سمیع اللہ خان کی ہاکی اور جنرل رانی کی نسل


سوشل میڈیا پر سب سے پہلے رؤف کلاسرا کی وال پر خبر پڑھی کہ ہاکی کے فلائنگ ہارس، اولمپیئن سمیع اللہ خان کے بہاولپور میں نصب کیے گئے مجسمہ سے نامعلوم ”چاہنے والا“ پہلے گیند اور بعد میں ہاکی چرا کر لے گیا، اس کے بعد میڈیا پر بھی خبریں دیکھیں اور سنیں، پھر ان کی مذمت اور ہمارے سماجی رویوں پر بحث شروع ہو گئی ہے

فلائنگ ہارس سمیع اللہ خان کا تعلق میرے وسیب سے ہے، بہاولپور کے دو بھائیوں نے ہاکی کے کھیل میں جو تاریخ رقم کی ہے وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گی، گراؤنڈ میں ایک سائیڈ فلائنگ ہارس سمیع اللہ خان نے سنبھالی ہوتی تو دوسری سائیڈ ان کے بھائی کلیم اللہ خان نے سنبھالی ہوتی پھر دونوں بھائی گیند کو جس طرح ”ڈی“ تک پہنچاتے تھے وہ منظر بہت دلفریب اور جذباتی ہوتا تھا

سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان سے کافی عرصہ تعلق رہا، میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا، یہ اعزاز میں والد محترم کے دیرینہ دوست شیخ لطیف الرحمن کی وجہ سے حاصل ہوا، انکل لطیف رحیم یار خان میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ تعینات تھے، اکثر مارچ اپریل میں سرکاری سطح پر سماجی اور ثقافتی تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں جس کے انتظامات انکل لطیف کے ذمہ ہوتے تھے، ان دنوں میٹرک میں تھا، انکل لطیف سینے پر بیج لگا دیتے اور کھلاڑیوں، فنکاروں کی آؤ بھگت کی ڈیوٹی سونپ دیتے

رحیم یار خان میں سپورٹس ایونٹس میں اکثر و بیشتر ہاکی کے دونوں سٹار کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا تھا، زیادہ تر ایونٹس محمود سٹیڈیم میں ہوتے تھے، سمیع اللہ خان جتنے سنجیدہ تھے کلیم اللہ خان اتنے ہی شرارتی اور مزاحیہ طبیعت کے مالک تھے، میں ذاتی طور پر کلیم اللہ خان کے کھیل کا فین تھا، کلیم اللہ خان ڈی کے قریب پہنچ کر بہت خوبصورت کراس مارتے کہ گول کے سامنے کھڑا کھلاڑی صرف سٹک ٹچ کرتا اور گول ہو جاتا تھا

سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان کو تو خیر دنیا جانتی ہے کہ وہ ہاکی کے انمول ہیرے ہیں جن کا متبادل آج تک دنیا پیدا نہیں کر سکی، دونوں کے بھائیوں کو ہاکی کا شوق اپنے چچا مطیع اللہ خان سے پیدا ہوا، مطیع اللہ خان جب ہاکی کے کھلاڑی تھے اس وقت ٹی وی نہیں تھا شاید اس لئے عوام ان کو زیادہ نہیں جانتی

ہاکی کے کھیل کو عروج تک پہنچانے والوں میں مطیع اللہ خان بھی شامل ہیں، مطیع اللہ خان کا تعلق بھی بہاولپور سے تھا، مطیع اللہ خان نے 1960 میں سمر اولمپکس میں سونے، 1956 اور 1964 میں سمر اولمپکس میں چاندی کے تمغے جیتے، حکومت پاکستان نے ان کی خدمات پر 1963 میں تمغہ امتیاز دیا، بہاولپور کے ہاکی سٹیڈیم کو مطیع اللہ خان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے

سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان کا مداح تو تھا ہی مگر مطیع اللہ خان کو نہیں جانتا تھا، ایک بار لاہور سے رحیم یارخان والد مرحوم اعجاز حسین کاظمی کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہا تھا کہ ٹکٹ چیکر بہاولپور سے سوار ہوا اور ہماری بوگی میں بھی ٹکٹ چیک کرنے داخل ہوا، 6 فٹ سے لمبا قد، گورا چٹا رنگ، پروقار اور بارعب شخصیت، مطیع اللہ خان بوگی میں داخل ہوئے تو کئی مسافر اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ ملانا شروع کر دیا، کسی نے پانی پیش کیا، کسی نے پھل اور کسی نے کوک پیش کی، مطیع اللہ خان سب کو محبت سے جواب دیتے اور مسکراتے رہے

یہ منظر دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ایک ٹی ٹی کی اتنی پذیرائی کیوں، والد صاحب سے پوچھا، یہ ٹی ٹی کو اتنا پروٹوکول کیوں مل رہا ہے، والد صاحب نے کہا تم نہیں جانتے، یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ جی نہیں تو والد صاحب نے بتایا کہ یہ ہاکی کے بہت بڑے کھلاڑی رہے ہیں ان کا نام مطیع اللہ خان ہے اور یہ سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان کے سگے چچا ہیں

یہ سن کر دل خوش ہونے کے بجائے اداس ہو گیا کہ ہمارا سپورٹس کا سٹار ٹرین میں مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے کی ڈیوٹی کر رہا ہے، سٹار تو ملک کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، ان سٹارز نے پاکستان کو دنیا میں شناخت دی اور ہم ان کو کیا عزت دے رہے ہیں، خیر میں نے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور پھر ہمیشہ اس پر فخر رہا

مطیع اللہ خان مسافروں کے ٹکٹ چیک کر کے رخصت ہو گئے، میں نے والد صاحب سے سوال کیا کہ ہماری حکومت کیا کر رہی ہے، مطیع اللہ خان جیسے سٹارز کو عزت دینی چاہیے، ریلوے حکام کو چاہیے کہ وہ مطیع اللہ خان کو ریلوے کی ہاکی ٹیم تیار کرنے کی ذمہ داری سونپیں، یہ کام تو عام ٹی ٹی بھی کر سکتا ہے جس پر والد صاحب نے جواب دیا، ہمارے ملک میں سٹارز کی ایسے ہی عزت افزائی کی جاتی ہے، بیوروکریسی کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ ان کے سامنے شہرت یافتہ آدمی بیٹھ سکے

یہ منظر آج تک میرے ذہن میں نقش ہے اور کئی بار نجی محافل میں اس کا ذکر بھی کیا، تمغہ امتیاز حاصل کرنے والا سردی، گرمی، بارش، دھوپ میں ایک بوگی سے دوسری بوگی میں کھجل خوار ہوتا رہا، اتنا بڑا ریلوے ہے، مطیع اللہ خان کو ایک سٹار کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا، بہاولپور کنٹونمنٹ بورڈ کی مہربانی ہے کہ اس نے اپنے شہر کے سٹار کھلاڑی سمیع اللہ خان کا مجسمہ نصب کیا جس میں وہ ہاکی اور گیند کے ساتھ کھیلتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، ہماری قوم نے ایک گیند اور ایک ہاکی کے لئے اس عظیم کھلاڑی کی عزت کا کوئی خیال نہیں کیا اور ان کو چوری کر لیا

یہ خبر دنیا بھر میں نشر ہوئی، مطیع اللہ خان، سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان نے اتنی محنت سے جس ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا اسے ایک چور نے بدنام کر دیا، مجھے غصہ اس چور پر ہرگز نہیں کیونکہ جس ملک میں تمغہ امتیاز لینے والا اولمپئن ٹرین میں ٹکٹ چیک کرنے پر لگا دیا جائے اس ملک کے عوام سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں

بلاشبہ سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان نے پاکستان کے لئے وہ کام کیا جو آج تک قائم ہے، ہاکی کا کھیل تباہ ہو گیا، آج پاکستان کا نام ہاکی کی دنیا میں کہیں نظر نہیں آتا اس کی شاید یہی وجہ سے اگر تم اپنے سٹارز اور ہیروز کی عزت نہیں کرو گے تو ایسے ہی تباہ ہو گے، ہمارے ہاں قومی ہیروز کو پذیرائی دینے کے بجائے جنرل رانی کی اولاد کو پذیرائی دی جاتی جن کے کریڈٹ میں صرف یہ ہے کہ وہ جنرل رانی کی نسل ہے، اسی کی نسل آج تک قومی تہواروں پر ایونٹس کی میزبانی کرتی نظر آتی ہے، شاید سمیع اللہ خان کے مجسمے سے ہاکی اور گیند چوری کرنے والے کا تعلق بھی جنرل رانی کی نسل سے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments