با اختیار اور ڈمی وزیراعظم میں فرق


جب سے کشمیر اور سیالکوٹ کا الیکشن اختتام پذیر ہوا اور نتائج مسلم لیگ نون کے حق میں نہیں آئے۔ اس وقت سے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک بحث چل نکلی ہے۔ یعنی اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیہ کو تقویت ملی ہے۔ مختلف لوگ اس بحث میں شریک ہیں اور ان کا خیال ہے۔ پارٹی کے اندر دو بیانیے نہیں چل سکتے اور ان کا خیال ہے۔ شاید اسی وجہ سے کشمیر اور سیالکوٹ کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ نون کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

میاں محمد شہباز شریف کی خاموشی نے بھی ان افواہ ساز فیکٹریوں کو کھل کر بولنے کا موقع فراہم کیا۔ ان افواہ ساز فیکٹریوں کے مطابق اگر میاں محمد شہباز شریف کو مکمل اختیارات کے ساتھ مفاہمتی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے موقع فراہم کیا جاتا تو اس کے مختلف نتائج نکلنے تھے۔ یعنی دوسری طرف مریم نواز کو کچھ عرصے کے لیے خاموش کر دیا جاتا اور وہ جس انداز میں میاں محمد نواز شریف کے بیانیے کو لے کر آگے چل رہی ہیں۔ اس کو وقتی طور پر روک لیا جاتا۔

ذرا دونوں بیانیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو افواہ ساز فیکٹریاں میاں محمد شہباز شریف کے حق میں اور ان کی مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا جس طرح پاکستان کی تاریخ میں میر ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز اور حالیہ تاریخ میں جناب عمران خان وزیراعظم ہیں۔ اس طرح کی وزارت عظمی پاکستان مسلم لیگ نون کو دے دی جائے اگر تو اس طرح کا ڈمی وزیراعظم بننا مقصود ہو تو پھر گزشتہ 3 سال سے جس طرح میڈیا ٹرائل اور عدالتی ٹرائل ہو رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹاپ لیڈرشپ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص بچا ہو۔ جس نے نیب ایف آئی اے کے جبر کا سامنا نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ کئی ایسے رہنما موجود ہیں۔ جن میں میاں محمد نواز شریف مریم نواز میاں محمد شہباز شریف شاہد خاقان عباسی خواجہ آصف خواجہ سعد رفیق خواجہ سلمان رفیق مفتاح اسماعیل چوہدری احسن اقبال رانا ثناء اللہ میاں محمد حمزہ شہباز شریف جنہوں نے کئی کئی ماہ تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اگر تو یہ سب کچھ مفاہمتی پالیسی کے تحت کرنا ہوتا تو پھر اتنے بڑے ٹرائل کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

اس طرح ڈمی وزیراعظم بننے کی میاں محمد شہباز شریف کو پہلے بھی آفر ہو چکی ہیں۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کے بیانیے کو دل سے تسلیم کیا اور سر تسلیم خم کیا۔ حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور افواہ ساز فیکٹریوں کی پوری کوشش ہے کسی طریقے سے دونوں بھائیوں کے درمیان بیانیے کو بنیاد بنا کر لڑائی کی جائے اور اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے پاکستان مسلم لیگ نون کے اندر اگر عوام ووٹ دیتے ہیں تو وہ صرف میاں محمد نواز شریف کے نام پر دیتے ہیں۔

اگر میاں محمد شہباز شریف حالات سے مجبور ہو کر غلط فیصلہ کر بھی لیا تو اس کا زیادہ نقصان ان کو ہی ہوگا۔ مجھے پورا یقین ہے وہ عمران خان کی طرح ڈمی وزیراعظم بننا پسند نہیں کریں گے۔ اب ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ دراصل ہے کیا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں میاں محمد نواز شریف پاک فوج کے خلاف ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ پاک فوج کی دل سے عزت اور احترام کرتے ہیں اور جو جوان وطن کی خاطر جام شہادت نوش کرتے ہیں۔

ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا بیانیہ آئین کی بالادستی ہے۔ یعنی ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم پاکستان کو چیف ایگزیکٹو کا درجہ حاصل ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو کیونکہ عوام منتخب کرتی ہے۔ اور وہ عوام کی طاقت سے منتخب ہو کر آتا ہے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس کو تمام فیصلے کرنے کا اختیار عوام نے دیا ہوتا ہے۔

لیکن پاکستان میں لڑائی اس وقت شروع ہوتی ہے اور کوئی بھی منتخب وزیراعظم اس وقت وزیراعظم ہاؤس سے خاموشی سے نکل جاتا ہے جب اس کے اختیارات کو کم کر دیا جاتا ہے۔ یا اس کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین قطعی طور پر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میں غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد جس جماعت کو عوام منتخب کریں۔

اس کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ پاکستانی وزیراعظم کے سر پر لٹکتی تلوار کو ختم ہونا چاہیے۔ یہی آئین پاکستان کا تقاضا ہے اور اسی میں پاکستان کی فلاح و بہبود موجود ہے۔ اور اسی وجہ سے میاں محمد نواز شریف کو تین بار وزارت عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا کسی بھی ادارے کا چیف ایگزیکٹو پسند نہیں کرتا کہ اس کے معاملات میں مداخلت کی جائے۔ پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل آئین پاکستان کی سربلندی ہے اور اس کا نفاذ ہے۔

اگر پاکستان کے تمام ادارے آئین پاکستان کی متعین کردہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے عمل کریں تو اسی میں ایک ترقی یافتہ پاکستان آپ کو نظر آئے گا ورنہ دوسری صورت میں آدھا ملک پہلے گنوا بیٹھے اور جو پاکستان موجود ہے۔ اس کے مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں کو اس خوبصورت پاکستان کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس کی سر بلندی کے لیے کام کرنا چاہیے اور وہ کام صرف 1973 کے متفقہ آئین میں موجود ہے۔

آئین پاکستان کا مطلب صرف کتابی شکل نہیں ہے۔ بلکہ اس آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنا ہی ہماری ذمہ داری ہے اور تمام اداروں کو اس آئین کے تحت ہی کام کرنا ہے۔ اسی میں پاکستان کی سربلندی ہے۔ اگر یہ کام نہیں ہوتا تو پھر کشمیر الیکشن سیالکوٹ الیکشن کچھ بھی نہیں اگلے عام انتخابات بھی ہار جائیں لیکن کبھی بھی ڈمی وزیراعظم بننا قبول نہ کریں۔ جب تک پاکستان میں متفقہ آئین پر عمل نہیں ہوتا۔ صاف شفاف انتخابات نہیں ہوتے ملک کبھی بھی ترقی کی شاہراہ پر نہیں چل سکتا۔

کالم کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ میاں محمد شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ 2018 کے الیکشن میں یہ کہا گیا میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس نہ آنے دیا جائے۔ مگر وہ اس کے باوجود واپس آ گئے ہزاروں کارکن ائر پورٹ تک نہ پہنچ سکے۔ یہاں تک کہ خود میاں محمد شہباز شریف نہر کے کنارے گھومتے رہے۔ میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے باوجود مسلم لیگ نون کو حکومت نہ بنانے دی گئی۔

یہاں تک کہ پنجاب میں سنگل لارجسٹ پارٹی یعنی اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود پنجاب کی حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کر دی گئی۔ اس کے بعد میاں محمد شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کے ساتھ لندن چلے گئے۔ کافی عرصہ وہاں قیام کیا۔ 2020 میں کرونا کی وبا کے دوران ان کو واپس بلایا گیا کہا جاتا رہا پی ٹی آئی کی نا اہل حکومت سے کرونا پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے۔ آپ کو کوئی ایم کردار دیتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا ایک بار پھر میاں محمد شہباز شریف بیانیہ ناکام ہوا۔

میاں محمد شہباز شریف گرفتار ہوئے جیل چلے گئے۔ جیل میں ملاقاتیں ہوئیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے دوران جیل سے باہر آئے۔ کہا گیا پنجاب میں عدم اعتماد کرتے ہیں۔ کچھ بھی ایسا نہ ہوا۔ کشمیر کے الیکشن ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون نے چار لاکھ 91 ہزار ووٹ حاصل کیے اور ان کو صرف 6 سیٹ ملیں۔ پی ٹی آئی نے 6 لاکھ بارہ ہزار ووٹ لیے ان کو 26 سیٹیں ملیں۔ پیپلز پارٹی نے تین لاکھ پچاس ہزار ووٹ لیے ان کو گیارہ سیٹ ملیں۔ یاد رکھیں جب بھی دھاندلی زدہ اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے الیکشن ہوں گے۔ ایسی کٹھ پتلی حکومت بنانے کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام کو فائدہ اسی میں ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق صاف شفاف انتخابات ہوں۔ جس کی حکومت بنے اس کو مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے دی جائے۔ اسی میں پاکستانی عوام کی بھلائی ہے۔ اللہ تعالی پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments