داتا کی نگری: لاہور کی مختصر تاریخ


جغرافیہ

داتا کی نگری کا یہ جغرافیہ 1942 ء سے 1956 ء تک مزار داتا گنج بخش کے قرب کے متعلق ہے۔ 1942 ء میں ہمارا خاندان برلب داتا دربار روڈ عثمانیہ محلہ میں کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہوئے۔ داتا کی یہ نگری مشرق میں لوئر مال اور راوی روڈ جنون میں آؤٹ فال روڈ، مغرب میں رتیگن روڈ اور کھیتوں اور شمال میں موہنی روڈ کے حصار میں ہے۔ مزار گنج بخش کو مرکز تصور کرتے ہوئے اس کی ذیلی مسجد کے ملحق مشرق میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ تھا شمال میں ایک ذیلی سڑک ذیلدار روڈ کے پار ہجویری محلہ اور اس محلہ کے نچلے حصہ کے سامنے سڑک کے پار شیش محل پارک محلہ ہے۔

مغرب میں ایک گلی بنام عثمانیہ محلہ اور محلہ بلال گنج ہے اور اس کے ساتھ تا حد دریا راوی کھیت ہی کھیت تھے۔ جنوب مشرق میں میلہ رام ٹیکسٹائل مل تھی۔ جس کے مل تھی۔ جس کے ملحق کربلا گامے شاہ کا میدان برائے مجالس اور مسجد ہے۔ اس کے راستہ کی دیوار کے ساتھ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال اور اس کے ساتھ ہی سنٹرل ٹریننگ کالج (اب یونیورسٹی آف ایجوکیشن ) ہے۔ اس یونیورسٹی کی مغربی دیوار کے ساتھ رٹیگن روڈ ہے۔

اس سڑک پر ذرا ہٹ کر پارسی آتش کدہ اور سیاسی ثقافتی، علمی، ادبی اور دیگر فنون لطیفہ کا مرکز مشہور بریڈ لا ہال ہے۔ عثمانیہ محلہ کے سامنے مشرق میں سڑک پار کھیت تھے جس کی آبیاری کے لیے ایک ریبٹ تھا اور اس کے سامنے ایک پگڈنڈی پر کسی نا معلوم بزرگ کی قبر اور تکیہ تھا جہاں ہمیشہ چرس کی بو آتی تھی۔ ہجویری محلہ کے مغرب، شیش محل پارک، محلہ کے جنوب اور عثمانیہ محلہ کے عقب مشرق میں ایک بہت بڑا کھیل کا میدان تھا ( جواب مشہور موٹر کار کے پرزہ جات کی کباڑی مارکیٹ میں تبدیل ہو چکا ہے ) ان تمام محلہ جات وغیرہ کا ”مزار داتا گنج بخش“ سے فاصلہ نصف فرلانگ سے بھی کم ہے۔ اس چھوٹے سے حدود اربعہ میں مسلمانوں کے علاوہ، ہندو اور سکھ برادری بھی رہائش پذیر تھی۔ اس علاقہ میں سکھ، جین، امن، آتشی، محبت، خلوص رواداری اور انسانیت تھی۔ کبھی کوئی جھگڑا یا فساد نہیں ہوا تھا۔

اس چھوٹی سی بستی میں کئی قد آور، مشہور اور کچھ گمنام شخصیات مقیم رہیں جنہوں نے کئی شعبہ جات میں خاص کر فلمی گلوکاری، اداکاری، ہدایتکاری، موسیقی، تعلیم و تربیت، علم، دین، صحافت، ادب، کھیل، خطاطی وغیرہ میں بہت نام کمایا۔

راقم کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا آغاز بھی اسی علاقہ میں، گردوپیش اور ماحول میں ہوا جواب میرا سرمایہ حیات ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں لاہور سے باہر جا نا پڑا۔ گو اس دوران بھی کئی بار لاہور ہی میں ملازمت رہی۔ اب 1984 ء سے تا حال لاہور میں ملازمت اور 1995 ء میں ریٹائر ہونے کے بعد اپنا قیام ہے۔

دربار داتا گنج بخشؒ

خدائے عالم بلند و برتر کے حبیب، رحمت اللعالمین، ختم المرسلین حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کے نواسے امام عالی مقام حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ اور جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ الزہرؓا خاتون جنت کے بڑے فرزند ارجمند حضرت حسن ؓمجتبیٰ کی لڑی سے ایک اولیا اللہ مرد مومن و کامل، صاحب علم، معلم اور مبلغ سید علی بن عثمان بن علی آل جولابی آل ہجویری کنیت ابوالحسن افغانستان کے شہر غزنی کی ایک بستی ہجویر میں 1009 ء میں پیدا ہوئے اور اپنے مرشد کے حکم پرز 1039 ء میں لاہور تشریف لائے۔

لاہور آنے کا مقصد دین اسلام کی شمع کو مزید روشن کرنا تھا۔ آپ نے ایک اونچے ٹیلے پر قیام فرمایا اور اپنے ذاتی خرچ سے ایک مسجد تعمیر کی اور تبلیغ، درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ آپ کی تبلیغ کا سب سے اہم پہلو آپ کا کردار، اخلاق، محبت، شفقت اور خلوص تھا۔ غور طلب حقیقت یہ تھی کہ آپ فارسی دان تھے جبکہ علاقے کے مکین ہندی بولتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کی روحانی شخصیت کی وجہ سے لاہور اس وقت کے ہندو گورنر ”رے راجو“ نے اپنی رعایا سمیت جلد ہی اسلام قبول کیا۔

اور اپنی بقیہ ساری زندگی آپ کے آستانے پر گزار دی۔ آپ نے اسے ”شیخ ہندی“ کے خطاب سے نوازا۔ آپ کی تبلیغی کا وشوں کے سبب جلد ہی لاہور کے دیگر علاقہ جات، دیگر شہروں پورے صوبہ پنجاب اور رفتہ رفتہ پورے ہندوستان کے عوام دائرہ اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ آپ کا آستانہ پورے برصغیر ہند پاکستان کا سب سے بڑا روحانی مرکز بن گیا۔ آپ صاحب جمال اور کمال تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے مزار پر ایک اور مرد مومن حضرت معین الدین چشتیؒ نے اجمیر شریف جاتے ہوئے 40 دن کا چلہ کاٹا۔ چلا کی تکمیل کے بعد آپ نے صاحب مزار کے متعلق یہ ذومعنی شعر موزوں کیا۔

گنج بخش، فیض عالم، مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را راہنما

حضرت معین الدین چشتیؒ کے علاوہ آپ کے مزار پر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت مجدد الف ثانی نے بھی چلہ کاٹا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ منت مانتے ہیں اور مراد پوری ہونے پر بیش قیمت نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اس نذرانے سے آپ کا روزانہ لنگر جاری رہتا ہے اور لنگر سے ایک بڑی تعداد فیض یاب ہوتی ہے۔ آپ کے مزار کا گنبد بھی مراد پوری ہونے پر نور محمد سادھو نے بنوایا۔ آپ کی بنوائی ہوئی مسجد میں وقتاً فوقتاً توسیع ہوتی رہی۔

مزار اور مسجد کا انتظام اور نظم نسق شیخ ہندی کی اولاد کے ہاتھ تھا جو نذرانے وغیرہ کی دولت آپس میں بانٹ لیتے تھے اور مزار اور مسجد کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ پر بہت کم توجہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مزار اور مسجد کے انصرام و انتظام کو حکومت پنجاب کے محکمہ اوقات نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ مزار کی ملحقہ مسجد کو اور توسیع دی گئی یہاں تک کہ متصل اسلامیہ ہائی سکول کی عمارت کو گرا کر اس کا رقبہ بھی اس کی وسیع گراؤنڈ کو بھی مسجد میں شامل کر دیا ہے۔

اب اس مسجد میں بے یک وقت پچاس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ آپ کے کمال و جمال، محبت و شفقت کی تاثیر اس سے عیاں ہوگی کہ آپ کے مزار پر ہندو اور سکھ بھی حاضری دیتے ہیں اور اپنی مرادوں کی تکمیل کے لیے دعا گو ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تمام طبقات اور سیاسی حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے رہنما آپ کے مزار پر حاضری دینا اپنے ”فرضی منصبی“ سمجھتے ہیں۔ آپ نے اپنی حیات میں تبلیغ دین کے علاوہ گیارہ کتب تصنیف کیں۔

ان کتب کا نام کشف محجوب، دیوان شاعر، کتاب فاوبقا، کاشل اسرار، الریا با حقوق اللہ تعالیٰ، کتاب البیان، ناہل قولاب، منہاج الدین، ایمان فربالفرق وغیرہ وغیرہ۔ اب صرف تصوف کی مایہ ناز تصنیف کشف محجوب اور کاشل اسرار اردو ترجمہ میں دستیاب ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ کہ بندے کے لیے سب چیزوں سے مشکل خداوند تعالیٰ کی پہچان ہے۔ مزید فرمایا کہ دس چیزیں دس کو کھا جاتی ہیں۔

1۔ توبہ گناہ کو 2۔ جھوٹ رزق کو 3۔ غیبت نیک عمل کو 4۔ تکبر علم کو 5۔ غم عمر کو 6۔ صدقہ بلاؤں کو 7۔ غصہ عقل کو۔ 8۔ عدل ظلم کو 9۔ نیکی بدی اور 10۔ پشیمانی سخاوت کو

آپ نے 1072 ء میں لاہور شہر کو ایک نئی شناخت دے کر (داتا کی نگری ) لاہور میں ہی وفات پائی۔ آپ کا عرس ہر سال 18۔ 20 صفر کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ ان تین دنوں میں پاکستان کے ہر کونے سے لاکھوں کی تعداد میں عوام الناس اور خاص کر آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ عرس کے تینوں دن لاہور کے گوالے دودھ ”خالص دودھ“ کی سبیل لگاتے ہیں۔ آپ کی عظمت اور تقدس پر ہی شاید ایک صوفی شاعر اور بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو نے یوں فرمایا ہو گا:

ظاہر باطن عین عیانی ہو ہو پیا سنیوے ہو
نا فقیر تنہاں داباھو، قبر جنہا دی جیوے ہو

(سلطان باھو)

گوش ظاہرو باطن ہو کی صدا سے نغمہ زار ملے
فقیر کا جسد خاکی باہو زندہ و بیدار ملے

(ترجمہ: مسعود قریشی )

سید احسان کاظمی
اس سیریز کے دیگر حصےلاہور کی مختصر تاریخلاہور کی مختصر تاریخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید احسان کاظمی

سید احسان کاظمی سنہ 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں ہی تعلیم پائی۔ ان کی خاص دلچسپی تاریخ و ادب میں ہے۔ انہوں نے تقسیم سے پہلے اور بعد میں لاہور کو جس طرح بنتے بگڑتے دیکھا، اور یہاں کے ادیبوں اور مشاہیر سے جو تعلق رہا، اسے انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔

syed-ahsan-kazmi has 5 posts and counting.See all posts by syed-ahsan-kazmi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments