آزاد جموں کشمیر انتخابات کی پیش گوئی


مریم نواز آزاد جموں کشمیر کا طوفانی انداز میں انتخابی دورہ مکمل کر چکیں۔ جذباتی ہجوم والہانہ انداز میں اُن کے گرد پتنگوں کی طرح جمع تھا۔ توانائی اور سکت ایسی کہ بعض اوقات ایک دن میں تین تین جلوس۔ جہاں بھی گئیں، عوام نے دل کھول کر استقبال کیا۔ آزاد جموں کشمیر نے شاید ہی کبھی اپوزیشن لیڈر کی اس طرح حمایت کی ہو۔ مریم کے استقبال کے کچھ مناظر بے نظیر بھٹو کے اُس تاریخی استقبال کی یاد دلاتے ہیں جب محترمہ 1986 ء میں کسی فاتح ہیرو ئن کی طرح پاکستان واپس آئی تھیں۔ کشمیریوں کی سیاسی روایت رہی ہے کہ وہ اسلام آباد میں قائم حکومت کی ہی حمایت کرتے ہیں۔ کیا اس مرتبہ کچھ مختلف ہونے جارہا ہے؟

انتخابی کامیابی میں تحریک انصاف پہلے نمبر پر جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں وہ عوامی طور پر مقبول جماعت ہے۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ اس کی وجہ ایک انحصار کا تعلق ہے۔ کشمیری اپنا ووٹ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ حزب اختلاف کے پاس کم از کم دو سال تک اسلام آباد میں حکومت بنانے اور اُن کی قسمت اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی امکان نہیں۔ بہر حال عمران خان اور اُن کے معاونین کے جلسوں میں عوامی جوش و خروش کی واضح کمی دکھائی دی کیوں کہ اُن کے پاس وعدہ کرنے کے لیے کارکردگی کا ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ بلکہ اُن کے کھاتے کسی بھی کامیابی سے خالی ہیں۔ تو وہ کشمیریوں کے سامنے کیا رکھتے؟اُ ن کا یک نکاتی ایجنڈے کہ ”حزب اختلاف والے سب چور، ڈاکو، لٹیرے ہیں“ میں کوئی جان نہیں رہی کیوں کہ اس وقت تک نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر سمیت کوئی بھی ریاستی ادارہ عدالتوں سے کسی ایک کوبھی سزا نہیں دلا سکا۔ بہت سے ججوں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن حکومت کی منشا پوری نہ ہوئی۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی بدانتظامی نے پاکستانیوں کی زندگی اتنی عذاب کردی ہے کہ آج نواز شریف کا دور سنہری زمانہ دکھائی دیتا ہے! ایک حالیہ گیلپ سروے کا دعویٰ ہے کہ کم و بیش 80 فیصد کشمیری رائے دہندگان اپنی روز مرہ کی زندگی کی ابتری سے پریشان ہیں۔ پینے کے صاف پانی اور بجلی کی قلت، مہنگائی، صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولیات ناکافی ہیں۔ صرف تین فیصد کا خیال ہے کہ بدعنوانی ایک پریشان کن مسلہئ ہے۔

بدترین بات یہ ہوئی کہ تحریک انصاف کی انڈیا کو گرم سرد سنانے کی کشمیرپالیسی کو پذیرائی نہیں ملی۔ جب نریندر مودی نے اگست 2019 ء میں آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تو عمران خان مظفر آباد گئے اور وزیر اعظم آزاد کشمیر، راجہ فاروق حیدر کو نصیحت کی کہ وہ جذبات میں آکر لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ نہ کریں مبادا انڈیا اسے اشتعال انگیز سرگرمی خیال کرے۔ اس کے بعد وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی نے موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ انڈیا کا ”اندرونی معاملہ“ ہے جب کہ اسلام آباد انڈیا کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ اس کے بعد سے تحریک انصاف کے راہ نماؤں کے طوفانی یوٹرن بھی کشمیریوں کے شکوک و شبہات کا تدارک نہیں کر پائے ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ تحریک انصاف کی کشمیر پالیسی ناقص اور کمزور ہے۔

تاریخی طور پر پیپلز پارٹی بھی آزاد جموں کشمیر میں ووٹ بنک رکھتی ہے۔ اس کا اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھل کر کھڑے ہونا بھی ان انتخابات میں ایک مثبت عنصر تو ہوسکتا ہے لیکن رائے دہندگان جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ابھی یا مستقبل قریب میں اسلام آباد میں ممکنہ طور پر حکومت سازی نہیں کرسکتی۔ نہ ہی مظفر آباد میں حکومت بنا پائے گی۔ لیکن اسے ووٹ مل جائیں تو یہ آزاد جموں کشمیر میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کولیشن حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ اس صورت میں ان کے مقامی مفادات کو تحفظ مل سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بلاول بھٹو انتخابی مہم کے دوران امریکا سدھارے۔ شاید وہ سوچتے ہیں کہ آزاد جموں کشمیر کے انتخابات میں اُن کے لیے ایک خاص حد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

حالیہ دنوں پیش آنے والے دو واقعات نے ان انتخابات پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔ پہلا، تحریک انصاف کے کشمیر اور گلگت کے امور کے وزیر، علی امین گنڈا پورنے انتخابی قواعد وضوابط کو دیدہ دلیری سے پامال کیا ہے۔ درحقیقت وہ آخری وقت تک انتخابی مہم چلاتے رہے حالاں کہ الیکشن کمیشن نے اُنہیں علاقے سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ اس سے الیکشن کمیشن کی کمزوری کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی نافذ کرنے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد کرانے کے قابل نہیں۔ دوسرا واقعہ آزاد جموں کشمیر میں حساس ادارے کے سٹیشن کمانڈر کے حوالے سے ہے۔ اس پر انتخابات پر اثر انداز ہو کر تحریک انصاف کے ایک مخصوص فنانسر کو آزاد جموں کشمیر کا اگلا وزیر اعظم بنانے کی کوشش کا الزام تھا۔ افسر کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم عمران خان نے کھل کر اعتراف کیا کہ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کوئی ”دو نمبری“ امیدوار ہو۔ لیکن اس سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہو گا۔

انتخابی مہم کا سب سے متاثر کن پہلو مریم نواز کا تیزو تند اور پراعتماد لب و لہجہ تھا۔ وہ لوگ جو نواز شریف اور مریم نواز پر خاموشی سے شہباز شریف کے اسٹبلشمنٹ نواز موقف کی حمایت کا الزام لگا رہے تھے، اُنہیں ایک مرتبہ پھر سوچنا پڑے گا۔ مریم مسلسل کئی ایک موضوعات چھیڑتی رہیں: نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے مخصوص افسران پر تنقید ادارے پر حملہ نہیں ہے۔ یہ وہ افسران ہیں جو سیاسی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہاں دبے لفظوں دیا گیا پیغام یہ ہے کہ لیڈروں پر دوبارہ تنقید شروع ہو سکتی ہے اگر اُنہوں نے اپنا طرز عمل درست نہ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے غدار قرار دیے جانے والے راہ نما ہی سچے محب وطن ہیں اور وہ عوامی مقبولیت کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ او ر تحریک انصاف اب ایک پیج پر نہیں۔ ان کے درمیان سنگین اختلافات نمایاں ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن کے لیے جلد ہی سیاسی جگہ نکل آئے گی۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل ”ووٹ کو عزت دو“ میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو سازش یا چالبازی سے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانونی طور پر حکومت بنانے والوں کو محروم کر دیں۔

گیلپ سروے کا دعویٰ ہے کہ عمران خان آزاد جموں کشمیر کے سب سے مقبول راہ نما ہیں۔ لیکن آزاد جموں کشمیر کے موجودہ صدر، مسعود خان جو اسٹبلشمنٹ کے نامزد کردہ ہیں، کشمیریوں کو متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت موجودہ وزیرا عظم، راجہ فاروق حیدر کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔ اور ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر مقبولیت کا پیمانہ عوامی جلسوں کا حجم ہے تو پھر مریم نواز کو سبقت حاصل ہے۔ چنانچہ ان انتخابات میں کس قسم کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے؟

آزاد جموں کشمیر میں طاقت کا توازن اسٹبلشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ تحریک انصاف کی طرف ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اگر صورت حال خراب ہوگئی تو وہ کولیشن حکومت بنا لیں گے۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی طاقت ور اپوزیشن اُن کا راستہ مشکل بنا سکتی ہے۔ وہ اس وقت کا انتظار کرے گی جب اسلام آباد میں آنے والی تبدیلی پیپلز پارٹی کو مظفر آباد میں حمایت تبدیل کرنے کی شہ دے گی۔

بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments