مرزا اسلم بیگ کی کہانی: ان ہی کی زبانی
سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب حال میں ہی پبلش ہوئی ہے۔ اس کتاب میں دیگر امور کے علاوہ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کے بارے میں چند اہم باتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے میں جان بحق ہونے کے بعد انہیں چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا گیا تھا۔ جنرل صاحب اپنی کتاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں لکھتے ہیں۔ کہ ان کی حکومت کی برطرفی کے فیصلے پر میری خاموشی کو انہوں نے سازش سے تعبیر کیا۔
بقول جنرل بیگ اس وقت کے صدر اسحاق خان کے ساتھ محترمہ کے اختلافات تھے۔ جو ان کی برطرفی کی وجہ بنے۔ سابق آرمی چیف نے محترمہ شہید کی نیوکلیئر پالیسی کو سراہتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ کہ انہوں نے اس حساس ترین معاملے کو بڑی دانشمندی کے ساتھ ہینڈل کیا۔ شہید وزیراعظم کے دور میں ملکی سلامتی کے حوالے سے اہم ترین کارنامے سر انجام دیے گئے۔ ان کے دورحکومت میں بھارت نے ہماری ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا ناپاک ارادہ کیا۔
تو محترمہ نے فوری طور اپنے وزیرخارجہ کو یہ پیغام دے کر دہلی روانہ کیا۔ کہ اگر بھارت اپنے ارادے سے باز نہ آیا۔ تو اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دی جائیں گی۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت کے خلاف کامیاب سرجیکل سٹرائک کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ بقول مرزا اسلم بیگ بینظیر بھٹو شہید کی ہدایت پر بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کے لئے اینٹی ٹینک میزائل روانہ کیے گئے تھے۔
مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیا ہے۔ انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلوں کو بھی متنازعہ قرار دیا ہے۔
1988 میں بری فوج کی کمان سنبھالنے والے مرزا اسلم بیگ آج بڑھاپے اور ریٹائرمنٹ کی بے اختیار زندگی کی وجہ سے کچھ بدلے بدلے سے دکھائی دیتے ہیں۔ کہاں وہ بے پناہ طاقت اور گھمنڈ اور کہاں آج خالی ہاتھ۔ شاید جنرل صاحب اپنی کتاب کے ذریعے اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔ آج وہ محترمہ کے ملکی سیکورٹی کے حوالے سے اٹھائے گئے بعض مثبت اقدامات کا اچھے انداز میں ذکر کر رہے ہیں۔ مگر ماضی میں انہیں سیکورٹی رسک سمجھا گیا۔ قارئین بالخصوص پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کو اس بات کا علم ہوگا۔ کہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے مرزا اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت عطا کیا گیا تھا۔ مگر جنرل صاحب نے بی بی کی اس کاوش کی کوئی قدر نہیں کی۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو اقتدار کی منتقلی کے وقت روڑے اٹکانے والے غلام اسحاق خان کی اصل طاقت جنرل اسلم بیگ تھے۔ جو محترمہ کی حکومت کی برطرفی کے وقت سابق صدر کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ آج جنرل صاحب اس معاملے سے کیسے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بے نظیر مخالف سیاسی اتحاد آئی جے آئی کی مدد کر کے ایک سازش کے تحت پیپلز پارٹی کو اکثریتی جماعت بننے سے روکا گیا۔
اس کے علاوہ سرکاری سرپرستی میں پیپلز پارٹی مخالف سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ ان باتوں کا واحد مقصد ملک کی واحد عوامی پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنا تھا۔ کاش جنرل بیگ اس دور میں تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہوتے۔ تو آج ملک کی سیاسی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔ نہ غلام اسحاق خان کو میاں نواز شریف کی حکومت گرانے کی جرآت ہوتی۔ اور نہ ہی کاکڑ فارمولے کے ذریعے عوامی مینڈیٹ سے برسراقتدار حکومت کا بوریا بستر گول کیا جاتا۔ یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز حکومت کی برطرفی کو خلاف آئین قرار دے کر بحال کر دیا تھا۔
مگر سابق آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے وزیراعظم نواز شریف کو بزور طاقت مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
ماضی میں سرکاری سرپرستی میں بنایا جانے والا سیاسی اتحاد آئی جے آئی اور 2012 میں جنرل پاشا کی زیر سرپرستی بننے والی تحریک انصاف کی کہانی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے۔ ان دونوں کے قیام کا مقصد ایک ہی تھا۔ یعنی عوام کی حقیقی ترجمانی کرنے والی سیاسی پارٹی کا غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے راستہ روکنا۔ بدقسمتی سے اس غیر جمہوری سوچ کی وجہ سے معیشت بری طرح عدم استحکام کا شکار ہوتی رہی۔ اور پاکستانی بے پناہ مشکلات کا شکار ہوئے۔ مگر اشرافیہ کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے لئے یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی۔ کہ ان کے نامزد کردہ سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد حکومت کی برطرفی سے آگاہ تھے۔ مگر انہوں نے محترمہ کو اطلاع دینے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ محترمہ کی کابینہ کے بعض وزرا بھی حکومت کی برطرفی کی سازش میں شریک تھے۔
مقبول سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے لئے طاقتور قوتیں سیاستدانوں میں سے ہی مہروں کا انتخاب کرتی آئی ہیں۔ آج کے زیر عتاب میاں نواز شریف ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے مہرے کی حیثیت سے محترمہ شہید کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے رہے۔ موجودہ دور میں گجرات کے چوہدری، ہالہ اور لال حویلی کے مکینوں کے علاوہ دیگر لوگ طاقتور حلقوں کو نواز شریف کے خلاف اپنا کندھا فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کے لئے ان مہروں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، میاں نواز شریف، میر ظفراللہ جمالی اور محمد خان جونیجو کی حکومتوں کی رخصتی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
اقتدار کے اس بے رحم کھیل میں نقصان پاکستان کے غریب عوام اٹھا رہے ہیں۔ اور نہ جانے کب تک اٹھاتے رہیں گے۔ شاید اس کھیل کا اختتام اس وقت ممکن ہو جب سیاستدانوں کی اپنی صف سے مہرے بننا بند ہو جائیں۔ کاش ایسا ممکن ہو۔
- محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یاد میں - 29/12/2023
- عورت کی برہنگی - 15/11/2023
- آرمی چیف کی تعیناتی کا ہنگامہ - 19/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).