ٹوکیو اولمپکس: 2021 میں بھی خواتین کھلاڑیوں کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں


The male and female Norwegian teams pose side by side, the men wearing shorts and long tank tops, the women wearing small bikini tops and bottoms.

Niclas Dovsjö / Norwegian Handball Federation

اکیسویں صدی چل رہی ہے مگر آج بھی دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کے لباس کے حوالے سے دقیانوسی اعتراضات موجود ہیں اور بدقسمتی سے خواتین کھلاڑیوں کو یہ بتانا کہ وہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں۔۔۔ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

حال ہی میں ناروے کی خواتین کی ہینڈ بال ٹیم کو 1500 پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا۔۔۔ لیکن ان کا جرم کیا تھا؟ محض یہ کہ انھوں نے یورپی چیمپیئن شپ کے مقابلوں میں زیر جامہ نما ‘بکینی’ پہننے سے انکار کر دیا تھا۔

اس سے ایک ہی دن قبل ایک اور خاتون پیرا ایتھلیٹ کو بتایا گیا تھا کہ ان کا لباس ’بہت ہی مختصر اور ایسا ہے جس میں سب کچھ نظر آ رہا ہے۔‘

یہاں ہم کچھ ایسے ہی مشہور واقعات اور اس کے بعد آنے والے ردِعمل پر نظر ڈالتے ہیں۔

بیچ ہینڈ بال ٹیم پر بکینی نہ پہننے پر جرمانہ

https://twitter.com/NORhandball/status/1417409827026919439

ناروے کی بیچ ہینڈ بال ٹیم کی کھلاڑیوں نے شکایت کی کہ انھیں جو لباس پہننے کے لیے کہا گیا تھا وہ حد سے زیادہ غیر آرام دہ تھا۔

چنانچہ سپین کے ساتھ مقابلے کے لیے انھوں نے شارٹس پہننے کا انتخاب کیا۔

مقابلہ شروع ہونے سے قبل ناروے کی ٹیم نے نے انٹرنیشنل ہینڈ بال فیڈریشن سے رجوع کیا اور خواتین کے لیے شارٹس پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔

تاہم ان کی درخواست کو نہ صرف مسترد کیا گیا بلکہ انھیں یاد دلایا گیا کہ اگر ٹیم نے کھیل کے دوران شارٹس کا انتخاب کیا جو کہ قواعد کی خلاف ورزی ہے اور ہر کھلاڑی پر 177 ڈالر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

یورپی ہینڈ بال فیڈریشن (ای ایچ ایف) نے یہ جرمانہ ’غیر مناسب لباس‘ کی وجہ سے عائد کیا اور کہا کہ ناروے کی ٹیم نے شارٹس پہن کر مقابلے میں حصہ لیا جوان کے کے قواعد کے مطابق نہیں ہیں۔

جوابی تنقید

The women's Norwegian beach handball team in 2018

لیکن اس پر شدید ردِعمل دیکھا گیا۔

بہت سارے لوگوں نے پوچھا کہ اگر مرد بیچ ہینڈ بال کے کھلاڑی لمبے لمبے، ہوادار بنیان اور شارٹس پہن سکتے ہیں جو ان کی رانوں تک پہنچتے ہیں تو خواتین کیوں ایسا کچھ نہیں پہن سکتی ہیں؟

ناروے کی ہینڈ بال فیڈریشن کے سربراہ کیئر گیئر لیو نے نہ صرف خواتین کی حمایت کی بلکہ فیڈریشن نے جرمانے کی ادائیگی پر اتفاق بھی کیا۔ لیو نے کہا ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے کپڑوں کا استعمال کیا جائے جس میں کھلاڑی آرام محسوس کریں۔‘

ناروے کی والی بال فیڈریشن کے صدر ایرک سوردہل نے کہا: ’2021 میں یہ مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

اور ملک کے وزیر ثقافت و کھیل عابد راجہ نے ٹویٹ کیا: ’یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔۔۔ بین الاقوامی کھیلوں میں قادمت پرست رویے کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘

کئی سالوں سے خواتین کھلاڑی ساحل سمندر پر کھیلے جانے والے مقابلوں میں لباس کے اس فرق کے بارے میں شکایت کرتی آ رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ بکینی میں خود کو کمتر اور قابلِ ہراس سمجھتی ہیں۔

کھیلوں کی رپورنٹگ کرنے والی صحافی ریناتا مینڈونکا نے بی بی سی کو بتایا ’ہر کھیل کو قواعد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم صرف خواتین کے لیے قواعد و ضوابط بنانے لگیں، تب یہ ایک مسئلہ ہے۔‘

ڈیجیٹل مواد کی تخلیق کار اور سابق وکیل تووا لی نے بی بی سی کو بتایا کہ بدقسمتی سے کھیلوں میں سیکس ازم بہت ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بہت ساری شاندار خواتین ایتھلیٹ کھیلنا چھوڑ دیتی ہیں۔

’مسئلہ شارٹس کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 2021 میں بھی خواتین کو یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ کیا پہن سکتی ہیں یا نہیں پہن سکتی کیونکہ خواتین کے جسموں کو اب بھی مردوں کے مفادات کی شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے ہر ایک کو رائے دینے کا حق ملتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کھلاڑیوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا انھیں پروفیشنل کھلاڑی کے بجائے آئی کینڈی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اور مینڈونکا اس بات سے متفق ہیں: ’بیکنی کا کوئی معقول جواز نہیں ہے، اگر خواتین کو شارٹس میں کھیلنے کی اجازت دی جاتی ہے تو – کھیل کسی بھی طرح سے تبدیل نہیں ہوگا – بلہ وہ زیادہ آرام دہ محسوس کریں گی۔‘

پیرا ایتھلیٹ کا زیر جامہ ’بہت چھوٹا اور فحش قرار

https://twitter.com/BreenOlivia/status/1417064573467828228/photo/1

مگر ناروے کی ٹیم پہلی نہیں جنھیں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہو اور نہ ہی وہ آخری ہوں گی۔

دراصل ان پر جرمانے سے ایک دن قبل ہی جب برطانوی پیرا ایتھلیٹ اور ڈبل ورلڈ چیمپئن، اولیویا برین کو انگلش چیمپئن شپ میں حصہ لینے کے دوران زیادہ مناسب شارٹس پہننے کے بارے میں کہا گیا تو وہ حیران رہ گئیں۔

یہ تبصرہ ایک عہدیدار کی طرف سے آیا جس نے کہا تھا کہ اس کے چھوٹے زیر جامے میں ’سب کچھ نظر آ رہا تھا‘۔

برین نے اس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ دوسروں کے ساتھ ایسا ہونے کا سلسلہ رک سکے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا ’جب ہم مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ یہ زیادہ سے زیادہ ہلکا ہو، بھاری محسوس نہ ہو اور اس میں آرام محسوس کریں۔‘

’میں نے انھیں نو سال تک یہی پہنا ہے، مجھے کبھی مسئلہ نہیں ہوا۔ ہمیں صرف وہی پہننا چاہیے جسے ہم پہننا چاہتے ہیںگ

لی کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے جسموں کو ‘مسئلہ’ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے جسم یا تو ‘نامناسب’ ہیں یا ‘زیادہ تفریحی فراہم نہیں کرتے۔‘

حجاب پہن کر کھیلنا

Doaa Elghobashy of Egypt and Kira Walkenhorst of Germany competing at Rio 2016

یہ مسئلہ 2016 میں بھی سامنے آیا جب ریو اولمپکس کی ایک تصویر بڑے پیمانے پر شیئر ہوئی اور اس پر تبصرہ کیا گیا۔

ساحل سمندر پر والی بال کی دو کھلاڑیوں کی ایک تصویر – ایک مصر سے اور ایک جرمنی سے۔۔۔ کھیلوں کی متاثر کن صلاحیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی بظاہر ’متضاد کٹ‘ کی وجہ سے۔۔۔ کچھ اخباروں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تصویر میں ’ثقافتوں کے تصادم کی نمائندگی کی گئی ہے۔‘

بہت سے لوگوں نے اس تبصرے کو مسترد کیا کہ اس سے کھیل کی ہم آہنگی سامنے آتی ہے۔

مصر کی دوآا الغوباشی پہلی اولمپین بیچ والی بال کھلاڑی تھی جس نے حجاب پہن رکھا تھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا ’میں نے 10 سال سے حجاب پہنا ہے۔۔۔ حجاب مجھے میری پسند کی چیزوں اور کھیل سے دور نہیں رکھتا اور بیچ والی بال ان میں سے ایک ہے۔‘

لیکن ایک تصویر پر اتنا ردِعمل ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس وقت برطانوی صحافی ہننا اسمتھ نے لکھا ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس ثقافت سے آرہے ہیں، خواتین کے جسم اور جس لباس میں ان جسموں کو ملبوس کیا جاتا ہے اسے اب بھی عوامی ملکیت کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔‘

’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ایک عورت کے طور پر کھیل کھیلنے کے لیے کییا پہنتی ہیں، آپ کو دیکھنے والے مرد ہمیشہ آپ پر اپنی رائے دیں گے۔‘

سرینا کا کیٹ سوٹ

Serena Williams in a black catsuit with a red band at the waits at the 2018 French Open.

امریکی ٹینس کی عظیم سرینا ولیمز نے زچگی کی چھٹی کے بعد 2018 کے فرانسیسی اوپن میں پہننے جانے والے لباس کو ’وہاں موجود تمام مائیں جو مشکل حمل سے گزریں‘ کے لیے وقف کیا۔

ولیمز کا کہنا تھا کہ اس سوٹ نے خون کے جمنے کے مسئلے سے نمٹنے میں ان کی مدد کی، جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ اس مسئلے نے ان کی زندگی کو داؤ پر لگا دیا تھا۔

تو کیا زیادہ خواتین ایتھلیٹس کے اواز اٹھانے سے چیزیں تبدیل ہونا شروع ہو رہی ہیں؟

جمناسٹ کا فل باڈی سوٹ

Germany's Sarah Voss performs on the balance beam during the women's qualification round of the 2021 European Artistic Gymnastics Championships in the St. Jakobshalle in Basel, Switzerland, 21 April 2021

جرمنی کی جمناسٹ سارہ ووس نے روایت کو توڑتے ہوئے اپریل 2021 میں یورپی آرٹسٹک جمناسٹکس چیمپئن شپ کے لیے مکمل لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔

وہ قواعد کے خلاف نہیں گئیں لیکن انھوں نے روایت کو ضرور توڑا۔

اس وقت تک جمناسٹک کے بین الاقوامی مقابلوں میں صرف مذہبی وجوہات کی بنا پر خواتین اور لڑکیوں نے ٹانگیں ڈھانپیں تھیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’نوجوان جمناسٹوں کے لیے ایک ماڈل بننا چاہتی ہیں جو زیادہ محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں۔‘

ووس کو اپنے ملک کے کھیلوں کے حکام اور دو ساتھیوں کی بھی حمایت حاصل تھی جو ان کے اس اقدام میں شامل ہوئے۔

جرمنی کے فیڈریشن نے جمناسٹک میں جنسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے پر ان کی تعریف کی۔

تیراکی کی ٹوپی

Alice Dearing

Luke Hutson-Flynn

اگرچہ تیرتے ہوئے سر پر ٹوپی پہننے والوں کا سفر آسان نہیں رہا مگر اب شاید چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔

بین الاقوامی مقابلوں میں گھنکریالے بال کے لیے تیار کردہ تیراکی کیپس کی اجازت نہ دینے کے فیصلے پر اب ردعمل کے بعد غور کیا جاسکتا ہے۔

سول کیپ کا کہنا ہے کہ پانی کی کھیلوں کی عالمی انتظامیہ کی تنظیم، فینا نے انھیں بتایا ہے کہ ان کی ٹوپیاں مناسب نہیں ہیں کیونکہ وہ ’سر کی قدرتی شکل‘ کے حساب سے نہیں بنائی گئیں۔

لیکن ان تبصروں کو بہت سے تیراکوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جس میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے سیاہ فام افراد کی کھیل میں حصہ لینے سے حوصلہ شکنی ہوگی۔

نتیجے کے طور پر اب فینا کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ’صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔‘

شاید ہی مستقبل میں خواتین کھلاڑیوں کو ان کے لباس پر تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔

لیکن لیہ کے مطابق ایک چیز اب بھی ہم سب کی مدد کے لیے کر سکتے ہیں اور وہ ہے ’جب بھی آپ ایسا ہوتے دیکھیں تو آواز اٹھائیں۔‘

کیوں؟ کیونکہ ’ہمیں چھوٹی عمر سے ہی لڑکیوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ کھیلوں میں عورتوں کا اپنا مقام ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp