آ گیا غصہ، کیا کرتا؟

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


پہلی عورت کی موت جو میں نے دیکھی، اسے اس کے باپ نے پیٹ سے کر دیا تھا۔ اس کے بعد ایک عورت جو زچگی کے دوران پیچیدگی سے مر گئی تھی کیونکہ مرد ڈاکٹر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا تھا۔ تیسری موت، اس لڑکی کی تھی جو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور بھائی اسے دوسرے شہر نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔ مٹی کا تیل چھڑک کر جلائی گئی۔

اب میں نے گننا چھوڑ دیا ہے۔ صرف تب چونکتی ہوں جب قتل کرنے والا کوئی نیا طریقہ ایجاد کرتا ہے۔

ان اموات میں صرف ایک شے مشترک تھی۔ یہ سب قتل لطف لینے کے لیے کیے گئے۔ اپنی طاقت اور اختیار کا لطف۔ وہ طاقت اور اختیار جو معاشرہ مرد کو صرف اس لیے دیتا ہے کہ وہ مرد ہے۔ جسمانی برتری دکھانے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو گا؟

میں نے مونچھوں والے اس جانور کو براتے، غراتے، چیختے چلاتے اور ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے۔ خاص کر جب سامنے ایک عورت ہو۔ تب اس جانور سے اپنا غصہ کسی طور قابو نہیں کیا جاتا۔

میں نے وہ لڑکیاں اور عورتیں بھی دیکھیں جو زندہ ہیں۔ کسی کے پاؤں کی انگلی فریکچر ہے، کسی کی کلائی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے، کسی کی ناک ٹیڑھی ہے اور تو اور جلے ہوئے چہروں والی بھی ہیں۔

ایک وہ ہیں جن کے جسم پر زخم نہیں، ان کے ذہن پہ داغ ہیں۔ ہر وقت بدکرداری کا طعنہ، کسی کے ساتھ تعلقات کا شبہ، پھوہڑ پن کا تمغہ، اولاد نہ ہونے کا داغ، بیٹا نہ ہونے کی تہمت۔

شوہر کے دوستوں کے سامنے آنے کا طعنہ، شوہر کے دوستوں کے سامنے نہ آنے کا طعنہ۔ اپنی مرضی سے سبزی والے سے ہنس کر بات کرنے کا الزام اور دیور سے گھونگھٹ کاڑھ لینے کی برائی۔

ایک وہ ہیں جو ان سب پھندوں سے نکل گئیں۔ اپنے خوابوں کے پیچھے وہاں چلی گئیں کہ ان کے نام دنیا نے یاد کر لیے اور چہرے شناخت کیے۔ اب دن رات انھیں فحش گالیوں، نیچ القابات سے نوازا جاتا ہے۔

جنھیں قتل کا یہ طریقہ پسند نہیں وہ گرسنہ آنکھیں لیے اور بہتی رال سڑپے بغیر، ان کی خدمات کی بجائے ان کے خدوخال کی تعریف میں مرے جاتے ہیں۔

باقی ماندہ، جن میں یہ ہمت بھی نہیں، بیٹھے ہلاشیری دیتے ہیں اور یوں ہی ہونٹوں پر زبان پھیر کے انسانی خون کا ذائقہ چکھ لیتے ہیں۔

نور کے قتل تک اور اب اس کے بعد بھی جو قتل ہوتے رہیں گے مجرم ایک ہی ہے۔ نام مختلف ہیں، شکلیں اور قومیتیں مختلف ہیں مگر قاتل ایک ہی ہے۔ قتل کرنے اور ہونے والے کے درمیان رشتہ ایک ہی ہے: ظالم اور مظلوم کا۔

آپ اس رشتے کو دوست کا رشتہ کہہ لیجیے، بہن، بیوی، بیٹی، پڑوسن، محبوبہ کہہ لیجیے۔

لیکن سچ یہ ہے کہ یہاں اخبار میں لکھنے والی، ٹی وی پر گانے والی، سٹیج پر ناچنے والی، نکڑ پر بھیک مانگتی عورت، گھر میں جھاڑو برتن کا کام کرنے والی، یومیہ اجرت پر پتھر کوٹنے والی، سکول کی استانی، سب کی سب کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ کے بغیر قتل کی جا سکتی ہیں۔

وجہ کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ کچھ نہ کچھ تو کیا ہی ہو گا۔

لڑکیاں کب قتل نہیں ہوتی تھیں؟ مگر اب یہ سوشل میڈیا، روز ایک موت کی خبر بناتا ہے، دکھاتا ہے، چلاتا ہے، جھنجھوڑتا ہے، سوال کرتا ہے، جواب دیتا ہے، لڑتا ہے، سونے نہیں دیتا۔

نیند پہلے بھی اڑتی تھی، جب چولہا پھٹتا تھا اور صرف بہو جلتی تھی۔ نیند تب بھی اُڑتی تھی جب بھائی ٹوکے کے وار کر کے بہن کو قتل کر کے قتل غیرت کی بنا پر چھوٹ جاتا تھا۔

نیند تب بھی نہیں آتی تھی جب مبینہ آشنا، لڑکی کو قتل کر کے لاش سوٹ کیس میں بند کر کے پھینک جاتا تھا۔ نیند اب بھی نہیں آتی۔

مدد کے لیے پکارنے والیوں کی آواز سننے سے ہم اس وقت تک گریز کرتے ہیں جب تک ان کی تشدد زدہ لاش ہمارے سامنے نہیں آ جاتی۔

تب ہمیں ان کے ادھورے جملے یاد آتے ہیں، ان کے آنسو، ان کی باڈی لینگویج، چہرے پر کیے گئے گہرے میک اپ تلے چھپے نیل اور ان کے یہ دعوے کہ ہم بہت مضبوط ہیں۔ سب یاد آتے ہیں مگر تب یہ یاد بس پچھتاوا بن کے رہ جاتی ہے۔

مجرم اذہان کی پرورش اور ان کے لیے دلیل ڈھونڈنے سے خود کو روکنے میں ہمیں ابھی بہت وقت لگے گا لیکن اگر کوئی مدد کے لیے پکارے تو چاہے یہ پکار کتنی ہی مدھم کیوں نہ ہو، سن لیجیے۔

ممکن ہے کچھ عرصے میں یہ پکار بھی سنائی نہ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).