سوچ کو بدلنے سے معاشرہ بدلے گا


غور و فکر کرنا دانا انسانوں کا خاص وصف ہے۔ دنیا جہاں میں ہزاروں معاملات ہیں جن پر انسان غور کر کے دنیا اور خود کو بدلنے کی کامیاب سعی کر سکتا ہے۔ معمولی واقعے اور بات سے متاثر ہو کر انسان میں مکمل بدلاؤ آ سکتا ہے۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش کرنا اتنی ضروری نہیں جتنا خود اور اپنی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ خود کو بدلنے میں پختہ ارادہ اور مکمل حوصلہ لگتا ہے۔ انسان اور جانور میں ان کی حرکات و سکنات اور عادت و اطوار میں فرق نہ رہے تو وہ اشرف المخلوقات کے حقیقی منصب پر فائز نہیں رہ سکتا، وہ اس کا حقدار تب ہی ہے جب واضح علامات ہوں جو تفاوت کر سکے کہ انسان افضل ہے۔

فرد سے خاندان اور خاندانوں سے معاشرہ بنتا ہے۔ اگر فرد کی سوچ منفی ہو، عادات برے ہوں، ذہن خرافات کا منبع ہو تو معاشرے کو بھی ابتر صورتحال کا سامنا ہوگا۔ فرد کی سوچ اگر اچھی اور مثبت ہوگی تو عین ممکن ہے کہ معاشرہ اعلی اقدار کا حامل ہوگا۔ ہر فرد کی شکل و صورت، عادات و اطوار، کردار، گفتار اور طور طریقہ الگ ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک فرد کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی ویسے ہی ایک کی سوچ دوسرے سے میل نہیں کھاتی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایک جیسی سوچ رکھنے والے افراد موجود ہوں۔

اچھی سوچ والے معاشرے کو سدھار کی طرف لے جاتے ہیں اور بری سوچ بربادی کے دروازوں کو کھولتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اخوت، محبت اور حب کے پھولوں کے بجائے نفرت کے کانٹے زیادہ پنپ رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے پیار محبت کے بجائے نفرت اور بیزاری سے رہنے کے عادی ہیں۔ ایک دوسرے سے منقطع رہنے کے لیے ہم نے دیواریں ہی اونچی نہیں کی بلکہ ایک دوسرے سے اختلاف کرنا ہماری سوچ میں شامل ہے۔ ایک دوسرے سے دور رہنے کے باوجود ہم ایک دوسرے کی چغل خوری کرتے ہیں۔

ہم بغض و عداوت، حسد اور کینہ ہی نہیں رکھتے بلکہ ایک دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھنے کے بجائے برائیوں کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔ عورتوں کا تو خیر گپ کرنا، غیبت میں مبتلا ہونا عام ہے اور وہ باتوں باتوں میں پورے محلے کے ایک ایک خاندان کے تمام پشتوں کی خبر گیری کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں مرد بھی چغل خوری اور غیبت جیسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ہم نے اخلاق اور تمیز کا جنازہ نہیں اٹھایا بلکہ انہیں گمنام قبروں میں دفن کر دیا ہے۔

جس معاشرے میں گناہ اور ثواب میں تمیز کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جائے اور یہ دونوں برابر سمجھے جانے لگے وہ تنزل کا شکار ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی پریشانیوں، مصیبتوں اور آفتوں میں پھنس جاتا ہے۔ ہم تباہی و بربادی کے جس دہانے پر کھڑے ہیں اس کے پیچھے فقط ہماری منفی سوچ ہے۔ ہم اپنا کام بھول کر زیادہ تر وقت دوسروں کے کام میں نقص نکالنے میں صرف کرتے ہیں۔ اپنے گھر کی حالت کو سدھارنے کے بجائے دوسروں کو تنبیہ کرنا، اپنے گھروں کو دوزخ بنانے کے بعد جنت کی تمنا کرنا، بدتمیزی اور بے حیائی کو فروغ دے کر دوسروں سے تمیز و تہذیب کی توقع کرنا ہمارا وتیرہ بن گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اکیلا فرد انقلاب لا سکتا ہے، اپنی آواز بلند کر سکتا ہے لیکن انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے اس فرد کی آواز پر لبیک کہا جائے اور اس کے کاندھے سے کاندھا ملا لیا جائے جب ہی ممکن ہے کہ ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا اور امید کی ایک نئی کرن پھوٹے گی جو پورے جہاں کو روشن کر دے گی۔ سوچ کے بدلنے سے ہماری پوری حالت بدل سکتی ہے اگر ہم منفی کے بجائے مثبت اور تخریب کے بجائے تعمیر کی طرف توجہ کریں گے۔

ہماری سوچ میں فتور آ گیا ہے۔ ہم ہر مثبت واقعے اور بات کے صرف منفی پہلوؤں کو سوچتے ہیں۔ ہماری سوچ اس حد تک گر چکی ہے کہ اگر ہم لڑکے اور لڑکی کو اکٹھے دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ یہ عشق و معشوقیوں کے چکر میں پڑنے والے لیلی مجنوں ہوں گے۔ بھائی بہن، ماں بیٹا جیسے رشتوں کی طرف ہماری سوچ نہیں جاتی۔ کوئی لڑکھڑا کر چل رہا ہو تو یقیناً وہ شرابی ہوگا، نشے میں دھت ہوگا، ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ بیمار ہو سکتا ہے، طبیعت ناساز ہو سکتی ہے۔

ہماری سوچ گندی اور عادتیں حد سے زیادہ بری ہیں۔ ہر فرد اگر صرف اپنا محاسبہ کریں تو یہ نوبت ہی آن نہ پہنچے کہ فلاں برا ہے اور اس میں یہ یہ عیب ہیں۔ ہمیں دوسروں کے عیب واضح تو نظر آتے ہیں لیکن جب اپنے گریبان کی طرف جھانکنے کی نوبت آتی ہے تو جانے وہ کیڑے نظر کیوں نہیں آتے جو ہمیں دوسروں کے کردار اور گفتار میں نظر آتے ہیں۔

ایک دو کی بات نہیں پورے کا پورا معاشرہ مرد و زن، ماسٹر، چپراسی، خواندہ، ناخواندہ، ڈاکٹر، رہبر، مسافر، بچے، بوڑھے تمام افراد کے ذہنوں میں منفی سوچ کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ ہدایت یافتہ ہونا اللہ رب العزت کا خاص کرم ہے۔ اس کا رتبے اور مرتبے سے کوئی تعلق نہیں۔ بری سوچ کا حامل کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی فرد ان برائیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے جو اس کے شایاں شان نہیں۔ ہمارے یہاں ایک ماسٹر صاحب ہیں۔ عزت، دولت، رتبے، زمین، جائیداد سب نعمتوں سے اللہ رب العزت نے نوازا ہے لیکن فطرت سے مجبور ہیں۔

پانچ وقت مسجد میں حاضر رہتے ہیں، ہمیشہ پہلے صفحے پر قابض، صاحب اولاد، لیکن عادتیں فاسق اور خراب، کوئی برائی ایسی نہیں جو ان میں موجود نہ ہو۔ چوری سے لے کر چغل خوری تک، غیبت کرنا، جھوٹ بولنا دوسروں کے لیے آزار کا سبب بننا، باتوں اور عادتوں سے رنجیدہ کرنا اس کی عادت ہے۔ حسد اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ اللہ کے ہر کام سے اعتراض جتاتے ہیں۔ ہر فرد کے سامنے دوست لیکن پیٹ پیچھے دشمن۔ کوئی کام ایسا نہیں جو اس کے خاندان نے نہ کیا ہو۔

چوری سے لے کر سینہ زوری تھا ہر کام میں ماہر۔ اس کا بس چلے تو خدا سے لڑ بیٹھے کہ فلاں بندے کو اپنی نعمت سے کیوں نوازا۔ کون کیا کرتا ہے، کیوں کرتا ہے، کس لیے کرتا ہے ہر حرکت پر نظر اور ان حرکتوں کو منفی رنگت دے کر سو بار دہرانے کی عادت۔ چونکہ اپنی عادتوں پر ان کا اختیار نہیں اس لیے اپنے خاندان پر بھی اختیار کھو رکھا ہے۔ بیٹیاں وہ گل کھلا رہی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ بیوی اپنی ہی گھر کو لوٹ رہی ہے۔ کبھی برتن چوری کر کے بیچ دیا تو کبھی کوئی اور شے۔

چونکہ صاحب علم ہے اس لیے ان سے توقع ہے وہ بری حرکات و سکنات کا مرتکب نہیں ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ میرا مقصد کسی کی عیب جوئی کرنا نہیں ہے۔ اس روداد کو بیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد اور گھرانے بد ذہانت اور منفی سوچ رکھتے ہیں باقی کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ اگر ایسے انسان خود کو بدلنے کی کوشش کر لیں تو ان کی دیکھا دیکھی میں بہت سارے افراد بدل جائیں گے۔ جو شخص خود کو بدل لیتا ہے، اپنی سوچ کو صحیح کرتا ہے اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی تربیت صحیح ڈھنگ سے کر لیتا ہے۔ خاندانوں سے معاشرہ وجود پاتا ہے۔ اگر خاندان اچھے اوصاف کا حامل ہوگا تو معاشرہ مثالی ہوگا اگر خاندان محفوظ نہیں تو معاشرہ محفوظ نہیں۔

خود کو بدلنے والا شخص ہی دوسروں کے لیے تحریک بن سکتا ہے۔ جس طرح بری صحبت انسان کو بگاڑ دیتی ہے اسی طرح اچھی صحبت نکھار دیتی ہے۔ ہمارا معاشرہ تالاب نہیں کہ گندی مچھلی کو نکال باہر نہیں کر سکتے اور باقی مچھلیوں کو گند اور بیماری سے نہیں بچا سکتے۔ معاشرے میں گندی مچھلی کی تربیت اور اصلاح ممکن ہے۔ ہاں سارا تالاب گندا ہو تو تربیت، اصلاح اور سدھار کا خواب بے وقوفی ہے۔ سنہری اور انمول باتیں وہاں اثر کرتی ہیں جہاں کان ہوں۔

بہرے کو موسیقی اور اندھے کو نظارے دکھانا کار عبث ہے۔ پاگل شخص پر فہم و فراست اور عقل و دانش کی باتیں اثر نہیں کرتی۔ جس اللہ رب العزت نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہو، اچھے اور برے، کھرے اور کھوٹے، سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی قوت عطا کی ہو وہ انسان کیونکر اچھائی کو چھوڑ کر برائی کا مرتکب ہو جائے، لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بنے، دلوں کو توڑے، اذیت اور جھگڑے کی وجہ بنے۔ تربیت سے جانوروں کو تمیزدار بنایا جا سکتا ہے۔

ان کو جو باتیں اور حرکات سکھائی جاتی ہیں وہ ان ہی کو من و عن دہراتے ہیں۔ انسان تو افضل الخلائق ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ جانوروں سے بدتر حرکات و سکنات کا مرتکب ہو جائے۔ ہمیں فقط سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے یہ دنیا خود بخود حسین و جمیل اور رہنے کے لائق ہو جائے گی۔ اگر ہمارے اخلاق، عادات و اطوار، طرز زندگی، باتوں کا ڈھنگ اور چلنے کا رنگ یوں ہی رہا تو ہم مزید زوال کی طرف دھنستے چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments