کیا افغان طالبان کی پیش قدمی پاکستان میں ٹی ٹی پی کی مضبوطی کا باعث بنے گی؟


افغانستان میں طالبان کی حالیہ فتوحات پر پاکستان میں ایک جانب جہاں مذہبی حلقے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہیں ملک کے اعلیٰ حکام اور سیکیورٹی ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اس سے ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کو تقویت مل سکتی ہے۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمیوں پر حکومتِ پاکستان ٹی ٹی پی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ 2014 میں شروع کردہ آپریشن ضربِ عضب کے دوران ٹی ٹی پی کے وہ کارندے جو افغانستان چلے گئے تھے وہ اب مہاجرین کی شکل میں واپس پاکستان آسکتے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے نو جولائی کو ہونے والے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر افغانستان میں طالبان غالب آتے ہیں تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیموں کو تقویت مل سکتی ہے۔”

اسی اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مہاجرین کی آڑ میں یا بھیس بدل کر پاکستان آ سکتے ہیں۔

اس سے قبل دو جولائی کو فوجی حکام نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔

پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور افغان طالبان کی پیش قدمیاں نہ صرف پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) بلکہ دنیا میں پھیلے ہوئے جہادی گروہوں کے لیے ایک اہم واقعہ ہے جو ان کی تقویت اور بیداری کا سبب بن رہی ہے مگر اس کے اصل نتائج مستقبل میں دیکھنے کو ملیں گے۔

دوسری جانب سرحد پار افغان وزیرِ خارجہ محمد حنیف اتمر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں افغان حکومت کے خلاف ٹی ٹی پی اور القاعدہ افغان طالبان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔

پاکستان کے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو نو جولائی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حنیف اتمر نے کہا تھا کہ افغان صوبے بدخشان، قندوز اور فریاب سمیت دیگر صوبوں میں ٹی ٹی پی اور القاعدہ کا افغان طالبان کے ہمراہ مل کرکارروائیاں کرنے کی مصدقہ اطلاعات مل رہی ہیں۔

طالبان گروہوں کے امور سے واقف سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسعید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’افغان طالبان کی پیش قدمی کے حوالے سے جہادیوں کا حالیہ بیانیہ ٹی ٹی پی کی فکری تقویت کا سبب بھی بن رہا ہے جس سے ان کی صفیں دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں۔”

ان کے بقول ٹی ٹی پی کی جانب سے اس بیانیے کا پرچار کیا جا رہا ہے کہ اگر افغان طالبان امریکہ جیسی عالمی طاقت کو مزاحمت کے بعد مذاکرات کی میز پر لا کر اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں تو ٹی ٹی پی بھی اپنے دشمن یعنی ریاستِ پاکستان کو شکست دے سکتی ہے۔

عبدالسعید نے کہا کہ یہ بیانیہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے بیانات سے بھی ملتا ہے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ برس جنگجو دھڑوں کے ساتھ ساتھ مختلف پاکستانی ریاست مخالف جہادی تنظیموں کی ٹی ٹی پی میں انضمام کے موقع پر کیا تھا۔

ان کے بقول، ٹی ٹی پی کی قیادت اپنے کارکنوں کو اس نکتے پر توجہ دینے کے لیے زور دیتی ہے کہ اگر طالبان اتحاد و اتفاق سے اپنے دشمن کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں تو ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہ بھی پاکستانی ریاست کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں کی واپسی

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے قبل ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جسے ماہرین ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی امیر مفتی نور ولی کا ناراض دھڑوں کی ناراضگیاں ختم کر کے انہیں تنظیم میں واپس لانے کے ساتھ ساتھ ملک میں فعال القاعدہ اور لشکرِ جھنگوی سے وابستہ گروہوں کو بھی ٹی ٹی پی میں شامل کرنے سے جوڑ رہے ہیں۔

اگست 2020 سے ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں کی واپسی کی کوششیں کامیاب ہونا شروع ہوئیں جب تنظیم کے دو اہم دھڑے جماعت الاحرار اور حزبِ الاحرار نے ٹی ٹی پی میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کر کے مفتی نور ولی کی قیادت پر اعتماد کا اعلان کیا تھا۔

کچھ ہفتے بعد ٹی ٹی پی کے شہریار محسود کا دھڑا بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے ناراض دھڑوں کے ساتھ سات القاعدہ کے دو اہم پاکستانی گروہوں نے باقاعدہ طور پر ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی ہے جن میں سے ایک گروہ حال ہی میں ہلاک ہونے والے القاعدہ برِصغیر کے نائب امیر استاد احمد فاروق کے قریبی ساتھی کمانڈر منیب کا ہے۔

دوسرا گروہ القاعدہ سے وابستہ امجد فاروقی گروہ ہے جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔

لشکرِ جھنگوی کے عثمان سیف اللہ کرد کا گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوا ہے جس کی سربراہی اب مولوی خوش محمد سندھی کر رہے ہیں، جو ماضی میں حرکت الجہاد اسلامی نامی شدت پسند گروہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں بھی شمالی وزیرستان سے دو جنگجو دھڑے ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے تھے۔ ان میں ایک گروہ مولوی علیم خان کا ہے جو شمالی وزیرستان کے اہم طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کے ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں جب کہ موسیٰ شہید کاروان گروپ کے نام سے شمالی وزیرستان میں فعال طالبان گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی 21 جولائی کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اس گروہ میں ناراض دھڑوں کی واپسی اور نئے گروہوں کی شمولیت کے بعد ٹی ٹی پی کے سرحد پار حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جب کہ شدت پسند گروہ کے مالی وسائل میں بھی بھتوں، اسمگلنگ اور ٹیکسوں کے ذریعے اضافہ ہوا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے جب حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران جب ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ “ہم کسی فرد یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرے۔ یہ ہماری پالیسی ہے”۔

ٹی ٹی پی کے اہم رہنما مکرم خراسانی نے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے تعلقات کے حوالے سے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’افغان طالبان کے ترجمانوں کے پورے انٹرویو میں سے صرف ایک جملے کو پاکستان میں سراہا جا رہا ہے کہ ’افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی’ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست کو سب سے بڑا یہی خطرہ لاحق ہے۔

ٹی ٹی پی کے ذرائع و ابلاغ کے ذریعے ‘عمر میڈیا’ میں شیئر کردہ اس مضمون میں ٹی ٹی پی رہنما کہتے ہیں کہ ’’آئے روز تجزیوں میں اس بات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو پناہ گزین کے روپ دھارے پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ابھی تو افغانستان سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہی نہیں ہوا اور پاکستان میں روزانہ حملے ہو رہے ہیں اور حملوں میں تیزی بھی آگئی ہے۔”

مکرم خراسانی کے بقول امارت اسلامی ایک جہادی تحریک ہے اور ان کی جدوجہد اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہے جس میں سرحدوں کا تعین نہیں ہوتا کیوں کہ مسلمانوں کا جہاں بس چلے علاقے فتح کریں گے اور وہاں اسلامی نظام نافذ کریں گے۔

جہادی تنظیموں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور القاعدہ نظریاتی طور پر ایک جیسے منشور رکھتے ہیں۔

اسلامی شدت پسند تنظیموں کے لٹریچر پر تحقیق کرنے والے اسلام آباد میں مقیم محمد اسرار مدنی کہتے ہیں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی جدید ریاست، جمہوریت، ووٹنگ حتیٰ کہ خودکش حملوں جیسے بنیادی مسائل پر القاعدہ ہی کے بنیادی لٹریچر کو استعمال کرتی ہے۔

ان کے بقول افغان طالبان پاکستان کی حدود میں کارروائیاں نہیں کرتے اس لیے پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ افغان طالبان ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں لیکن وہ پاکستان کے کہنے پر افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے بھی گریز کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments