جنسی مریضہ


رخصتی کے وقت دلہن سے ایک بات کہی جاتی ہے۔ بیٹا اپنے شوہر کی بات ماننا۔ اسے خوش رکھنا۔
شوہر کی بات ماننے اور خوش رکھنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ بیوی شوہر کے ساتھ پر جوش رہے اس کے موڈ کا خیال رکھے۔
یہ نصیحت دلہا کو کبھی نہیں کی جاتی۔

عورت ہو یا مرد قدرت نے دونوں کے اندر جنسی لذت سے لطف اندوز ہونے کے جذبات رکھے ہیں۔ کچھ مردوں میں یہ جذبات کم اور کچھ میں زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر انہیں چند ماہ بیوی سے الگ رہنا پڑے تو وہ اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ ان مردوں کے ہی مزاج کی طرح کچھ عورتیں بھی ہوتی ہیں جو چودہ، پندرہ برس کی عمر سے ہی مخالف جنس کی طرف شدید میلان رکھتی ہیں۔ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے یہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ لیکن نہیں جاتیں اپنے جذبات اور دوشیزگی اپنے ہونے والے شوہر کے لیے محفوظ رکھتی ہیں۔ شادی کے بعد وہ صرف اپنے شوہر کا قرب اور اسی کی ہو کر رہنا چاہتی ہیں۔

لیکن اگر ایسی عورتوں کے شوہر اس طرف یا اپنی بیوی کی طرف رغبت نہ رکھتے ہوں، مصروف رہتے ہوں یا روزگار کے سلسلے میں باہر رہتے ہوں، تو ارمانوں پر اوس پڑ جاتی ہے وہ اپنا دھیان بٹانے کے لیے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی ہیں خود پر جبر کرتی ہیں۔ اور جو کبھی حادثاتی طور پر کوئی بچھڑا دوست، دور پار کا رشتے دار میسر آ جائے تب یہ جو بیچ میں حجاب، شرم کا پردہ حائل ہے، یہ منہ زور بے لگام خواہشات کے آگے زیادہ دیر ٹکتا نہیں۔ کاغذی پیرہن میں کسی کے ساتھ کیے گئے ایجاب و قبول کے الفاظ، منہ زور بے لگام جذبات کے آگے چند گھڑیوں کے لیے دھندلے ہو جاتے ہیں، اور وہ اپنی اس فطری ضرورت کو حق سمجھ کر وصول لیتی ہیں۔

عام الفاظ میں یہ بھٹکی ہوئی عورتیں بلا کی ذہین، ہوشیار اور محبتی، خاصی دیندار اور سماجی خدمت گزار ہوتی ہیں، خوب صورت باتیں کرتی ہیں۔ زمانہ ان کی پارسائی کی مثالیں دیتا ہے۔ رشتے اور دوستی نبھا نا بہت سوں سے بہتر جانتی ہیں۔ خود کو ستی ساوتری ظاہر کرنے کے سارے داؤ پیچ سے واقف ہو جاتی ہیں، یوں سمجھیے کہ پہلی چوری پر ہی ان کا دل کانپتا ہے۔ پھر یہ عادی ہو جاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کا حقیقی خدا ان کے ساتھ ہے ان کی فطری مجبوری سمجھتا ہے۔ یہ کسی گلٹ کا شکار نہیں ہوتیں، اپنی جسمانی ضرورت پوری کرنے کو پنا حق سمجھتی ہیں۔

کسی بھی غیر مرد کے سامنے خود کو بے انتہاء مظلوم ظاہر کرتی ہیں۔ اس لیے شوہر کو یا اس سے فائدہ اٹھانے والے کو ذرا شبہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلا یا آخری مرد نہیں۔ یہ صرف ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر ان سے اپنی شادی ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر آمادہ کیا جائے تو وہ راضی نہیں ہوتے۔

لیکن جو کبھی تمام تر احتیاط اور چالاکی کے باوجود بات کھل جائے، ماں، باپ، بچوں یا شوہر کو پتہ چل جائے، تو گھر میں جیسے کسی کی میت اٹھ جائے، ایسی کیفیت چھا جاتی ہے۔ خود کشی، عورت کو قتل کرنے، گھر سے نکالنے یا تعلق توڑ نے جیسے اقدامات میں سے ایک پر عمل کر ہی لیا جاتا ہے۔ وہی شوہر جو اپنی بیوی کی سلیقہ شعاری، خدمت گزاری، پرہیز گاری، عبادت گزاری، وفاداری، اخلاق اور صلاحیتوں کی تعریفیں کرتا نہ تھکتا تھا آج وہ اپنی بیوی کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں۔ اس کے لیے اس کی بیوی محض جنسی مریضہ ہے۔ جس سے تعلق جوڑے رکھنے سے معاشرے میں وہ منہ دکھانے لائق نہیں رہے گا۔ معاشرے کو منہ دکھانے کے لیے اس جنسی مریضہ سے تعلق ختم کرنا ازحد ضروری ہے۔

خاندان کے افراد، اسے فاحشہ، آوارہ، بدکردار جیسے القابات دے کر اس سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیتے ہیں۔

بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بعد شرفاء ”عزت“ بچا کر اپنی بیوی سے کہتے ہیں میں بچ نہیں سکا۔ ”میں مرد ہوں کیا تم نے کبھی میری ضرورت کو سمجھا“ ۔ اور بیوی خود کو مجرم سمجھتے اور اپنی کوتاہیوں کا بھی جائزہ لیتے ہوئے اسے آخری موقع دیتی رہتی ہے، دیتی رہتی ہے، دیتی رہتی ہے۔

لیکن کیا کوئی شوہر عورت کے اس عذر کو کہ ”میں عورت ہوں کیا تم نے کبھی میری ضرورت کو سمجھا“ کو سمجھ کر اس کے اس عمل کو معاف کرے گا۔ اسے آخری موقع دے گا ہر گز نہیں، ہمارے معاشرے میں تو بالکل نہیں۔ میاں کا رویہ سرد ہو تو بیوی کو اپنی آگ اور جذبات قابو میں رکھنے ہیں۔ شوہر سے بھی خواہش کا اظہار کیا تو بے حیا قرار پائے گی۔ کہیں اور آگ ٹھنڈی کی تو جنسی مریضہ۔ لیکن جو بیوی اپنے شوہر کو پوری نہیں پڑتی اسے طعنے اور دوسری عورت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ ہاں مگر ہوتے ہیں کچھ مرد جنہیں اپنی بیوی بہت بھاری پڑتی ہے۔ وہ بیوی کو پورے نہیں پڑتے، تو اس میں پار سائی کے راگ الاپنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔

ہماری تساہلانہ فطرت کو پارسائی کا ڈھیلا ڈھالا لبادہ سوٹ کرتا تھا، سو ہم نے اوڑھ لیا، اس پر تکبر کیسا۔ مشکل تو انہیں ہے، جن کو یہ لبادہ پورا نہیں پڑتا۔ ہماری اوقات ہی نہیں کہ ہم کسی شخص کو محض انسان ہونے کے ناتے اس کی کچھ فطری تقاضوں اور جبلتوں کو نظر انداز کریں۔ کیوں کہ ہم صرف خود کو سب سے بہتر و افضل سمجھنے پر قادر و مصر ہیں۔

قدرت جن لوگوں کی جس انداز سے نمو کرتی ہے، ہم اگر انہیں اسے انداز سے زندگی کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ خاص طور پر ازدواجی تعلقات میں دونوں جانب ہی متوازن رویہ ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی جانب کسی وجہ سے میلان کم ہے تب بھی دوسرے کی خاطر بادل ناخواستہ لیکن ساتھی کو بے دلی کا احساس دلائے بغیر اس کے لیے ایثار کریں۔ وقت کا، جذبات کا، دولت کا، نوکری کا۔ خود کو پارسا اور عورت کو جنسی مریضہ کہنے سے مرض کی بو دور تک جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments