اشتہاریوں کے ریوڑ


میری کوشش ہوتی ہے کہ سویرے سویرے جہاں قومی اخبارات کی عرق ریزی کروں، وہاں تھل بالخصوص لیہ، بھکر، جھنگ اور میانوالی کے مقامی اخبارات کی بھی زیارت کروں۔ میرے خیال میں قومی اخبارات میں دوردراز علاقوں کی سکینڈلز اور دیگر ایشوز پر خبریں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور اگر ہوتی ہیں تو اتنی نمایاں جگہ نہیں ہوتی ہیں، یوں پسماندہ علاقوں کے ایشوز دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے جیسے صحافیوں مقامی اخبارات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ابھی کل ہی لیہ کے ایک مقامی اخبار کی اس خبر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا کہ میانوالی مظفرگڑھ۔ ایم ایم روڈ۔ مطلب قاتل روڈ، خونی روڈ کی ابتر حالت کی وجہ ٹریفک حادثات کی وجہ سے صرف 6 ماہ کے دوران 55 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں، مطلب 55 خاندانوں کے گھر لاشیں پہنچیں اور ان کا نا ختم ہونے کا غم کا آغاز ہو گیا۔ ماں باپ بہنیں، بیٹیاں کی زندگیاں یکسر تبدیل ہو کر رہ گئیں۔ ابھی تک رپورٹر کی تحقیقی خبر کو پڑھ میں جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ٹریفک حادثات میں گاجر مولی طرح انسانی جانوں کی تعداد اس قاتل روڈ کی ہے جو کہ صرف لیہ سے گزرتا ہے، یعنی کہ بلکسر سے میانوالی اور میانوالی سے بھکر تک یا پھر مظفرگڑھ کی حدود میں گزرنے والے قاتل روڈ کی نہیں ہے، اگر مکمل ایم ایم روڈ پر اس سال حادثات کی تعداد میں زندگی کی بازی ہارنے والے کو شامل کر لیا جائے تو وہ کہیں زیادہ ہوگی؟

فرض کریں اس سال کے پہلے چھ ماہ میں پورے قاتل روڈ پر ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 55 ہے تب بھی بہت بڑی تعداد ہے، اور حکومت اس روڈ کو تسلسل کے ساتھ نظرانداز کرنے کی وجہ سے جوابدہ ہی نہیں قابل گرفت ہے مطلب وقت کے قاضی کو اس بارے میں از خود نوٹس لینا چاہیے کہ آخر ایم ایم روڈ جو کہ قاتل روڈ اور خونی روڈ کا نام تک پا چکا ہے۔ اس کو موٹروے میں تبدیل کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیا جا رہا ہے؟

قاتل روڈ کے خونی کردار کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے سامنے میانوالی کے موٹرسائیکل پر سکول جاتے دو بچوں اور ان کے جوان باپ کی لاشیں آ رہی ہیں جو کہ میانوالی میں وہی روڈ کی ابتر حالات کی وجہ سے ٹرالر کے نیچے آ کر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ان معصوم بچوں کی ماں اور داد دادی سمیت دیگر خاندان کا دکھ کون سمیٹ سکتا ہے؟ اسی طرح سرائے مہاجر کے قریب ایم ایم روڈ پر ایک بس نے سکول سے آٹھویں اور نویں کلاس کی 7 بچیوں جو کہ سائیکل رکشہ پر سوار تھیں، کچل دیا، اب اندازہ کریں ان خاندانوں پر کیا گزری ہوگی جن کی بچیاں اپنے آخری امتحانی پیپر کے بعد خوشی خوشی گھر جا رہی تھیں؟

اور پھر حادثہ کے بعد کفن میں لپیٹ کر ماں باپ کے حوالے کی گئی تھیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے اس حادثہ کے بعد کیا گیا۔ وہ ایک اور دکھ بھری کہانی ہے؟ ایم ایم روڈ۔ قاتل روڈ۔ وزیراعظم عمران خان کے حلقہ انتخاب اور آبائی شہر میانوالی سے بھی گزرتا ہے، وزیراعظم عمران خان، لائیو کال پروگرام۔ وزیراعظم آپ کے ساتھ۔ میں ایک کالر کی میانوالی سے کال پر اسی ایم ایم روڈ مطلب قاتل روڈ کی حالت زار کا یوں ذکر کیا تھا کہ وہ خود بھی ایک بار اس خونی روڈ کی بدتر حالت کی وجہ سے ٹریفک حادثہ سے محفوظ رہے تھے لیکن اقتدار میں وزیراعظم عمران خان کو تین سال ہو گئے لیکن اس ایم ایم روڈ کو توجہ نہیں دی جو کہ یہاں کی باسیوں کی زندگیاں بچانے کے لئے ضروری تھی بلکہ روف کلاسرا جیسے سینئر صحافی نے ایم ایم روڈ کی طرف توجہ دلائی تو موصوف ناراض ہو گئے۔

اب اس کے بعد کیا عرض جا سکتا ہے؟ وزیراعلی عثمان بزدار نے بھی ایم ایم روڈ، قاتل روڈ کے حوالے تھل کے عوام کو مایوس کیا، وہ قاتل روڈ کو موٹروے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لینے کی بجائے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ یہ وفاق کرے، یوں تھل کے ضلع بھکر کے رکن قومی اسمبلی ثنا االلہ مستی خیل ایوان میں آبدیدہ ہو کر بتا رہے تھے کہ میٹرو بس سروس پر جھوٹے لینے والے کیا جانیں؟ ایم ایم روڈ جو کہ قاتل روڈ کا نام پا چکا ہے، وہاں انسانی زندگیاں موت کے منہ میں جا رہی ہیں اور ہمارے کندھے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں؟

لیکن عوام اور مستی خیل کی آہ و زاری کے باوجود اب لیہ کے مقامی اخبار میں رپورٹ ہوا ہے کہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں 55 قیمتی جانیں ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن گئی ہیں۔ ابھی قاتل روڈ پر انسانی زندگیوں کو ٹریفک حادثات میں گاجر مولی کی طرح کٹنے کی افسوسناک تحقیقی خبر سے نکلا ہی تھا کہ آگے لیہ کی ایک اور دہلا دینی والی خبر منتظر تھی، وہ یوں تھی کہ لیہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید علی رضا نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ لیہ میں صرف ماہ جون کے دوران پولیس نے لیہ سے 150 اشتہاریوں کو گرفتار کیا ہے جو کہ سنگین جرائم کے بعد قانون کی گرفت سے دور تھے یا پھر وہی ہاتھ متحرک تھے، جن کے لئے اشتہاریوں کے یہی۔

اجڑ۔ لیہ ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب میں سیاست اور دھندے میں منافع کا ذریعہ ہیں؟ ادھر پولیس کے اعلی افسر اور ان کے ما تحت ایس ایچ اوز، سید علی رضا کی لیہ میں بحیثیت ڈسٹرکٹ پولیس لیہ تعیناتی سے پہلے سفارش کے اثر یا پھر چونچ گیلی ہونے کے سبب ان اشتہاریوں کو پتھاداری اور با اثر افراد کے ڈیروں پر موجودگی کی اطلاع کے باوجود خاموش تھے؟ یوں اشتہاریوں کا۔ اجڑ۔ جو ریاست اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے بعد لیہ میں موجود تھا، اور وہ عوام کی زندگی کو کس انداز میں تلخ کر رہا تھا؟

وہ بھی ایک درد ناک کہانی ہے؟ ادھر میرے ذہن میں بار بار یہ سوال بھی آ رہا ہے کہ ڈی او پی لیہ سید علی رضا کے مطابق ان کے حکم پر صرف ماہ جون میں 150 اشتہاری لیہ پولیس نے پکڑے ہیں۔ اتنی حد تک تو درست ہو گیا لیکن یہ تو اشتہاریوں کی گرفتاریوں کا ایک ماہ کا ڈیٹا ہے، اس کے علاوہ لیہ میں ابھی کتنے اشتہاری ہیں جو کہ پولیس کی گرفتاری سے دور بیٹھ کر قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں اور عوام میں خوف کی فضا کا سبب ہیں۔

اور پھر ان کے پیچھے کون لوگ ہیں جو کہ خطرناک جرائم میں اشتہاریوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ راقم الحروف کو یہاں لاہور کے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر کی وہ خبر بھی یاد آ رہی ہے جس کا حاصل یہ تھا کہ چودھریوں نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر منڈی بہا الدین سید علی رضا کا۔ تابعدار۔ نہ ہونے پر تبادلہ کرا دیا ہے۔ چودھریوں کے سیاسی عزائم اور دیگر ایشوز کے بارے میں کون نہیں جانتا ہے؟ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان چودھریوں کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن میں کہا تھا کہ یہ پنجاب کے بڑے ڈاکو ہیں اور اب ان کے بیٹے مونس کو کابینہ میں بھی لیا ہے؟

راقم الحروف کے خیال میں سید علی رضا کی بحیثیت ڈسٹرکٹ پولیس افسر لیہ تعیناتی اس لیے لیہ کے عوام کے لئے مفید ہے کہ موصوف اشتہاریوں کو کھلی چھوٹ دے کر عوام کی زندگی اجیرن کرانے کی بجائے ان کو قانون کی گرفت میں لا رہے ہیں، اور یہ سلسلہ اور بھی تیز ہوگا۔ میرے خیال میں شاید ڈی پی او علی رضا کی منڈی بہا الدین سے تبدیلی کی بھی وجہ اشتہاریوں پر ہاتھ ڈالنے کی وجہ سے ہوئی ہوگی، لیکن لیہ میں ایسا نہیں ہوگا؟ یہاں آخر پر وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور انسپیکٹر جنرل پولیس انعام غنی سے بھی کہوں گا کہ اشتہاریوں کا ایشو صرف لیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اطلاعات کے مطابق یہ پورے پنجاب میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کو ان کی گرفتاری کے حکم کے ساتھ ایسے افسران کی حوصلہ افزائی کریں جو کہ پہلے سے متحرک ہیں، جس کی ایک مثال ڈی پی او سید علی رضا ہے۔ اور ایسے ڈی پی اوز کی کچھائی کریں جو کہ سیاسی اثر و رسوخ اور پتھاداروں کے ہاتھوں کھیل کر اشتہاریوں کے ریوڑ پالنے میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments