قادرے نائی کی کتیا
اس دور میں جب ہر چیز ملاوٹ والی ہے زہر خالص دلوں میں بھرا ہے اور کٹا بھی خالص دودھ پینے سے قاصر ہے بلکہ صرف دودھ بھی اب کٹے کے لئے نایاب ہے کیونکہ بھینس کو بھی وہی ٹیکہ لگا کر دوہا جاتا ہے جو عام آدمی کو لگا کر اس سے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔ کبھی مہنگائی کا ٹیکہ کبھی بے روزگاری کا ٹیکہ، بد نظمی لاقانونیت اور اسی طرح کے بہت سے اور ٹیکے۔ اب ہم بھی ایسے ٹیکوں کے عادی ہو گئے ہیں کہ اگر نہ لگے تو ہمارے جسم کو بے چینی سی لگی رہتی ہے۔
ہماری سوچ بھی اتنی سہل پسند، مصنوعی اور دوغلی ہو چکی ہے کہ اب ہم گرتے ہیں تو شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ داغوں کا چیمپئن بننا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے دل کی بات تک دوسروں سے کروانا چاہتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے دل میں ہے وہ دوسروں کو سنا کر چاہتے ہیں کہ یہ بات صاحبان سلامت تک پہنچے۔ ہمارے اندر ہمت نہیں رہی کہ کسی بھی جھوٹ اور جھوٹے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکیں کہ یہ دروغ گوئی ہے اور تم دروغ گو ہو۔ ہم تو کسی ایسے شخص کو بھی روکنے کی جرات نہیں کر پاتے جو سکول کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر رفع حاجت کر رہا ہو۔
مسجد سے جوتا چرا رہا ہو یا مسجد کے حجرے میں سگریٹ پی رہا ہو۔ ون ویلنگ کر رہا ہو ون وے سڑک کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔ اشارہ توڑ رہا ہو۔ یہ ساری باتیں تو دور کی ہیں ہم کسی دکاندار یہاں تک کہ سبزی پھل والے سے یہ نہیں کہ سکتے کہ وہ غلط طریقے سے اپنا مال بیچ رہا ہے۔ ہم کسی بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، ٹرمینل، یا ائر پورٹ یہاں تک کہ کسی بھی عوامی جگہ پر ہوتا ہوا گناہ یا برائی ہوتے دیکھتے رہتے ہیں مگر اس کی مذمت کرنے یا اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سر راہ کوئی کسی لڑکی، لڑکے، مرد عورت کو تنگ کرہاً ہو تو ہم اپنی دم دبا کر نکل جاتے ہیں کہ کہیں یہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کرنا شروع نہ کر دے۔ ہاں اسی بات کو گھر آ کر خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ کہ دیکھیں معاشرے میں کیسی ابتری پھیل گئی ہے۔ کوئی قدر باقی ہی نہیں رہی۔
ایمان تو جیسے ہم بیچ ہی آئے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہ نشئی ہے مگر ہم اپنی املاک اس کی دعائیں لینے کے لئے اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لنگر کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے والے پیروں کے قدموں میں یوں گرتے ہیں جیسے یہی ہمارے حاجت روا اور مصائب و آلام کو دور کرنے والے ہیں۔ جانتے ہوئے کہ یہ نام نہاد پیر روحانیت سے کوسوں دور ہے اس کے پاس اولاد لینے چلے جاتے ہیں۔ شعبدے باز کی شعبدہ بازی کا علم رکھتے ہوئے اس سے شفا کے طالب ہوتے ہیں۔
پہلے محلوں میں چند ایک چالاک لوگ معتبر کہلاتے تھے جو کسی بڑے عہدے دار کے ساتھ یا کسی جانے پہچانے سیاست دان کے ساتھ اپنی تصویر دکھا کر معتبر و معقول بنے پھرتے تھے۔ عام لوگ انہیں کو بڑا آدمی سمجھ بیٹھتے تھے اور بے چارے سادہ لوح انہیں کے ہاتھوں لٹ جاتے تھے۔ اکثر ایسا معتبر شخص اس محلے کا سب سے چھٹا ہوا شخص ہوا کرتا تھا اس کے اوپر اس سے بڑا اور یوں یہ سلسلہ عقیدت کسی بڑے سرکاری عہدے دار یا سیاست دان تک جا پہنچتا تھا اور یوں اس بے نام بڑے کی سرپرستی میں عوام کو دھوکا دیا جاتا۔
اب صورت حال اس سے بھی سنگین ہے گزرے زمانے میں تو ایک آدھ محلے کا ڈان ہوا کرتا تھا اب محلے دار کم ہیں اور ناہنجار زیادہ ہیں۔ ہر کوئی چوہدراہٹ کی چوکھٹ پر براجمان ہے۔ جس سے بات کریں وہی آپ کو سب سے بڑا دھوکے باز مطلب معتبر شخصیت نظر آئے گا۔ کسی کی عزت اب کسی کی نہیں رہی۔ جتنا بھی کوئی شریف ہو ایک ہی منٹ میں اس کی بے عزتی کر کے اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ یہ سلوک تو ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ ہے مگر جب ہم اپنے سے اوپر والے گرو کے سامنے حاضر ہوتے ہیں جس کی شہ پر ہم نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہوتا ہے تو ہم قادرے نائی کی کتیا بن جاتے ہیں۔
میرے والد صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ہم سب اب قادرے نائی کی کتیا بنتے جا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا جو آپ کے لئے دہرا دیتا ہوں۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کا واقعہ ہے ڈھاب نام کی ایک بستی تھی جس میں بلوچوں کا ایک قطنہ نامی قبیلہ آباد تھا۔ اس بستی میں ایک نائی بھی رہتا تھا جس کا نام قادرا تھا۔ اس نے کتوں کا ایک جوڑا پال رکھا تھا مطلب یہ کہ ایک نر اور ایک مادہ کتیا۔
نر تو مر گیا مگر کتیا زندہ تھی۔ اس بستی کے لوگ حجامت بنوانے بال کٹوانے اسی کے پاس آتے تھے تو وہ کتیا بس ان پر بھونکا کرتی تھی۔ ہر کوئی اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ وہ صرف ٹوں ٹوں کرتی ہے اس لئے وہ سیدھا قادرے کے پاس چارپائی پر چلا جاتا اور وہ کتیا دور بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھتی رہتی اور آہستہ آہستہ غراتی رہتی۔ اسی بستی میں محرم قطنہ نام کا ایک شخص بھی رہتا تھا وہ بھی ایک دن نائی کے پاس حجامت بنوانے گیا۔
کتیا نے حسب معمول ٹوں ٹوں کی۔ محرم قطنہ عجیب طبیعت کا حامل شخص تھا اسے اس کتیا کی اتنی ٹوں بھی پسند نہ آئی وہ ڈانگ (ڈنڈا) اٹھا کر اس کے پیچھے لگ گیا۔ اسے مارتے مارتے اور بھگاتے بھگاتے کافی دور آ گیا وہ کتیا اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ ڈر کے مارے اس کا پیشاب نکل گیا۔ اس کے بعد جب بھی جہاں بھی محرم قطنہ اس کتیا کو مٹھی بند کر کے حکم صادر کرتا کہ موت (پیشاب کر) وہ کتیا اسی وقت اور اسی جگہ موت دیتی۔
ہم بھی وہی بنتے جا رہے ہیں۔ خود سے بڑے کے سامنے ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر بات کرتے ہیں یعنی وہ جب بھی مٹھی بند کر کے کہتا ہے موت ہم موت دیتے ہیں۔
- فلسطین پر قبضہ۔ پہلا قدم - 24/09/2024
- مقتدر اشرافیہ: آپ پر عوام بھی قربان - 01/07/2024
- خاص قوم اور خاص نسل - 05/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).