گھریلو تشدد بل 2021 اور اسلامی نظریاتی کونسل



عورت تعلیم کا حق، پارلیمان میں متناسب نمائندگی کا حق، عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کا حق، معاشی خودمختاری کا حق اور قانون، عدالت اور معاشرے میں برابری سے سر اٹھا کر چلنے کا حق مانگتی ہے۔ ثناء خوان تقدیس مشرق کے تخیل کی پرواز ملاحظہ ہو کہ پہلا خیال اس جانب جاتا ہے کہ شاید عورت اپنے بدن پر لباس سے تنگ ہے۔ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دینے کا یہ اچھا طریقہ ہے کہ نا انصافی پر تقدیس کا چونا چڑھا دیا جائے۔ آپ صرف اتنی گزارش کریں کہ سڑک سب کی ہے، لہذا پیدل چلتی عورت پر آوازے کسنا اور گاڑی چلاتی عورت کو گھورنا ایک گھٹیا حرکت ہے۔ جواب یہ آتا ہے اتنی آزادی چاہیے تو ساری عورتیں یورپ اور امریکہ کیوں نہیں چلی جاتیں؟ اس جواب میں چھپی نفرت تو ایک طرف، یہ بھلا آپ نے کیسے فیصلہ کر لیا کہ یہ ملک آپ کی ذاتی ملکیت ہے جہاں سے آپ ناپسندیدہ جنس کو بے دخلی کا پروانہ تھما سکتے ہیں؟

جون 2021 ء میں بنیادی انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی نے گھریلو تشدد (بچاؤ اور حفاظتی اقدام) بل 2021 ء تجویز کر کے، اور اس کو بحث کے لئے پارلیمان میں پیش کر کے ایک قابل ستائش اخلاقی جراٴت کا مظاہرہ کیا۔ یہ تاریخ رقم کرنے پر شیریں مزاری صاحبہ کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے، وہ کم ہو گا۔ اسے ہماری بدقسمتی کہہ لیجیے کہ یہ قانون اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ابھی تک منظور نہیں ہوسکا۔ خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک بہترین بل کو اپنے ووٹ بنک کی خوشنودی کی خاطر بلاوجہ متنازعہ کر دیا ہے۔ کچھ صحافیوں نے بھی عوام کو شعور دینے کے کٹھن راستے پر عوامی امنگوں کے سنگ بہنے کے آسان راستے کو ترجیح دی۔ اخلاقی پوزیشن لے کر اکثریت کی مخالفت برداشت کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں ہوتا۔

گھریلو تشدد بل 2021 ء خواتین، بچوں اور کمزور افراد کو گھریلو تشدد سے بچانے اور ان کی حفاظت کے مقصد سے بننے والا قومی سطح پر پہلا قانون ہوتا، مگر یہ حکومت کی اخلاقی کمزوری کے باعث قانونی حیثیت اختیار نہ کر سکا۔ اس بل میں پہلی مرتبہ تشدد کی قانونی طور پر تعریف کی گئی تھی۔ اس تعریف کے مطابق نازیبا الفاظ کا استعمال، مار پیٹ، جذباتی ایذا رسانی، ہراساں کرنا، آوازے کسنا، چہرے پر تیزاب پھینکنا، عزت نفس کو مجروح کرنا وغیرہ تشدد شمار کیے جاتے۔

گھریلو تشدد بل 2021 ء کا مقصد ان خواتین، بچوں اور کمزور افراد کو تشدد سے بچانا اور ان کے لیے محفوظ رہائشگاہ کا بندوبست کرنا تھا جو گھریلو تشدد کا شکار ہوں اور اپنا دفاع نہ کر سکتے ہوں۔ اسی طرح تشدد کرنے والوں کو سزا دلوانا اور ان جرائم کو قابل دست دراندازیٴ پولیس بنانا بھی اس کے مقاصد میں شامل تھے۔ لہذا کسی بھی قسم کا زبانی، جسمانی، جذباتی اور جنسی تشدد جو صدمے، تکلیف، اور خوف کا باعث ہو، وہ اس قانون کی رو سے جرم تصور ہوتا۔ عدالت کو اختیار حاصل ہوتا کہ وہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تشدد کرنے والے پر چھے مہینے سے لے کر تین سال تک کی قید اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کر سکتی۔ اس بل کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ عدالت متاثرہ خواتین و حضرات کوایک باحفاظت پناہ گاہ کا انتظام کر کے دیتی۔ ایک تکنیکی شق یہ بھی تھی کہ تشدد کرنے والے کو باقاعدہ ٹریک کیا جاتا، اس کے ہاتھ یا پاؤں میں ایک جی پی ایس ٹریکر بریسلیٹ کی صورت میں لگا دیا جاتا جو اس کی نگرانی کرتا تاکہ وہ دوبارہ متاثرہ شخص کے قریب نہ جا سکے۔

مجوزہ بل میں بظاہر کوئی ایسی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آتی جس سے کسی کا نقصان ہوتا یا کسی آئینی شق یا مذہبی حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ گھریلو تشدد بل 2021 ء دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) سے واضح منظوری کے باوجود معاشرے کی مجموعی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ بل کو نظر ثانی کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا گیا ہے اور وزیراعظم صاحب نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری تک قانون سازی کا کام معطل رہے گا۔ یاد رہے کہ یہ وہی اسلامی نظریاتی کونسل ہے جس نے 2016 ء میں خاوند کی طرف سے بیوی پر ہلکا تشدد جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہ تشدد کے نتیجے میں پڑنے والے نیلے، کالے اور سرخ نشانوں پر ایک تفصیلی بحث کے بعد تشدد کی مجوزہ حدود تک کا تعین کر دیا تھا۔ اکیسویں صدی میں اگر بحث کا معیار یہ ہے کہ تشدد کو بغیر حجت مسترد بھی نہ کیا جا سکے تو بلاشبہ یہ بات پریشان کن ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل دستور پاکستان 1973 ء کے آرٹیکل 228 سے 230 کے تحت قیام میں لائی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا مقصد قانون ساز اسمبلیوں کے بنائے گئے قوانین کا اسلام کے احکامات کی روشنی میں تجزیہ کرنا ہے کہ وہ قوانین قرآن و سنت کے منافی نہ ہوں۔ اس کونسل کے ممبران اپنے علم کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور کسی بھی منظور شدہ بل کو اسلامی قوانین کے مطابق نہ پانے کی صورت میں مسترد کر سکتے ہیں۔ اگر طاقت کا سرچشمہ واقعی عوام ہیں تو پارلیمان کے قانون سازی کے استحقاق کو یوں ایک غیر منتخب ادارے کے پاس گروی رکھوا دینا تو آئین پاکستان کی روح کے بھی منافی ہے۔

گھریلو تشدد بل 2021 ء بالخصوص ان خواتین کے حق میں بلند ہونے والی پہلی آواز تھی جو گھروں میں اپنے خاوندوں کے ہاتھوں روز پٹتی ہیں، جن کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، جن کو مار پیٹ کر معذور کر دیا جاتا ہے، جن پر غیرت کے نام پہ کلہاڑیوں کے وار کیے جاتے ہیں۔ ان خواتین کی آج تک کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی کیونکہ ان مسائل کو لوگوں کا ذاتی معاملہ شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح یہ بل ان بچوں کے لئے بھی امید کی ایک کرن تھی جو والدین، اساتذہ اور مولوی صاحبان کے عتاب کا شکار ہو کر کبھی نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔ شدید مار پیٹ کی وجہ سے یہ بچے خوف، عدم اعتماد، زبان میں لکنت، یاداشت میں کمی اور ایسی کئی دیگر نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

عابدہ خالق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عابدہ خالق

عابدہ خالق پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور قانون دان ہیں۔ آپ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور قانونی تحفظ کے لئے ایک توانا آواز ہیں۔ مختلف لاء کالجز میں تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ ایک ترقی پسند اور منصفانہ معاشرہ کا خواب رکھتی ہیں۔

abida-khaliq has 7 posts and counting.See all posts by abida-khaliq

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments