نامردوں کا معاشرہ


میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خُلع چاہیے۔ وہ تنسیخِ نِکاح کا عام سا کیس تھا۔

 اچھی پڑھی لکھی فیملی تھی دو پیارے سے بچے تھے لیکن خاتون  بضِد تھی کہ اُسکو ہر حال میں خُلع چاہیے، جبکہ میرا موکل مُدعا علیہ (شوہر)  شدید صدمے کی کیفیت میں تھا،

ِجج صاحب اچھے آدمی تھے اُنہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر مصالحت کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے۔ مُدعا علیہ (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے میں نے فوری حامی بھر لی۔ جبکہ مُدعیہ (بیوی) کے وکیل نے اِس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتُون بات چیت کے لیے راضی ہوگئی۔

 چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے:-

” ہاں خاتون ۔! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے”؟

” وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہے”

میں اُسکی بے باکی پر حیران رہ گیا ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اُس خاتُون کی کُچھ بات ہی الگ تھی۔

اُسکے شوہر نے ایک نظرِ شکایت اُس پر ڈالی اور میری طرف اِمداد طلب نظروں سے گُھورنے لگا، میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے۔

بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شُروع کر دیے۔

 جب اُس سے پُوچھا :-

” کیا آپکا اپنے مرد سے گُزارہ نہیں ہوتا؟

تو کہتی کہ:-

” ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے۔ یہ جسمانی طور پہ تو  بالُکل ٹھیک ہیں”

” تو بی بی پِھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہُوئے؟

میں نے استفسار کیا۔

وکیل صاحب! میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں ہم دو بہنیں ہیں میرے والد نے ہمیں کبھی”دھی رانی” سے کم بُلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مُجھے” کُتی” کہہ کے  بُلاتے ہیں ” یہ کونسی مردانہ صِفت ہے وکیل صاحب؟”

مُجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہو جائے تو یہ میرے پُورے میکے کو گالیاں دیتے ہیں آپ ہی بتائیں کہ اِس میں میرے مائیکے کا کیا قصُور ہے؟ یہ مردانہ صِفت تو نہیں نا کہ دُوسروں کی گھر والیوں کو گالی دی جائے!

وکیل صاحب۔! میرے بابا مُجھے شہزادی کہتے ہیں اور یہ غُصے میں مُجھے ” کنجری” کہتے ہیں

وکیل صاحب ! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اِتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پُکارتے ہیں یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نا ‘

وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں؟

میرا تو سر شرم سے جُھک گیا- اُس کا شوہر اُس کی طرف دیکھ کر بولا ” اگر یہی مسئلہ تھا تو تُم مُجھے بتا سکتی تھی نا مُجھ پر اِس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی”؟ شوہر منمنایا۔

” آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ کِسی ناجائز رِشتے کو جوڑتے ہیں تو میں خُوش ہوتی ہُوں؟

اِتنے سالوں سے آپ کا کیا گیا یہ ذہنی تشدُد برداشت کر رہی ہُوں اِسکا کون حساب دے گا؟

بیوی کا پارہ کِسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔

خیر جیسے تیسے مِنت سماجت کر کے سمجھا بُجھا کے اُن کی صلح کروائی ۔

میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے۔

میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اُس خاتُون کو اُس کے پہلے جواب پر دِل ہی دِل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور شاید ہمارا معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments