من چاہی آزادی نور مقدم کی جان لے گئی


گزشتہ دنوں اسلام آباد میں نور مقدم کے سفاک قتل نے پورے ملک کو سوگوار کیا، وہیں سوشل میڈیا پر بھی غم و غصہ کی لہر دیکھنے میں آئی۔ ٹویٹر اور فیس بک پر جسٹس فار نور کے ٹاپ ٹرینڈز چلتے رہے اور عالمی میڈیا سمیت پاکستانی میڈیا پر اس قتل کو بھرپور کوریج بھی ملی ہے اور ہر ایک چینل کے نیوز روم میں اس معاملے کی بھرپور کوریج کی ہدایات بھی ہیں۔ اس قتل اور اس سے پہلے اسلام آباد میں خواتین کے قتل کے دیگر واقعات کے بعد انٹرنیشنل میڈیا نے اسلام آباد کو خواتین کے لئے غیر محفوظ تک قرار دے ڈالا۔ اس اندوہناک واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اللہ پاک مرحومہ کے والدین کو صبر کاملہ عطا کریں اور امید ہے کہ جلد از جلد اسلام آباد پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ملزم کو قرار واقعی سزا دلوانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اس واقعہ کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر مردوں کو سفاک، قاتل، اور برا بنا کر پیش کیا گیا اور پاکستانی معاشرے میں خواتین کو مظلوم اور غیر محفوظ ثابت کرنے کی بحث نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔ مانا کہ پاکستانی معاشرہ میں مرد زیادہ طاقتور ہیں اور خواتین کو اکثر مواقع پر تفریق، ہراسانی اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس مسئلے کا اس قتل سے جوڑ کر سارے معاشرے کو برا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سب میں مغرب نواز این جی اوز اور میڈیا شامل ہے۔

نور مقدم کے قتل کے واقعہ اور اس کے پس منظر پر پولیس کی جانب سے تفتیش جاری ہے اور جلد ہی اصل حقائق بھی سامنے آ جائیں گے مگر جو ابھی تک حقائق سامنے آئے ہیں اس کے مطابق مقتولہ اور قاتل کے درمیان گہری دوستی کا رشتہ سامنے آیا ہے۔ ایک ایسا رشتہ جس کا دونوں طرف کے خاندانوں کو نہ صرف علم تھا بلکہ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے اور ملنے ملانے پر بھی دونوں طرف سے کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا۔

اب اپر کلاس میں تو ایسے کسی تعلق کو عار نہیں سمجھا جاتا ہے اور چونکہ مرحومہ عورت مارچ میں بھرپور شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی آزادی اور حقوق کے جنگ کی علمبردار تھیں تو دونوں دوستوں کا ملنا ملانا شرعی، اخلاقی اور پاکستان کے معاشرے کی روایات کے مطابق نہ ہونے کے باوجود بھی قابل عار نہ سمجھا گیا۔ اگر کسی کی ذاتی آزادی کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو میری ذاتی رائے کے مطابق کسی کی دوستی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوتا ہے مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مقتولہ اور قاتل اکٹھے ڈانس بھی کریں، ایک دوسرے کے گھر پر کئی کئی دن رات بھی رہیں۔ اس کے بعد ملبہ گرے پورے پاکستان کے مردوں پر، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پورے پاکستانی معاشرے کو ہی وحشی قاتل کے طور پیش کیا جائے؟ پورا اسلام آباد کیسے غیر محفوظ ہو گیا؟

ٹھیک ہے مرحومہ نور مقدم ایک پڑھی لکھی اور باشعور خاتون تھیں مگر معاشرے اور اسلامی روایات کے مطابق مرد اور عورت کے بیچ ایک فیصلہ ایک حد ایک طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ہمیشہ جب معاملات ایک حد سے آگے نکلتے ہیں تو ان کے منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ ملزم اور ملزمہ دونوں ہی آزاد خیال اور شخصی آزادی پر یقین رکھتے تھے اور دیکھا جائے یہی من چاہی آزادی نے ہی معاملات کو اس نہج پر لایا کہ ایک سافٹ سپوکن خاتون کا اندوہناک قتل ہو گیا۔

اللہ تعالی نے عورت اور مرد کے درمیان ایک حد مقرر کی ہے اور یہی حد صرف انسان میں نہیں ہے بلکہ کائنات کی ہر ایک چیز میں طے کی گئی ہے جب بھی یہ توازن بگڑتا ہے تو اس کا نقصان دیکھنے میں آتا ہے۔ میرا یہاں مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے مگر کیوں نہ مرحومہ کے والدین نے بیٹی کے دو سے تین روز گھر سے غائب رہنے پر ایسے اقدامات کیے کہ جس سے یہ واقعہ ہی نہ پیش آتا؟ کیوں نہ قاتل کے والدین نے معاملات کو اس حد تک آنے سے پہلے سنبھالا؟

میرا قارئین بھائی، بہنوں اور بزرگوں سے مودبانہ سوال ہے کہ کیا وہ اپنی بہن، بیٹی کے یوں دو، دو تین روز کسی اور کے گھر رہنے کو برداشت کرسکیں گے؟ کیا وہ اپنے بیٹے بھائیوں کا بھی ایسا تعلق برداشت کریں گے؟ کوئی کتنا بڑا لبرل بھی ہوگا کوئی کتنا بڑا بھی ایکٹوسٹ ہوگا اس کا جواب نہیں میں ہی ملے گا۔ ہمیں بطور معاشرے بقائے باہمی کے اصولوں اور کائنات کے توازن کے اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی، وگرنہ ایسے واقعات ہوں گے، اس پر سوال اٹھانے والے مولوی، کنزرویٹو، جانگلی اور جاہل قرار دیے جاتے رہیں گے اور نقصان یہ ہوگا کہ پر امن پاکستانی معاشرہ کو برا بنا کر پیش کیا جاتا رہے گا۔ افسوسناک طور پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ من چاہی آزادی کسی کے گھر کا نور لے گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments