پاکستانی مومن اور افغانی طالبان


پچھلی نصف صدی سے دنیا میں کچھ ایسی جنگی صورتحال ہے کہ ہر ملک دوسرے کو فریق بنا کر جنگ جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس صورتحال میں ممالک کی مختلف اقسام شامل ہوتی ہیں۔ پہلی قسم وہ جو صورتحال پیدا کرنے کی چال بازی کرتی ہے، دوسری قسم کے ممالک اس بچے کی مانند بھولے بن جاتے ہیں جو منہ میں چوسنی لے کر خاموش ہو جاتا ہے، تیسری قسم ان ممالک کی ہے جو جان بوجھ کر غیروں کے معاملے میں ٹپکتے ہیں اور چوتھی قسم ان ممالک کی ہے جن میں دوسری اور تیسری مذکورہ صورتیں ایک وقت میں اختیار کرنے کی صلاحیت خوب ہوتی ہے۔ میں ایک ایسی ذہین ریاست کا باشندہ ہوں جو مذکورہ آخری تینوں خصوصیات کی حامل ہے۔ اور یہ ہنر قابل تعریف ہے۔

ابھی حال ہی میں امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں جو کہ سفارتی سطح پر قابل تعریف عمل ہے۔ کسی بھی ملک میں خواہ مخواہ فوجیں اتارنا کوئی اچھا عمل نہیں۔ پوری دنیا نے اس عمل کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ افغانستان میں امن ہو گا۔

اس صورتحال کے بعد پاکستانی مومنوں کا ایمان تازہ ہو گیا اور ہر سو طالبان کے گیت گائے جانے لگے۔ طالبان کو ہیرو قرار دیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ مبارکباد کے پیغامات گردش کرنے لگے اور چند ایک تو مجھے بھی وصول ہوئے۔

اس دوران عوام کے ساتھ ساتھ نجی و سرکاری اداروں میں بھی ایسے مومنین مشاہدے میں آئے جو اس فتح پر خوش تھے۔ حتیٰ کہ اکثر میڈیا چینل بھی انتہائی معترف نظر آئے کہ طالبان نے امریکہ کو شکست دے کر اسلام کا پرچم بلند کر دیا۔ مگر اس اسلام کی وضاحت نہیں دی کہ یہ مقامی صنعت میں تیار شدہ اسلام ہے یا محمد (ص) کا دیا ہوا اسلام؟

اب اگر سفارتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو عجیب صورتحال ہے۔ ایک طرف طالبان کی حوصلہ افزائی ہوتی محسوس ہوتی ہے اور کبھی ایسے بیانات بھی آتے ہیں گویا ہمارا طالبان کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں رکھی جا رہی۔ اگر بارڈر کی صورتحال دیکھیں تو ادھر بھی نقل و حرکت جاری ہے۔

میں نے پڑھا تھا کہ ”مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہی ڈسا جاتا“ جب یہ قول مجھے یاد آیا کہ اس قول کے مطابق جو لوگ خوش ہیں وہ مومنین نہیں ہو سکتے۔ مگر پھر میں نے اس منطق پر ان کو مومن تسلیم کر لیا کہ جب اقتدا کرنے والا امیرالمومنین ہے تو مقتدی مومن ہی ہو گا اور اس موڑ پر میں نے سر خم تسلیم کیا۔

خیر اب ایک نظر اس سوراخ پر کہ جہاں سے ہمیں شوق ہے کہ ہم ڈسے جائیں۔ ایک دور تھا کہ طالبان کو استعمال کیا گیا۔ پھر انھیں طالبان نے پہلے افغانستان کے نوے فیصد حصے پر قبضہ کیا اور پھر اس قبضے کے حصے میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی یا زیادتی ہوتی رہی۔ افغانستان میں اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اللہ اکبر کی صدا لگا کر شوق شہادت سینے میں لیے ہوئے جہاد کا پختہ ارادہ کر لیتا اور پھر کبھی سوات جیسی وادی کو، کبھی پھولوں کے شہر کو، وزیرستان کے جفا کش لوگوں کو، روشنیوں کی آماجگاہ کو، درسگاہوں کو، مزدوروں کے کاروباری مراکز کو، کسی ماں کی گود کو، برف سے سفید پوش پہاڑی علاقوں کو اور کبھی حصول رضائے الٰہی کے اپنی عبادت گاہ میں اعمال انجام دیتے ہوئے شریف النفس انسانوں کی زندگیوں کو ختم کر کے بزعم خود جنت چلا جاتا۔

اور خدا کے فضل سے مومنین کا ایمان اس قدر پختہ ہے کہ اس قدر ڈسے جانے کے با وجود امیرالمومنین انھیں کو مانتے ہیں۔ اگر پاکستانی مومنین اسی جذبے کے ساتھ طالبان کو امیر تسلیم کرنے کے لیے تیار رہے تو اس بار پھر سے ایک نئی خانہ جنگی کو خوش آمدید کہہ دیں گے جو کبھی ختم نہ ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments