مٹا دو فاصلے ایثار کر کے


جولائی کی شدید حبس زدہ گرمی میں دوپہر تین بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ بیل بھی بجا سکتا تھا مگر اس کے لیے اسے تھوڑی محنت کرنی پڑتی کیوں کہ وہ ابھی قد میں بہت چھوٹا تھا بیل تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔

ٹھک ٹھک ٹھک!
۔ کون ہے؟ بند دروازے کے پیچھے سے آواز آئی۔
میں ہوں آنٹی۔ حسن!
کیا چاہیے تمہیں حسن! اس وقت کیا لینے آئے ہو؟

آنٹی برف لینی ہے کسی گھر سے آج برف نہیں مل رہی! یہ سنتے ہی سعدیہ کا دماغ تلملا اٹھا وہ دروازہ کھول کر ننھے حسن پر چلانے لگی۔

کتنی دفعہ کہا ہے میں زائد برف اپنے فریزر میں نہیں رکھتی جگہ نہیں ہوتی ہمارے فریزر میں مگر تمہیں سمجھ ہی نہیں آتی میری بات کوئی برف نہیں ہے حسن خطا وارانہ انداز میں سر جھکائے کھڑا رہا۔ اب مت آنا برف مانگنے۔ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور بڑبڑانے لگی۔

اچھی خاصی میں اے سی چلا کر لیٹی ہوئی تھی اتنے سے ٹائم میں گرمی سے برا حال ہو گیا، خود سے باتیں کرتی دوبارہ کمرے میں جا کر دروازہ بند کر کے لیٹ گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جیسے اے سی کی ٹھنڈک کو اپنے اندر اتارنا چاہ رہی ہو۔

٭۔ ٭۔ ٭

رفیق ایک نجی کالج میں چوکیدار تھا اس کے دو بچے تھے حسن اور زینب۔ حسن دس سال کا تھا جبکہ زینب کی عمر چار سال تھی۔ کرونا کی وبا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے رفیق کو کالج سے آدھی تنخواہ ملتی جس میں وہ مشکل سے بیوی بچوں کی دو وقت کی روٹی پوری کرتا اور گھر کا کرایہ دیتا۔ اس کے پڑوس میں سعدیہ اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی سعدیہ کی بڑی بیٹی بائیس سال کی تھی جبکہ کے چھوٹے دو بیٹے ابھی سکول جاتے تھے سعدیہ کا شوہر کینیڈا میں ہوتا تھا۔ سعدیہ بہت پرہیزگار تھی ہر وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتی ابھی بھی وہ نماز پڑھ کر لیٹی ہی تھیں کہ حسن نے آ کر دروازہ بجا دیا۔

رفیق گرمی سے ہلکان ہوتا گھر آیا تو حسن سے کہنے لگا! حسن باہر بہت گرمی ہے جلدی سے ٹھنڈا پانی لاؤ۔ ابو جی آج گھر میں ٹھنڈا پانی نہیں ہے کیوں کہ کہیں سے برف نہیں ملی آج۔ رفیق نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگا چلو موٹر چلا کر تازہ پانی نکال دو وہ پانی بھی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ یار لانے کو تو میں بازار سے برف لے آوں مگر تم لوگوں کے گلے خراب ہو جاتے ہیں اس لیے میں بازار سے برف نہیں لاتا۔ رفیق اپنی کم مائیگی کو بڑی خوش اسلوبی سے اپنے بچوں سے چھپا گیا۔

ادھر سعدیہ کی آنکھ کھلی تو عصر کی اذانیں ہو رہی تھیں اس نے وضو کیا اور نماز ادا کرنے لگی نماز پڑھنے کے بعد تکبیرات کی تسبیح نکالنے بیٹھ گئی کیوں کہ ذی الحجہ کے آخری دس دن چل رہے تھے۔ اور ساتھ ہی واٹس ایپ کے گروپ میں ایک میسج چھوڑ دیا کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں ذی الحجہ کے ان ایام میں کیے گئے نیک کام دوسرے تمام دنوں سے افضل ہیں۔

میسج کر کے وہ کچن میں بریانی بنانے چلی گئی۔ پڑوس میں حسن کو بریانی کی خوشبو محسوس ہوئی تو کہنے لگا۔

امی جی دنیا کی ساری خوشبوؤں اور سارے پرفیومز پر بریانی کی خوشبو بھاری ہے۔ مجھے بریانی بہت پسند ہے میرا دل چاہتا ہے میں بہت ساری بوٹیاں کھاؤں۔ ہاں بیٹا عید آنے والی ہے گھر میں گوشت جمع ہو گا تو میں تمہیں گوشت کا پلاؤ بنا کر دوں گی پھر خوب چاول کھانا خوب بوٹیاں کھانا۔ ماں کی بات سن کر حسن خوش ہو گیا۔

اس دن بریانی سعدیہ کی بڑی بیٹی ماریہ کے علاوہ کسی نے بھی نہیں کھائی۔ صبح سعدیہ نے باسی بریانی شاپر میں ڈال کر باہر گیٹ پر رکھ دی تاکہ کوڑے والے آئے اور کوڑے کے ساتھ بریانی بھی لے جائے۔ حسن باہر کھیل رہا تھا وہ آنکھوں میں حسرت لیے بریانی کے شاپر اور بوٹیوں کو دیکھنے لگا ماریہ یونیورسٹی سے آ رہی تھی اس نے دیکھا حسن حسرت بھری نگاہوں سے بریانی کے شاپر کو دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں میں یہ منظر قید ہو کر رہ گیا۔ وہ گھر گئی تو اس نے دیکھا کہ سعدیہ تسبیح لیے بیٹھی ہیں اور ذکر اذکار میں مصروف ہے۔ وہ سعدیہ کے پاس بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔

ماما ساری نیکی یہ نہیں کہ ہم تسبیح کے دانے گراتے جائیں۔ ذی الحجہ کے یہ دس دن ہمیں تکبیرات کے علاوہ صدقہ و خیرات، سخاوت، ایثار، اللہ کی مخلوق پر احسان کرنے اور بھلائی کے کاموں کا بھی درس دیتے ہیں۔ ماما ہمارے پڑوس میں لوگوں کے گھر فاقے چل رہے ہوں اور ہم اناج کوڑے دان کی نذر کر دیں، ہمارے پڑوس میں کوئی بھوکا سوئے تو ہمارے ذکر و اذکار کی قبولیت شک میں پڑ جاتی ہے۔

پیاری ماما! دنیاوی خواہشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہمارے دل پتھر کے اور ہمارے احساسات سرد ہو چکے ہیں ان میں ایمان کی چنگاری دب کہ رہ گئی ہے۔ میں چاہتی ہوں وہ چنگاری بھڑک کر شعلہ بنے یا نہ بنے لیکن وہ آنچ دیتی رہے تاکہ ہمیں اپنی تخلیق کا مقصد یاد رہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے باپ کو کال کرنے لگی۔

پاپا اس دفعہ ہم تین نہیں دو بکرے قربان کریں گے ایک بکرے کے پیسے ہم لوگ محلے کے غریبوں میں بانٹیں گے تاکہ عید کی خوشیوں میں وہ بھی شریک ہو سکیں۔ پھر ماریہ اپنی ماں کے ساتھ بازار گئی تو حسن اور زینب کے لیے کپڑے اور جوتے لے آئی۔ شام کو وہ سعدیہ کے سنگ ساری چیزیں لے کر ان کے گھر پہنچ گئی۔ زینب حسن دیکھو میں آپ لوگوں کے لیے نئے جوتے اور کپڑے لائی ہوں۔ نئے چیزیں دیکھ کر بچے خوشی سے ناچنے لگے۔ حسن تمہیں بوٹیاں بہت پسند ہیں نا میں عید پر تمہارے لیے ڈھیر سی بوٹیاں اپنے فریزر میں رکھوں گی۔ اس پر سعدیہ کہنے لگی اور ہاں اب سے تمہارے لیے برف بھی رکھا کریں گے۔

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments