پاکستان میں دہشتگردی کی تازہ کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان کی ’طاقت‘ کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


طالبان

5 مئی 2021 کو باجوڑ میں سیکورٹی فورسز ایک قافلے کو رات گئے بم حملے کا نشانہ بنا گیا جس کے نتیجے میں دو سیکورٹی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔

ابھی اس واقعے کو کچھ دیر ہی گزری تھی کہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں سکیورٹی اہلکاروں کو اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب افغان پاکستان سرحد باڑ لگانے کا کام جاری تھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ فائرنگ سرحد پار سے کی گئی جس میں چار سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔

ابھی اس حملے کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ شمالی وزیرستان میں ایک جھڑپ میں سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار ہلاک کر دیے گئے۔

48 گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے تین واقعات میں نو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور ان تمام حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔

کالعدم تنظیم تحریک پاکستان کی جانب سے ملک میں حملوں کی اس نئی لہر کا ذکر حال ہی میں تنظیم کے امیر نور ولی خان محسود نے سی این این دیے گئے اپنے پہلے ویڈیو انٹرویو میں بھی کیا۔

اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری جنگ کا مرکز صرف پاکستان ہے اور ہم پاکستانی سکیورٹی فورسز سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ‘ہمیں امید ہے کہ ہم پاکستان کے قبائلی سرحدی علاقوں کا کنٹرول حاصل کر کے ان کو آزاد بنائیں گے۔‘

تاہم گذشتہ چند ماہ میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے صرف قبائلی علاقوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ رواں برس اپریل میں کوئٹہ شہر کے سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے میں واقع سرینا ہوٹل کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس میں مقیم چین کے سفیر بال بال بچ گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔

پاکستان میں دہشتگردی کی یہ تازہ کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان کے ایک بار پھر متحرک ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کی گئی حالیہ رپورٹ میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا اور ملک میں طالبان کے بڑھتے کنٹرول کے پیش نظر تحریک طالبان پاکستان بھی ایک بار پھر مضبوط ہو رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک ٹیم کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی دھڑا بندی کے بعد دسمبر 2019 اور اگست 2020 کے درمیان علیحدگی اختیار کرنے والے گروپوں کی جانب سے ٹی ٹی پی میں شمولیت میں تیزی آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جماعت الاحرار، حزب الاحرار، شہریار محسود گروپ، امجد فاروقی گروپ، عثمان سیف اللہ گروپ (لشکر جہنگوی کا گروپ) تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ان دھڑوں کی تحریک طالبان پاکستان میں ایک بار پھر شمولیت میں القاعدہ نے ایک ثالث کا کردار ادا کیا جو کہ دونوں گروپوں قریبی روابط کا واضح ثبوت ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان پر کارروائیوں سے متعلق پابندیوں کے معاملے پر دونوں گروپوں میں جھڑپیں ہوئیں لیکن دونوں گروپوں میں پہلے کی طرح کے تعلقات قائم ہیں۔

سی این این کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے امیر کا افغانستان سے امریکی فوج کے اخلا کے بعد افغان طالبان کے متعدد علاقوں پر کنڑول سے متعلق کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی فتح تمام مسلمانوں کی فتح ہے اور ہمارا ان سے تعلق اسلامی اصولوں، اخوت اور بھائی چارے پر مشتمل ہے۔

ملا فضل اللہ

تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق رہنما ملا فضل اللہ پاک افغان سرحد کے قریب ایک نامعلوم مقام پر: فائل فوٹو

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مسلمان کی جیت دوسرے مسلمان کے لیے سود مند ہے لیکن یہ وقت بتائے گا کہ افغان طالبان کی یہ جیت پاکستانی طالبان کے لیے کیسے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان گروپوں کی تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت نے گروپ کو نہ صرف تقویت پہنچائی ہے بلکہ ان کے جنگجوؤں کی تعداد کو ڈھائی ہزار سے چھ ہزار تک بڑھا دیا ہے۔

انسداد دہشتگردی پر ریسرچ کے ادارے کامبیٹنگ ٹیریرزم سنٹر (سی ٹی سی) کی ماہانہ اشاعت میں تحریک طالبان پاکستان کی دوبارہ بحالی سے متعلق شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ ایک سال میں آٹھ گروپ تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے گذشتہ ماہ پاکستان کے شہروں میں اپنے گورنر بھی نامزد کئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق عمر خالد خراسانی کو پشاور، شاہد عمر کو باجوڑ، مفتی برجان کو مالاکنڈ، علیم خان کو بنوں جبکہ ابو یاسر کو ڈی آئی خان کا گورنر نامزد کیا گیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حملوں میں تیزی

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دھڑوں کی تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کے بعد تنظیم کی جانب سے پاکستان میں کارروائیوں میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے اور تنظیم کی جانب سے سو سے زائد سرحد پار حملے کیے گئے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کی دوبارہ بحالی سے متعلق شائع ہونے والی سی ٹی سی کی تحقیق کے مطابق ان دھڑوں کی تنظیم میں شمولیت سے پہلے اور دوران یعنی سال 2020 کے پہلے چھ ماہ میں تحریک طالبان پاکستان کے جانب سے 48 حملے کیے گئے جبکہ ان ڈھڑوں کے ضم ہونے کے بعد یعنی 2020 کے آخری چھ ماہ میں تنظیم کی جانب سے 101 حملے کیے گئے جبکہ 2021 کے پہلے تین ماہ میں تنظیم نے 61 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

تحریک طالبان پاکستان میں ڈھڑابندی کم ہونے سے نہ صرف اس کے حملوں میں تیزی آئی ہے بلکہ تنظیم کی جانب سے ایک بار پھر اہم افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کی حالیہ مثال سرینا ہوٹل اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے ہیں۔

اس کے علاوہ افغان طالبان کی جانب سے چمن کی سرحد اور سپین بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان بلوچستان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں پاکستانی حکومتی عہدیداروں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی جاری کی گئی۔

مزید پڑھیے

کیا موجودہ طالبان پچھلوں سے مختلف ہیں؟

طالبان تو اچھے ہوتے ہیں!

’ناراض‘ طالبان گروہ تحریک طالبان پاکستان میں شامل

‘تحریک طالبان پاکستان کو متحرک کرنے میں مفتی نور ولی محسود کا اہم کردار ہے۔‘

تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود کو 2018 میں ملا فضل اللہ کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ 2020 میں اقوام متحدہ کی جانب سے ان کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔

مفتی ولی محسود نے جب تحریک طالبان پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت تنظیم میں ڈھڑا بندی عروج پر تھی اور تنظیم کی متعدد ڈھڑے اور جنگجوؤں نے دولت اسلامی خراساں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان فوج کی جانب سے کارروائیوں کے بعد اس تنظیم کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجودگی بھی بہت حد تک کم ہوگئی۔

2014 سے قبل وادی تیرہ کو تحریک طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن 2014 کے آپریشن کے بعد تنظیم کے متعدد سربراہ افغانستان کے صوبے ننگرہار منتقل ہوگئے لیکن طالبان کے خلاف آپریشن کی وجہ سے اب اس تنظیم کی موجودگی پاکستان کی سرحد سے محتصل افغانستان کے صوبے کنڑ میں زیادہ ہے۔

سی ٹی سی کی تحقیق کے مطابق مفتی ولی محسود کی قیادت میں متعدد قبائل پر مشتمل ڈھڑوں جیسا کہ حکیم اللہ محسود گروپ اور شمالی وزیرستان کے علیم خان گروپ کی تنظیم میں شمولیت نے ٹی ٹی پی کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بحالی کو ممکن بنا دیا ہے۔

اس کے علاوہ مفتی ولی محسود کی قیادت میں تنظیم کی کارروائی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے اور 2018 میں تحریک طالبان کے ارکان کے لیے جاری ہدایت نامے کے مطابق تنظیم نے حملوں کے دوران شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔

ٹی ٹی پی

تحریکِ طالبان پاکستان میں مختلف دھڑے بنتے رہے ہیں

ماضی میں افغان طالبان سمیت متعدد شدت پسند تنظیموں کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو اپنے حملوں میں بے گناہ شہریوں کو بڑی تعداد میں نشانہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ دسمبر 2016 میں ہونے والے اے پی ایس سکول حملے میں متعدد بچوں سمیت 145 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اپنی کارروائیوں میں شہریوں کو خاص کر کہ بچوں اور خواتین کو بڑی تعداد میں نشانہ بنانے کی وجہ سے بھی اس تنظیم کی پاکستان میں حمایت میں کمی واقع ہوئی۔ اور شاید اسی لیے ولی نور محسود نے اپنے ارکان کو کارروائیوں میں شہریوں کو جہاں تک ہوسکے نشانہ بنانے سے گریز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں تاکہ تنظیم کے عوامی تاثر کو بہتر بنایا جا سکے۔

‘تحریک طالبان پاکستان کے لیے خطرہ ہے لیکن پہلے جیسا نہیں‘

مفتی ولی نور محسود کی قیادت میں تحریک طالبان کا ایک بار پھر متحرک ہونا پاکستان کی داخلہ سکیورٹی کے لیے ایک چیلنچ ہے جس کاخدشہ وزیر داخلہ شیخ رشید اور قومی سلامتی معید یوسف بھی حالیہ دنوں میں متعدد بار کر چکے ہیں۔

ایک بیان میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں سکیورٹی کے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مہاجرین کی بڑی تعداد افغانستان سےپاکستان کا رخ کرتی ہے تو انھیں خدشہ ہے کہ کہیں تحریک طالبان پاکستان مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل نہ ہوجائے۔

تاہم انسداد دہشتگردی کے ماہر ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے دھڑوں کی تنظیم میں دوبارہ شمولیت کی وجہ سے تنظیم کی کارروائیوں میں تیزی تو آئی ہے لیکن یہ تنظیم کو پہلے کی طرح فعال نہیں کر پائے گی۔

‘تحریک طالبان پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنچ ہی افغان طالبان کی طرف سے ہے جو کہ ماضی میں بھی تنظیم کو پاکستان مخالف کارروائیوں پر روکتے اور تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان ہی میں تحریک طالبان پاکستان کی دوسرے اور تیسرے درجے کے متعدد رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے افغان طالبان کا ہاتھ ہے۔‘

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کی افغانستان میں پر اسرار ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ شہریار محسود جیسے لوگوں کی تحریک طالبان پاکستان میں واپسی اس کے لیے ایک اہم کامیابی ہے لیکن 2014 کے فوجی آپریشن کی وجہ سے اس تنظیم کے قبائلی علاقوں میں موجود نیٹ ورک کو بڑی حد تک نقصان پہنچا جس کی وجہ سے 2014 سے قبل جیسی صورت حال مستقبل قریب میں بنتی نظر نہیں آتی جس میں پاکستان کے قبائلی علاقوں کے متعدد حصوں پر ٹی ٹی پی کو مکمل کنٹرول حاصل تھا۔

ڈاکٹر خرم کا کہنا اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ ‘حالیہ کارروائیوں سے واضح ہے کہ یہ اب بھی پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو جامع سکیورٹی پلان مرتب کرنا پڑے گا۔‘

ڈاکٹر خرم کے خیال میں تحریک طالبان کے متحرک ہونے کے پیچھے افغان طالبان سے زیادہ القاعدہ کا ہاتھ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس وقت تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان سے زیادہ القاعدہ کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن دائش اور اس جیسی تنظیموں کے آنے کے بعد القاعدہ کا خطے میں اثر و رسوخ بھی گذشتہ دس سال میں بہت ہم ہوا ہے۔ اب اس کے پاس نہ پہلے کی طرح کہ مالی وسائل ہیں اور نہ ہی جنگجو جس کے ذریعے وہ تحریک طالبان کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کر سکے۔‘

ڈاکٹر خرم سمجھتے ہیں کہ جوں جوں افغان طالبان کی افغانستان پر گرفت مصبوط ہوتی جائے گی تحریک طالبان پاکستان کا وہاں پرسرگرم رہنا اور وہاں سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنا بھی مشکل ہوتا جائے گا کیونکہ افغان طالبان کے تعلقات پاکستانی ریاست سے بہتر ہیں جس کی بنیاد پر افغان طالبان نے ہمیشہ پاکستان مخالف جہاد کی مذمت کی ہے۔

انسداد دہشتگری کے ماہر ڈاکٹر تہمینہ اسلم رانجھا بھی ڈاکٹر خرم سے اتفاق کرتی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان متحرک ہونے کے باوجود 2014 سے پہلے کی طرح مصبوط نہیں ہو پائے گی۔

ڈاکٹر تہمینہ اسلم رانجھا کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا ایک بار پھر متحرک ہونا اس لیے بھی پاکستان کے لیے باعث فکر ہے کیونکہ اس تنظیم کی تمام کارروائیوں اور سرگرمیوں کو محور پاکستان ہے۔

‘اگرچہ ریاست پاکستان تحریک طالبان پاکستان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہے کیونکہ وہ ایک بار اس کے خلاف کامیاب آپریشن کر چکی ہے لیکن اس وقت ڈھڑوں کی تنظیم میں دوبارہ شمولیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ان کے لیے حمایت ایک بار پھر بڑھ رہی ہے۔‘

ڈاکٹر تہمینہ کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا نظریہ ایک بار پھر پاکستانیوں کے ذہنوں میں جڑ نہ پکڑے، اس کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسندی کے خلاف ریاست پاکستان کی جانب سے بنائے گئے ‘پیغام پاکستان’ نظریے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp