو وہ کیا اسباب ہیں جن کے سبب اس خطے کے لوگ جنسی گھٹن کا شکار ہیں۔
جو بڑی وجہ سمجھ آتی ہے وہ مقامی رسوم و رواج ہیں جیسے ہندومت میں یک زوجیت اور اسلام میں ہر دو جنسوں کے مابین اختلاط کی مناہی۔ مگر اس سے بھی بڑی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ اختلاط باہمی کی خاطر منافقانہ رویے اختیار کرنا اور خاص طور پر مردوں کی جانب سے خواتین کو پھانس کر مطلب براری کے بعد انہیں دھوکا دیا جانا ہے، یوں خواتین مردوں کے ساتھ کھلے دوستانہ تعلقات استوار کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔
جہاں کے سماج اس مد میں کھل چکے ہوئے ہیں وہاں تعلقات کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں۔ دوستیاں لگتی ہیں، قریبی جسمانی تعلقات استوار ہوتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں، دوستی اکثر پھر بھی برقرار رہتی ہے۔ معاملہ وہاں بگڑتا ہے جہاں وہاں کے مقامی رواج کو توڑا جائے یعنی داشتہ رکھ لی جائے یا دوسری غیر قانونی خفیہ شادی کر لی جائے۔ اس کے برعکس مغرب کا ایک عام کہنا ہے کہ مرد کی محبوبائیں کئی ہو سکتی ہیں مگر بیوی تو میں ایک ہی ہوں۔
ایک جنسی گھٹن ان لوگوں کی ہے جو جوان ہیں، متاہل نہیں ہے۔ اختلاط کا کوئی مناسب اور کھلا راستہ موجود نہیں۔ ایک فطری عمل سے پیدا ہونے والی خواہش کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اگر وہ لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے اور خالص انسانی حوالے سے اس میں مضائقہ بھی کوئی نہیں بشرطیکہ کوئی کسی کو دھوکا نہ دے اور محض استعمال نہ کرے۔
مگر ایک جنسی گھٹن متاہل لوگوں میں ہے، جن کی بیویاں ہیں اور کچھ کے تو بچے بھی اور کچھ کے تو بچے بھی بلوغت میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس جنسی گھٹن کی وجہ تنوع کا فقدان ہوتا ہے۔
آج سے چند برس پیشتر تعلق کی راہیں قریب قریب مسدود ہوتی تھیں ماسوائے ان کے لیے جن کے پیشوں میں مرد عورت مشترک کام کرتے ہوں جیسے ڈاکٹر، نرسز، اساتذہ، شوبز سے متعلق پیشے یا کچھ سرکاری اور نجی ادارے مگر سوشل میڈیا کے عام ہونے سے نہ صرف ایک دوسرے تک، چاہے انجان ہوں یا شناسا رسائی سہل ہو گئی ہے بلکہ اس رسائی اور تعلق کو باہمی رضامندی سے خفیہ رکھا جانا اور ناراض ہونے پر افشا کیا جانا بھی آسان ہو چکا ہے۔
اگر تعداد کا تناسب لگایا جائے تو آج بھی ایسی لڑکیاں اور خواتین لڑکوں اور مردوں کی تعداد کے مقابلے میں بے حد کم ہونگی ویسے ہی جیسے ۱۹۷۰ کے عشرے میں معروف امریکی ماہر نفسیات خاتون نینسی فرائیڈے نے جب مردوں اور عورتوں کے جنسی تخئیل Fantasies جمع کرنے شروع کیے تو مردوں کے تو فوری اور لاتعداد دستیاب ہو گئے تھے مگر عورتوں کی ایسی سوچیں اکٹھی کرنے میں انہیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔
عورتوں کے جنسی عمل میں ملوث ہونے کے خوف یا اس سے احتیاط کی مذہب کے علاوہ بھی کئی وجوہ ہیں جیسے یہ کہ عورتوں کی جنسی مزمن امراض عضویاتی طور پر گہری اور دیر میں تشخیص ہونے والی ہوتی ہیں، عورت حاملہ ہو سکتی ہے، اگر بچہ پیدا کر لے  تو اپنے طور پر پالنا پڑ سکتا ہے اور اگر اسقاط حمل کروائے تو اس کے نقصانات بھی اسی کو سہنے ہونگے، پھر پاکستان جیسے معاشرے میں بدنام ہونے کا خطرہ اپنی جگہ ہے۔
نچلے طبقے میں اس نوع کے تعلقات یا تو چلتے رہتے ہیں یا قتل وتل ہو جاتے ہیں، زیادہ تر عورتوں کے اور کچھ مردوں کے بھی۔ بالائی طبقے کے مسائل کچھ حد تک مغرب سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اس لیے وہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہوتا۔ جنسی گھٹن دور کرنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ اور کوئی نہ کوئی وسیلہ موجود اور دستیاب ہوتا ہے۔
معاملہ آن اٹکتا ہے، مڈل کلاس پر اور وہ بھی لوئر مڈل کلاس پر جو آج کی معیشت کے حوالے سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ ماہوار کمانے والوں تک کو گنا جائے گا۔ ایسے میں جنسی گھٹن عام ہوتی ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ کسی کو تحفہ دیا جائے، کسی کو ہفتے عشرے میں ریستوران لے جایا جائے چنانچہ اس گھٹن کا سارا اخراج سوشل میڈیا پر چیٹ کر کے کیا جاتا ہے۔
وہ شاید خوش بخت ہوں جن کی آس بر آئے مگر اکثر ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ ایک جانب بیویوں سے ڈرے ہوئے، دوسری جانب کسی بھی غلط قدم کے سبب گھر کے ٹوٹنے کا ڈر لیے ہوئے، تیسری جانب اپنی نام نہاد عزت و تعظیم کے داغدار ہونے کے خوف کا شکار ساتھ ہی تلذذ کو سستے سستے نباہتے رہنے کا ذوق و شوق۔
اب آپ ہی بتائیے معاشرہ بند ہونا چاہیے یا کھلا؟ اگر کھلا ہو تو کیا معاملات بگڑیں گے یا بہتر ہوں گے اور اگر بند رہے تو کیا آتش فشاں کے دہانے پر چاہے سینکڑوں ٹن وزنی لوہے کا پاٹ ہی کیوں نہ رکھا گیا ہو یا تو پگھل نہیں جائے گا یا دھماکے سے پھٹ کے ارد گرد سب کچھ کو آگ نہیں لگا دے گا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments