استنبول۔ ایک پر کشش شہر


دیکھا جائے تو جہاز کے تمام مسافر ہم سفر ہی تو ہوتے ہیں۔ اگر تخصیص کے ساتھ بات کروں تو اس دفعہ میرے پندرہ ہم سفر تھے جن میں چودہ میرے کورس میٹ اور پندرہویں ہمارے انسٹرکٹر جو اس سٹڈی ٹور کے انچارج تھے۔ کہتے ہیں دو لوگ ہوں تو اچھا ساتھ ہوتا ہے اور اس سے زیادہ ہو جائیں تو شور شرابا کے سوا کچھ نہیں۔ میرے ساتھی لیفٹیننٹ کرنل لیاقت علی ( بعد میں بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے ) تھے جو ٹور کے دوران میرے روم میٹ بھی رہے اور بعد میں ہم نے دو ہفتے کی چھٹی میں کچھ مزید سیاحت بھی کی۔

ہم رات کا کھانا کھانے کے بعد ائرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ ائرپورٹ تک میں کرنل طارق اسلم ( بعد میں بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے ) کے ہمراہ پہنچا تھا۔ کرنل طارق اسلم کے والد محترم نے مشفقانہ التفات برتتے ہوئے ہم دونوں کو ائرپورٹ ڈراپ کیا تھا۔ کرنل طارق اسلم کے والد کیپٹن محمد اسلم مرحوم باوجود سن رسیدگی کے اس وقت اچھی صحت کے ساتھ سمارٹ اور فٹ تھے۔ انکل پاکستان نیوی سے ریٹائرڈ تھے اور میری پسندیدہ شخصیات میں سے تھے۔ ان سے دلچسپ معلوماتی گفتگو ہوتی تھی۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

قبل از پرواز کی کارروائی اور ساڑھے چھ گھنٹے پرواز کا دورانیہ کل ملا کر تقریباً دس گھنٹے ہو چکے تھے۔ بہت تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی جس کی ایک وجہ تو نیند کا نہ آنا اور دوسری وجہ خالی پیٹ کیونکہ پچھلے دس گھنٹوں سے پینے کے لئے پانی تک میسر نہ ہو سکا تھا۔ خیر ہماری قومی ائرلائن کی اپنی مجبوریاں ہوں گی ہم تو انتظار میں تھے کہ جلدی لینڈنگ ہو اور کچھ فریش ہو جائیں۔

استنبول ائرپورٹ پر ہمارا جہاز اور نئے سورج کی کرنیں تقریباً ایک ساتھ اترے۔ ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے دو افسر آئے ہوئے تھے جو ہمیں خصوصی لاونج میں لے گئے جہاں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد ہم ایک کوسٹر میں سوار ہو کر ائرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ با رونق راستوں سے گزرتے ہوئے ہم ایک خوبصورت علاقے میں اپنی رہائش گاہ تک پہنچے۔ ہماری رہائش ایک کثیر المنزلہ عمارت میں تھی جس کے باہر ترکی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ تقریباً اسی قد و قامت کی برابر والی بلڈنگ پر شیریٹن لکھا ہوا تھا۔

لابی میں دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ہمیں کمروں کے نمبر بتا دیے گئے اور ہم متعلقہ فلورز پر جانے کے لئے لفٹس کی طرف بڑھے۔ انتظامیہ کا معیار اور وہاں کا پروٹوکول اور اضافی سہولیات جیسے ڈانسنگ فلور، سوئمنگ پول، بار وغیرہ سے فائیو اسٹار ہوٹل کا تاثر مل رہا تھا۔ کمرے کی آرائش نے بھی اسی تاثر کی تائید کی۔ اگر ہمیں بتایا نہ جاتا کہ ہمیں آرمی میس میں ٹھہرایا گیا تھا تو ہم اسے ہوٹل ہی سمجھتے رہتے۔ ہمیں یہ آئیڈیا اچھا لگا کہ بجائے چھوٹے چھوٹے بے شمار میس بنانے کے، ایک ہی بڑا سا میس بنا دیا جائے اور اسے ہوٹل کے انداز میں چلایا جائے۔ ہمیں تیاری کے لئے اور یونیفارم پہن کر ریسیپشن پر آنے کے لئے 30 منٹ کا وقت دیا گیا۔

ہمارا ہر روز کا معمول تھا صبح یونیفارم پہن کر تیار ہوتے اور دوپہر تک پیشہ ورانہ وزٹ کی کارروائی میں مصروف رہتے۔ دوپہر کے بعد ہماری میزبانی پر تعینات آفیسرز نے کسی سیاحتی مقام کی وزٹ کا پروگرام ترتیب دیا ہوتا۔

استنبول ایک انتہائی خوبصورت شہر ہے جس کے شمال میں بحر اسود اور جنوب میں بحر روم ہے۔ آبنائے باسفورس ان دونوں سمندروں کو ملاتے ہوئے استنبول کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کرنے کے علاوہ دو تہذیبوں کے درمیان حائل ہے۔ آبنائے باسفورس کے جنوب سے نکلنے والا پانی مغرب کی جانب ایک چینل میں رواں ہے جسے گولڈن ہارن کا نام دیا گیا ہے اور یہ استنبول کے مغربی حصے کو شمالا جنوبا تقسیم کرتا ہے۔ شہر کے ارد گرد پھیلے سمندر نے مالی منفعت کے علاوہ شہر کے حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

سیاحوں کے لئے استنبول میں بے پناہ کشش ہے۔ رومن، بازنطینی اور عثمانیہ سلطنتوں کے آثار سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ وہاں کی ثقافت اور روایتی پکوان بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا دور ختم ہوا تو یہ استنبول کہلانے لگا اور 1930 میں باقاعدہ طور پر اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔

ہمارے میزبان افسران نے سب سے پہلے ہمارے لئے توپکاپی میوزیم کی وزٹ ترتیب دی تھی۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں ایک وسیع و عریض عمارت کی تعمیر کی گئی تھی جسے اس کے دروازے پر توپیں نصب ہونے کی وجہ سے توپ کاپی محل کا نام دیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ محل سلطان کی رہائش گاہ تھی۔ محل کے علاوہ اس میں ذیلی عمارات اتنی زیادہ تھیں کہ اس میں چار ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔ سلطان کی عالی شان اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی رہائش گاہ کے علاوہ اس میں انتظامیہ اور عدلیہ کے امور کی انجام دہی کے لئے مخصوص حصے ہیں اور محل سرا اور کنیزوں پر حفاظت کے لئے معمور خواجہ سراوں کی رہائش گاہ، لائبریریاں، باغیچے اور اجتماعات کے لئے بڑے احاطے وغیرہ سب ملا کر محل کا رقبہ ایکڑوں پر محیط تھا۔ اس محل میں سلاطین کی تاج پوشی کی شاہانہ رسمیں بھی منعقد ہوتی رہیں اور اس کے در و دیوار شہزادوں کی گردن زنی کے بھی گواہ ہیں۔ زوال سلطنت عثمانیہ کے بعد سے اس محل میں عجائب گھر بنا کر عوام کے لئے کھول دیا گیا اور اس کا نام توپکاپی میوزیم رکھا گیا ہے۔

اس میوزیم میں رومن، بازنطینی اور خلافت عثمانیہ کے ادوار کے بے شمار نوادرات بشمول سامان حرب و ضرب شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں مگر ہمارے لئے سب سے پر کشش وہ کمرہ ہے جہاں نبی آخر الزمان ﷺ سے متعلقہ تبرکات زیارت کے لئے رکھے گئے ہیں۔ ان تبرکات میں حضور ﷺ کا امامہ، جبہ، تلوار، دانت اور موئے مبارک شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چاروں خلفائے راشدین کی تلواریں بھی زیارت کے لئے رکھی گئی ہیں۔

مسجد سلطان احمد جسے بیرونی دیواروں اور اندرونی سجاوٹ میں نیلا رنگ نمایاں ہونے کی وجہ سے نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد اپنے خوبصورت طرز تعمیر کی وجہ سے استنبول میں سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ دوسرے روز ہم نے اس مسجد کی زیارت کی۔ یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کی ایک حسین پیشکش ہے۔ اس کا بیرونی نظارہ جتنا پر کشش ہے اندرونی جاذبیت بھی اسی قدر آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ مسجد کے چھ مینارے ہیں جن کی اونچائی پچاس میٹر ہے۔

بیرونی منظر میں میناروں کے درمیان مسجد کے گنبد ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں بڑا گنبد اس کے بعد کم اونچائی پر چار درمیانے سائز کے گنبد اور سب سے نیچے آٹھ چھوٹے گنبد میناروں کے درمیان میں ایک جھرن کی صورت میں خوبصورت لگتے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ جگہ باغیچوں اور فواروں سے خاصی پر کشش لگتی ہے۔

مسجد کے صحن میں لگی مرمریں ٹائلز کی شکست و ریخت صدیاں گزر جانے کی مخبری کرتی ہیں۔ برآمدے میں سے گزر کر بڑے ہال میں داخل ہوتے ہی مسجد کا روح پرور اندرونی نظارہ مسحور کر دیتا ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھتی ہے پہلے سے زیادہ دلکش نظارہ منتظر ہوتا ہے۔ دیواریں ہاتھ سے نقش و نگار کی گئی ٹائلوں سے مزین ہیں جبکہ اوپر کے حصوں پر قرآنی آیات کی خوبصورت خطاطی کی گئی ہے۔ چھت میں گنبدوں کے اندرونی حصے مختلف رنگوں سے منقش کیے گئے ہیں۔ درمیانی بڑے گنبد کے ساتھ چھوٹے گنبدوں کے نصف دائرے مل کر منظر کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ دیواروں اور گنبدوں میں بے شمار کھڑکیاں بنائی گئی ہیں جس کی وجہ سے روشنی اور ہوا کا معقول انتظام ہے۔

اگلے روز ہم ترکی میں پاکستان کے قونصل جنرل کے ہاں عشائیے پر مدعو تھے۔ ان کی رہائش گاہ استنبول کے مشرقی حصہ میں تھی اور یوں ہمیں باسفورس برج پر گزرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ چھ لینز پر مشتمل سسپینشن برج انتہائی متاثر کن اور خوبصورت ہے مگر اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اطراف کا نظارہ تھا۔ باسفورس کے مشرق میں ہم خوبصورت اور سرسبز علاقے میں سے گزرتے ہوئے ایک چھوٹی سی بل کھاتی ہوئی سڑک پر پہنچے جو قدرے بلند مقام پر ایک خوبصورت باغیچہ تک پہنچ کر ختم ہوئی۔ سر سبز لان کی دوسری طرف بنگلے کا صدر دروازہ تھا جہاں میزبان ہمارے منتظر تھے۔ قونصل جنرل سے ملاقات اور گپ شپ کا سلسلہ بہت دلچسپ رہا۔ دلچسپ ہونے کے علاوہ ان کی گفتگو میں ذاتی تجربہ کی جھلک نمایاں تھی۔

آج باسفورس میں کروز کا انتظام کیا گیا ہے جو ایک پر لطف اور یادگار سفر رہا۔ کشتی سمندر کے پانی کو چیرتی ہوئی راستہ بناتے ہوئے اپنے پیچھے بے شمار لہریں چھوڑتی جا رہی تھی جو حجم میں کم ہوتے ہوتے معدوم ہوتی گئیں۔ ہماری بائیں جانب باسفورس برج کا خوبصورت نظارہ تھا۔ عقب میں دور ہوتے ہوئے ساحل پر عمارتیں سائز میں کم ہوتے ہوئے اپنی کشش برقرار رکھے ہوئے تھیں اور سامنے کا منظر قریب تر ہوتے ہوئے انتہائی پرکشش لگ رہا تھا۔

اگلے روز پروگرام کے مطابق ہمیں انقرہ کے لئے روانہ ہونا تھا اس لئے میرا اور کرنل لیاقت کا خیال تھا کہ کچھ وقت نکال کر حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے ضرور جائیں۔ ہم نے مزار تک پہنچنے کے لئے معلومات لیں اور فیری پر سوار ہو گئے۔ فیری کا سفر ایسے ہی تھا جیسے ہمارے ہاں بڑے شہروں میں مقامی طور پر ویگن پر سفر کیا جاتا ہے۔ تمام مسافر مقامی تھے۔ چند مسافروں کے ہمراہ کچھ سامان تھا جبکہ زیادہ تر کے لئے یہ صرف سواری کا ذریعہ تھی۔

کچھ دیر بعد فیری کی رفتار کم ہوئی اور ساحل کے نزدیک ہوتے ہوتے ایک پلیٹ فارم کے ساتھ لنگر انداز ہو گئی۔ یہی ہماری منزل تھی۔ ہلکے ہلکے ہچکولے لیتی فیری سے ہم پلیٹ فارم پر آ گئے۔ ایک مخصوص راستے سے گزر کر فیری ٹرمینل سے باہر نکل آئے چند منٹ میں ہم ایک گنجان آباد علاقے کی سڑک پر کھڑے تھے۔ ہم نے ابو ایوب انصاری کے مزار کا راستہ معلوم کیا اور چل پڑے۔ اگلے چند منٹ میں ہم مزار کے احاطہ میں پہنچ گئے جس کے اندر ایک خوبصورت مسجد بھی تھی۔

مزار کا ماحول ہمارے ہاں کے مزاروں سے قدرے مختلف تھا۔ پرسکون خاموشی نمایاں تھی۔ لوگ فاتحہ خوانی کرتے اور واپس لوٹ جاتے۔ ہمیں بھی صحابی رسول ﷺ ابو ایوب انصاری کی مرقد پر فاتحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔ گرد و پیش میں کچھ وقت گزار کر ہم واپس لوٹے۔ ایک دفعہ پھر مختصر دورانیے کا آبی سفر کرتے ہوئے ہم اپنی رہائش گاہ تک پہنچے۔

ہفتہ کی شام کوئی طے شدہ مصروفیت نہیں تھی اور ہم سب فری تھے اس لئے اپنے طور پر گھومنے نکل گئے۔ میرے ساتھ کرنل لیاقت تھے۔ ہم نے کھانا باہر کھایا اور رات دیر تک گھومتے رہے۔ اگلی صبح ہماری انقرہ کے لیے روانگی تھی۔ غالباً صبح سات بجے میس استقبالیہ میں جمع ہونے کا پروگرام طے تھا۔ صبح ہم بیدار ہوئے اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو اوسان خطا ہو گئے۔ گھڑی کی سوئیاں ہمارے طے شدہ وقت سے کہیں آگے نکل چکی تھیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

کھویا ہوا وقت تو ہاتھ آ نہیں سکتا۔ ساتھیوں پر بھی افسوس ہوا کہ کسی نے بھی ہماری خبر نہ رکھی۔ یہی ذہن میں آیا کہ استقبالیہ سے معلومات لی جائیں۔ کمرے سے باہر نکلا تو لیفٹیننٹ کرنل عبدالرحمن عثمانی ( بعد میں میجر جنرل ریٹائر ہوئے ) ہمارے کمرے کی طرف آ رہے تھے۔ انہوں نے اطمینان بخش خبر سنائی کہ ہماری فلائٹ میں تاخیر ہو گئی تھی اس لئے ائرپورٹ روانگی کو بھی کچھ دیر کے لیے موخر کر دیا گیا تھا اور یہ کہ ہم لوگ جلدی نیچے استقبالیہ پر پہنچ جائیں۔ ہم نے عجلت میں سامان سمیٹا اور جلد ہی روانگی کے لئے تیار تھے۔

استنبول سے انقرہ گھنٹے بھر کی پرواز تھی جو کہ خوشگوار رہی۔ دوپہر کے بعد ہم اپنی رہائش گاہ تک پہنچ چکے تھے جو ایک سادہ سی عمارت کے اندر تھی۔ ہمارا کمرہ تیسری منزل پر تھا۔ کمرے میں ہم دو لوگ تھے اور دو اشخاص کے رہنے کے لئے اس سے چھوٹا کمرہ شاید روئے زمین پر کہیں اور موجود نہ ہو۔ بمشکل اس میں دو بیڈ اور چھوٹی سی میز رکھی گئی تھی۔ کمرے کے اندر نقل و حرکت کرنا ایک ایسا فن تھا جس کے ماہر سرکس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اچھی بات یہ تھی کہ ہم نے یہ تا حیات رہنے کے لئے نہیں خریدا تھا بلکہ صرف دو روز کا قیام مقصود تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد ہم گرد و پیش کا جائزہ لینے کے لئے باہر نکلے۔ استنبول کے مقابلے میں انقرہ پر سکون لگا۔ موسم بھی خوشگوار تھا۔ رات کو ہم ایک عشائیے پر مدعو تھے۔ اس سے پہلے کا وقت گزارنے کے لئے ہم ایک ٹیکسی کے ذریعے شہر کے مصروف شاپنگ ایریا میں پہنچ گئے بلکہ ہمارے استفسار پر ٹیکسی ڈرائیور نے ایک بڑے شاپنگ مال کے سامنے گاڑی روکی اور کہا کہ یہ شہر کا اچھا سٹور ہے۔ بندیک نام کا نہایت پرکشش ڈیپارٹمنٹل سٹور میں روز مرہ کی ضروریات کی اشیاء سے لے کر قالین اور کرسٹل تک ہر چیز دستیاب تھی اور تمام اشیاء حیرت انگیز حد تک ارزاں تھیں۔

اگلے روز انقرہ سے استنبول کے لئے واپسی کی پرواز تھی۔ ہم وقت پر ائرپورٹ پہنچ گئے۔ استنبول ائرپورٹ پر کچھ ہی دیر کے لئے ٹرانزٹ تھا کہ اس دوران ہم دوسرے جہاز پر بورڈ ہوئے اور اگلی منزل کے لئے روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments