شکریہ ماں! آخر کار ہمارے جنم دن کا قضیہ حل ہوا


ویسے کاغذوں میں ہماری تاریخ پیدائش 16 جون لکھی گئی ہے جو مڈل سکول تک 15 جون تھی۔ پھر ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ کے کسی کلرک کی غلطی کی وجہ سے وہ 16 جون بن کر ہماری میٹرک کی سند کا حصہ بن گئی جو اب تک ہمارے نام اور شناخت کے ساتھ چپکی ہوئی ہے لیکن پچھلے سال ہی یہ انکشاف ہوا کہ دراصل ہم 31 جولائی کو پیدا ہوئے۔

مجھے اپنی سالگرہ منانے کا کوئی اتنا شوق نہیں رہا اور نہ ہی ہمارے زمانے میں اس کا اتنا رواج تھا۔ بس زندگی میں ایک مرتبہ اپنی سالگرہ دھوم دھڑکے سے منانے کا اہتمام کیا مگر پردیس میں اور وہ بھی اپنی خوشی سے زیادہ دوستوں سے ملاقات کا بہانہ تھا۔

پچھلے سال ہماری امی حضور نے بتا یا کہ ہم نانک شاہی کیلنڈر کے مطابق ساون کی پندرہ تاریخ بروز سوموار پیدا ہوئے۔ میں نے پوچھا انگریزی کا کون سا مہینہ تھا تو وہ ہنس کر بولیں مجھے تو انگریزی مہینوں کے نام بھی نہیں آتے ہاں پنجابی زبان میں سب مہینوں کے نام انہیں اچھی طرح یاد تھے۔

خیر ہم نے اپنی والدہ کی یاداشت کا جائزہ لینے کے لیے جب گوگل سے پوچھا تو جو سال ہماری تاریخ پیدائش کے خانے میں ”لکھا“ یا ”لکھوایا“ گیا، اس کے حساب کے ساون کی پندرہ تاریخ کو سوموار نہیں بدھ کا دن تھا۔

ہم نے پھر امی جان سے رابطہ کیا اور اپنے جنم دن کی مستند تصدیق کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ جو سال ہماری پیدائش کا بتایا جا رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔ پرانے زمانے کے لوگ تاریخ یا دن سے زیادہ واقعات کے لحاظ سے ماہ و سال یاد رکھتے تھے۔ میری ماں نے بتایا کہ تمہاری پیدائش سے چند ماہ قبل تمہارے باپ ایک حادثے میں زخمی ہوئے تھے۔

اب ہمیں اپنے والد صاحب کی تاریخ اور کاغذات کو کھنگالنا پڑا تو پتہ چلا کہ 1971 ء کی جنگ کے بعد وہ سیالکوٹ سیکٹر میں دشمن کے غلط نقشے دینے کی وجہ سے مائننگز کی صفائی کرتے ہوئے زخمی ہو گئے تھے۔ وہ پاکستان آرمی کی انجنیئرنگ کور میں سپاہی تھے اور فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے اور انہیں پاک آرمی کے غازی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

آخر کار تمام ثبوتوں اور گواہوں کی روشنی میں ہماری تاریخ پیدائش کا قضیہ حل ہو گیا۔ ہماری ماں نے ہمارے پیدا ہونے کی جو تاریخ اور دن بتایا وہی مستند ہے۔ بھلا وہ اپنی پہلی اولاد کے پیدا ہونے کی خوشی کا دن کیسے بھول سکتی تھیں۔ لہذا ہمارا درست جنم دن بمطابق شمسی کیلنڈر، 31 جولائی بروز سوموار، بہ حساب نانک شاہی کیلنڈر 15 ساون اور بلحاظ اسلامی مہینہ 20 جمادی الثانی ہے۔

آج ہم 48 سال کے ہو گئے۔ ہمیں اپنی گولڈن جوبلی منانے میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ رب نے ہماری بہت سی دعائیں، خواب اور حسرتیں پوری کیں۔ ہم ابھی بھی اپنے کچھ ادھورے خوابوں کی تکمیل کے لیے کو شاں ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں سے بھر پور زندگی پر کچھ لکھوں مگر ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اگر زندگی نے موقع دیا تو انشاءاللہ ضرور۔

ہماری زندگی کی اس کہانی میں مزے اور دلچسپی کا پہلو یہ رہا کہ کچھ لوگ اور جوتشی ہمیں جوزا سمجھ کر ہماری شخصیت اور کنڈلی کا حساب لگا کر گمراہ ہوتے رہے۔ مجھے کبھی ان باتوں پر یقین نہیں رہا لیکن سوچتا ہوں کہ ہمارے بارے میں ان کے سب اندازے اور پیش گوئیاں غلط تھیں۔

آج زمانہ بدل گیا ہے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے کانوں میں اذان دینے سے بھی پہلے اس کی پہلی سیلفی لی جاتی ہے جس سے بچے کی پیدائش کی تاریخ، دن حتی کہ وقت، گھنٹے اور سیکنڈوں کا حساب بھی رکھا جا سکتا ہے جس سے شاید والدین کا اپنے بچوں کا جنم دن یاد رکھنا آسان ہو گیا ہے اور نجومیوں کو بھی زائچہ بنانے میں آسانی ر ہے۔

آج کے دن دعا ہے کہ ہماری ارض پاک میں بچوں کی پیدائش کا ریکارڈ رکھنے کا درست نظام وضع کیا جائے۔ ورنہ ہم جیسے عام لوگ بس اپنی اصلی شناخت کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے۔ اس میں بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے اور پھر ریاست کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments