نور مقدم کیس: آؤ جنونیت کا شکریہ ادا کریں


میرے خیال میں ہمیں نور مقدم کے قاتل کا ہی شکریہ ادا کر کہ اسی کی منت سماجت کر لینی چاہیے کہ وہ خود کو اپنی مرضی سے خوشی سے گولی مار لے۔ حوالات میں اپنا ”ناڑا“ نکال کر پھندا بنا کر جھول جائے اور ساتھ میں ایک رقعہ لکھ جائے کہ تم سب مل کر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں ذہنی پاگل بھی بن کر بچ جاؤں گا میں اثر و رسوخ والا بزنس مین بن کر بھی بچ جاؤں گا۔ میں کچھ بھی نہیں کروں تب بھی یہ گلا سڑا سسٹم مجھے تختہ دار تک لاتے لاتے خود اوندھے منہ پڑا ہو گا۔

اس رقعے پر یہ درج ہو کہ ہاں میری تربیت انسان نہیں حیوان کے طور پر ہوئی ماں اور بھائی پر تشدد کر چکا ہوں اور میں اس حیوان کا خود گلہ گھونٹ رہا ہوں کیونکہ سسٹم میں یہ طاقت نہیں ہے۔

ہمیں عثمان مرزا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے یہ بتا دیا کہ نا تو انسانیت نام کی کوئی چیز اس معاشرے میں رہی ہے اور نا ہی ڈر اور خوف کسی قانون کا موجود ہے۔ کیونکہ سسٹم کا فیل ہونا ہر ایک کو کھلی چھٹی دے رہا ہے کہ وہ نہتے دو لڑکا لڑکی کو ڈھائی گھنٹے انسانی تذلیل کا نشانہ بنائے۔

پھر ان سے اس وجہ سے لاکھوں روپے وصول کرے کہ ویڈیوز لیک ہوں گی تو یہ جیتے جی مر جائیں گے کیوں مریں گے شکریہ ادا کریں کہ عثمان مرزا نے اپنے ساتھ معاشرے کو بھی ننگا کر دیا ہے کہ یہ معاشرہ ہی ان کا جیتے جی مار دے گا اور دونوں لڑکا لڑکی شادی کر لینے کے باوجود بھی گھر والوں سے سسٹم سے کوئی امید نا لگا پائے۔

شکریہ ادا کرنا چاہیے ظاہر جدون کا کہ اس نے لا گریجویٹ مائرہ ذوالفقار کو قتل کر کہ یہ بتا دیا کہ تمہارا سسٹم اتنا گندا ہے اس میں سکت نہیں تھی کہ وہ اس کو روک سکے اس لیے اس نے آرام سے مائرہ ذوالفقار کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا لیا۔ کیونکہ مائرہ ذوالفقار نے لندن جہاں وہ بڑی ہوئی اس معاشرے کی طرز پر تھانہ میں تحفظ کی درخواست دی مگر تھانہ کے متعلقہ افسر کو اس درخواست سے شاید روپوں کی مہک نہیں آئی تھی یا پھر اس علاقے میں تعینات ایک خاتون پولیس افسر جس کو با اثر خاندان سے تعلق کی بنا پر سب کچھ برقرار رکھتے ہوئے ضلع بدر کر دیا گیا اس خاتون افسر کو بھی شاید اس درخواست پر عملدرآمد کروانا وقت کا ضیاع لگا۔

شکریہ ظاہر جدون کا اس لیے بھی ادا کرنا چاہیے کہ اس نے یہ عمل کر کہ بتا دیا کہ وہ پہلے بھی ایک انسان کو قتل کر کہ اسی سسٹم کے اندر موجود بے شمار سقم کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا رہا اور مائرہ کا قاتل بنا۔

شکریہ ادا کرنا چاہیے عزیز الرحمن کا کہ اس سسٹم میں یہ طاقت نہیں کہ اس کی پشت پناہی پر کھڑے نام نہاد دین کو نقصان پہنچانے والے ملا کھل ڈل کر حمایت کر رہے ہیں۔ ہمیں مفتی عزیز الرحمن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے کہ دینا چاہیے کہ وہ خود ہی اپنی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے قبر میں جا سوئے اور اس سوئے ہوئے سسٹم کو بھی سونے دے۔

اس معاشرے میں ہر کیس کے بعد ہر واقعے کے بعد ہم عورت، مرد، لبرل، قدامت پرست مذہبی، غیر مذہبی بن کر عجیب و غریب بحث کی جنگ شروع کر دیتے ہیں مگر کوئی بھی آگے بڑھ کر گلے سڑے غلیظ سسٹم کو نہیں للکارتا ہے۔

چونکہ بطور صحافی ایک ادارے سے منسلک ہوں اور کرائم کی رپورٹنگ کرتا ہوں اس لیے بس آخر میں ایک چھوٹی سی بات کہوں گا کہ ایک ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور میں تعینات ہوئے تو روایت نبھاتے ہوئے آتے ہی چائے پر بھلایا اور دوران گفتگو کہنے لگے کہ میں جو بھی دعویٰ کروں گا وہ کھوکھلا ہو گا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر میرا بھائی کسی ایس ایچ او کے ہاتھ چڑھ جائے گا تو میں سیٹ پر بیٹھ کر سسٹم کے تحت کارروائی کا انتظار نہیں کروں گا بلکہ اڑتے ہوئے پہنچوں گا ورنہ جتنی دیر ہو گی اتنے زیادہ کرب سے میرا بھائی گزرے گا اس لیے کے یہ سسٹم ایسا کوٹ ہے جس کو بے شمار پیوند لگ چکے ہیں مگر کوئی اس کوٹ کو بدلنے کا روادار نہیں ہے

اور شاید اسی لیے سسٹم سے باغی وہ افسر دو ماہ بھی سیٹ پر نا رہ سکے اور کھڈے لائن لگ گئے۔
والدین سے بس یہی التجا ہے کہ اپنے بچوں کو نظر کے سامنے رکھیں۔
لڑکے اور لڑکیاں ریجیکشن کو قبول کرنا سیکھیں نا کہ انتقام کی آگ میں جھلس کر حیوان بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments