پاکستان کے خلاف سازشیں اور بقراط عصر کی ”پھرتیاں“


ہمہ وقت مضطرب و بے چین رہنے والے اداکار، ڈرامہ نگار، مصور اور رقاص مرحوم انور سجاد ایک زمانے میں مختصر نویسی کے جنون میں گرفتار ہو گئے تھے۔ اپنی ضد کے دفاع میں اکثر جھنجھلاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے کہ ہمیں بطور قوم ”منہ کا ہیضہ“ لاحق ہو چکا ہے۔ الفاظ کو بے دریغ اگلتے رہتے ہیں۔ اپنی جوانی میں ان کے منہ سے یہ فقرہ سن کر میں بہت محظوظ ہوا تھا۔ دوستوں کی محفل میں اکثر دہراتا رہتا۔ گزشتہ چند دنوں سے مگر اس جملے کو سنجیدگی سے لینے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں۔ میری پریشانی کی بنیادی وجہ راولپنڈی کے بقراط عصر کی اوپر تلے ہوئی پریس کانفرنسیں ہیں۔

موصوف کو ٹی وی اینکروں کے روبرو بیٹھ کر یاوہ گوئی کی عادت ہے۔ ان کی زبان درازی اینکر کو بلکہ سٹار بنا دیتی ہے۔ جس چینل کی سکرین پر نمودار ہوں اس کی ریٹنگز کھڑکی توڑ ہوجاتی ہے۔ وہ مگر ان دنوں امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت کے حامل ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو ان کی یاوہ گوئی یقیناً پسند آتی ہے۔ چین مگر کچھ بولنے سے پہلے ضرورت سے زیادہ تولنے کا عادی ملک ہے۔ تہذیبی حوالے سے وہاں کے لوگ مختصر گفتگو کے عادی ہیں۔ چیئرمین ماؤ جیسے انقلابی بھی موٹی کتابیں لکھنے کے بجائے مختصر مضامین کے ذریعے ”درست خیالات کہاں سے آتے ہیں“ جیسے فلسفیانہ سوالات کے جواب فراہم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ براہ راست اور دو ٹوک رائے دینے سے گریز کرتے۔ دہقانوں میں مقبول قصے کہانیوں والے انداز اپنائے رکھتے۔

گزشتہ بدھ کے روز کوہستان میں چین کی مدد سے تیار ہونے والے داسو ڈیم کی تعمیر میں مصروف ہنر مندوں کی ایک ٹیم پر حملہ ہوا تو موصوف ”جلد ہی“ اس کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی بڑھک لگانے لگے۔ چین نے اب حکومت پاکستان سے باقاعدہ درخواست کر دی ہے کہ مذکورہ حادثے کی بابت فقط ہماری وزارت خارجہ ہی چینی ہم منصبوں سے مشاورت کے بعد کوئی بیان جاری کرے۔ چین نے تو بقراط عصر کی زبان بند کر دی۔ افغانستان مگر اس قابل نہیں تھا۔

یہاں مقیم اس کے سفیر کی بیٹی کے ساتھ ایک ناخوش گوار واقعہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ نے سینہ پھلا کر دعویٰ کر دیا کہ ”آئندہ 48 یا زیادہ سے زیادہ 72 گھنٹوں میں“ اس واقعہ کے حقائق عیاں ہو جائیں گے۔ یہ ڈیڈ لائن دینے کے بعد انہیں اس ضمن میں خاموشی اختیار کرلینا چاہیے تھی۔ ٹی وی سکرینوں پر رونما ہوتے ہوئے وہ مگر مذکورہ واقعہ سے جڑی تفصیلات اجاگر کرتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا شروع ہو گئے جو عندیہ دے رہے تھے کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہوئی ہے۔

موصوف کی بابت تمام تر تحفظات کے باوجود میں کھلے ذہن سے وطن عزیز کو بدنام کرنے والے شک کو رد نہیں کروں گا۔ بطور وزیر داخلہ مگر یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ تفتیش مکمل ہو جانے کے بعد ہی مذکورہ واقعہ سے متعلق تمام حقائق کو عیاں کرتے ہوئے اپنا دعویٰ درست ثابت کرتے۔ انہیں مگر بردبار خاموشی اختیار کرنے کی عادت نہیں۔ جن دنوں ٹرمپ امریکی صدارت کے لئے امید وار بنا تو نہایت مان سے ایک ٹی وی اینکر کو یاد دلاتے رہے کہ ٹرمپ کے حامی اسے ”امریکہ کا شیخ رشید“ کہتے ہیں۔

ایسی ”شہرت“ غالباً ہمارے وزیر اعظم کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ وزیرداخلہ کی غیر ضروری یاوہ گوئی نے افغان حکومت کو اسلام آباد سے اپنے سفارت کار واپس بلانے کو اکسا دیا۔ ہماری وزارت خارجہ اب کابل کو صبر دکھانے کی تلقین کر رہی ہے۔ تیر اگرچہ کمان سے نکل چکا ہے۔ یوٹیوب پر چھائے ”ذہن ساز“ بھی ”اندر کی باتیں“ عیاں کرتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے والی سازش ”بے نقاب“ کر رہے ہیں۔ عقل سے قطعاً محروم ہوا کوئی شخص ہی یہ دعویٰ کرے گا کہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش نہیں ہو رہی۔

سوشل میڈیا کے دور میں ایسی سازشیں دنیا کے ہر خطے میں ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے انٹرنیٹ ایجاد کیا تھا۔ فیس بک اور ٹویٹر جیسی ایپ بھی اس ملک نے متعارف کروائی تھیں۔ اس ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں مگر یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ روس اور ایران اپنے سپاہ ٹرول کے ذریعے امریکہ کو بدنام کرنے والی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھی یقیناً ایسی حرکتوں میں مصروف ہوں گے۔ بدنام کرنے والی سازشوں کا توڑ مگر سینہ پھلا کر دیے بیانات نہیں۔

حقائق اور محض حقائق کا مسلسل ذکر ہی ہمیں بدنامی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی خاطر دشمنوں کے ارادے اور چالیں اپنی جگہ برحق۔ پاکستان میں لیکن ایف آئی اے نام کا ایک سرکاری ادارہ بھی ہے۔ سنا ہے کہ وزیر داخلہ اس کے حتمی مدارالمہام ہوتے ہیں۔ چند روز قبل اس ادارے کے ایک انتہائی سینئر افسر نے میڈیا کے روبرو اعلان کیا کہ وفاقی حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے ایک اور ادارے یعنی نادرا نے 40 لاکھ لوگوں کو پاکستان کے قومی شناختی کارڈ جاری کر دیے ہیں۔

یہ تمام افراد اگرچہ غیرملکی ہوتے ہوئے ان کارڈوں کے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ نادرا کا مگر جو سندھ میں دفتر ہے وہاں بیٹھے ہوئے کرپٹ افسران کے ایک گروہ نے مبینہ طور پر اتنی بڑی واردات کر ڈالی۔ جن لوگوں کو یہ کارڈ جاری ہوئے ہیں ان میں بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارندے اور ایجنٹ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ کی بدولت غیر ملکیوں نے ہمارے ملک میں قیمتی جائیدادیں بھی خرید لی ہیں۔

چالیس لاکھ، خدارا سوچیں، ذہن کو ماؤف کردینے والی تعداد ہے۔ یہ تعداد پاکستان کے کسی ”دشمن“ نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں پھیلائی۔ ہماری ایف آئی اے کے ایک ”فرض شناس“ افسر نے آشکار کی ہے۔ اس دعوے کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کا کون سا ملک میرے پاس موجود قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ پر اعتبار کرے گا؟ ہمارے شناختی کارڈوں کی ”اصلیت“ پر سوال اٹھانے میں ایم کیو ایم نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گزشتہ جمعہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے جو اجلاس ہوئے ان کے دوران اس جماعت کے لوگوں نے ”جعلی شناختی کارڈوں“ والے قصے کے بارے میں دہائی مچائی۔

ہمہ وقت ٹی وی سکرینوں پر براجمان وزیر داخلہ دونوں میں سے کسی ایک ایوان میں بھی موجود نہیں تھے۔ تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن علی محمد خان پارلیمانی امور کے ”چھوٹے وزیر“ ہیں۔ عمران حکومت کے امیج کا دفاع کرنے کو مگر پارلیمان میں ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ سینٹ میں انہوں نے ٹھوس اعداد و شمار بتاتے ہوئے اصرار کیا کہ پورے سندھ میں نادرا نے گزشتہ تین برسوں میں فقط 26 لاکھ شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ ”چالیس لاکھ“ کا عدد نجانے کہاں سے آ گیا۔ کمال فیاضی سے مگر انہوں نے یہ عدد بتانے والے افسر کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ اس کی ”زبان پھسل گئی“ ہو گی۔ زبان کی مبینہ ”پھسل“ کو لیکن ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھنے والے غیر ملکی سفارت کار اور دیگر ممالک میں امیگریشن ڈیسکوں پر تعینات افسر کیوں خاطر میں لائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments