ممتاز بھٹو مرحوم اور لسانی بل: حقائق کیا ہیں؟


سندھ کے ممتاز راہنما ممتاز بھٹو کی وفات پر پاکستان اور بین الاقوامی میڈیا میں خبریں شائع ہوئیں جن میں سے بعض میں بیان کردہ پس منظر میں شامل مفروضے جو قومی اہمیت کے حامل مصنوعات سے متعلق ہیں حقائق سے متصادم تھے۔ چنانچہ ریکارڈ کی درستی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں رد کرتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔ ان مین سے ایک غیر حقیقی منظر کشی اردو کے ایک بین الاقوامی نیوز بلیٹن کی ویب سائٹ پر ان الفاظ میں کی گئی کہ ”ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جب وہ (ممتاز بھٹو) سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ سندھ یک لسانی نہیں بلکہ دو لسانی صوبہ ہے، سندھی زبان کے سرکاری زبان بنائے جانے کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروا دیا۔ اس بل کی منظوری سے سندھ کی اردو بولنے والی آبادی یعنی شہری سندھ میں بے چینی پیدا ہو گئی جو پر تشدد فسادات پر منتج ہوئی ان فسادات میں بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصانات ہوئے جب کہ اندرون سندھ کے شہروں اور قصبوں میں آباد اردو بولنے والوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس طرح سندھ میں مستقل طور پر لسانی کشیدگی پیدا ہو گئی جس کا نکتہ عروج اسی اور نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے قیام اور اس کے عروج کی صورت میں سامنے آیا“
سندھ کے یک لسانی یا دو لسانی صوبہ ہونے کے بارے یہ بتانا کافی ہوگا کہ قائد اعظم محمدعلی جناح نے 24 مارچ 1948 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جہاں اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا وہاں یہ بھی کہا تھا صوبے اپنی سطح پر اپنی زبان کو جیسے جی چاہے استعمال کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کے اس ارشاد سے فائدہ اٹھانے ہوئے بنگالیوں نے مشرقی پاکستان میں بنگالی کو صوبائی زبان کے طور پر اختیار کر لیا تھا جو ان کا ذریعہ تعلیم بھی بنی جبکہ بنگالی کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کرنے کا مسئلہ 1956 کے ائیں میں حل کر لیا گیا تھا۔ سندھ البتہ گوناگوں کی وجوہات کی بنا پر اس حق سے محروم رہا جن میں 1954 کے ون یونٹ سے لے کر 1958 کے مارشل لا تک کئی عوامل شامل تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور دارالحکومت کراچی وفاقی علاقہ تھا جہان قومی زبان کی حیثیت سے اردو رائج تھی لیکن کراچی کے سوا دیگر علاقے جو صوبہ سندھ کے تصرف میں تھے سندھی کو صوبائی زبان کے طور پر اپنانے کا پورا حق رکھتے تھے۔ کراچی کی وفاقی حیثیت بھی بہرحال 1959 میں ختم ہو گئی۔ جہاں تک سندھ میں سندھی زبان کا تعلق ہے یہ اس علاقے میں رائج برصغیر کی قدیم ترین اسلامی زبانوں میں سے ایک ہے۔


سندھ میں اردو کا بڑے پیمانے پر تعارف قیام پاکستان کے بعد اس وقت ہوا جب یوپی سے اردویوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کر کے سندھ کے شہروں میں آباد ہونا شروع ہوئی اور اس نے ان آٹھ لاکھ سندھی ہندووں کی جگہ لے لی جو شہروں میں آباد تھے لیکن فسادات کے خوف سے ہندوستان چلے گئے تھے۔ ہندوستان سے انے والے اردویوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ تھی جن کی سندھ کے شہروں میں آمد نے ان شہروں میں قیام پذیر مسلم سندھی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ سندھی مسلمانوں کی بڑی تعداد دیہات میں مقیم تھی جہاں زیادہ تر دلت ہندو زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے تھے اس لئے نہ تو وہ ہندوستان گئے اور نہ ان کی جگہ ہندوستان سے آنے والوں نے لی۔ اس طرح دیہی علاقوں میں سندھیوں کی اکثریت برقرار رہی۔ شہروں میں اردویوں کی یکایک اکثریت کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھی میڈیم اسکول بند ہونا شروع ہو گئے جو کراچی میں تو بالکل ختم ہو گئے، حیدرآباد میں آدھے رہ گئے جبکہ باقی شہروں میں سندھی آبادی کی تعداد کے تناسب سے ان کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ اردوی اکثریت کا اثر کاروبار پر بھی پڑا اور نہ صرف بازاروں میں سندھی کی جگہ اردو نے لے لی بلکہ اخبارات و رسائل وغیرہ بھی اردو میں شائع ہونے لگے۔

یہ صورت حال سندھیوں کے لئے انتہائی پریشان کن تھی جن کے لئے سندھی ذریعہ تعلیم روزگار کا ذریعہ بھی تھا اور صوبائی سطح پر ملازمتیں بھی مل جایا کرتی تھیں جہاں مختلف سرکاری محکموں میں سندھی زبان رائج تھی جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ سندھ میں پٹوار سینکڑوں سال سے سندھی میں لکھی جاتی ہے۔ سندھیوں نے تقسیم سے قبل بھی اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر قبول کرنے کی تجویز جو برطانوی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے دیگر اکثریتی علاقوں کی طرح سندھ کو بھی پیش کی گئی تھی اس لئے مسترد کردی تھی کہ اس سے ہندو آبادی کو فائدہ پہنچنے کا امکان تھا جو ان پر حاوی تھی۔ یہ تجویز پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے تو قبول کرلی تھی لیکن سندھی مسلمانوں نے جو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی کے تحت تھے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ہندووں کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لئے بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی کا مطالبہ بھی کیا ہوا تھا جو قائد اعظم کے مشہور زمانہ چودہ نکات میں شامل تھا۔ یہ مطالبہ منظور ہو جانے پر تقسیم سے قبل سندھیوں نے سندھ یونیورسٹی کے قیام سمیت سندھی زبان کی نشوونما کے زبردست منصوبے تیار کئے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد حالات اتنی تیزی سے غیر متوقع طور پر تبدیل ہوئے کہ سندھ میں یکایک اردو کے غیر متوقع غلبے کے باعث سندھی زبان کی نشو و نما تو کیا اس کا تحفظ بھی مشکل ہو گیا۔


یہ تھا وہ تناظر جس میں قیام پاکستان کے پچیس سال بعد ممتاز بھٹو نے صوبائی زبان کے طور پر سندھی زبان کی اہمیت کے پیش نظر اسکولوں میں سندھی کو لازمی مضمون قرار دینے کا بل پیش کیا تھا۔ صوبائی زبانوں کو قائد اعظم کی طرف سے دیے گئے حق کی روشنی میں سندھی کو تمام اسکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار کیا جا سکتا تھا جبکہ ممتاز بھٹو کی طرف سے بطور وزیراعلی اسے صرف لازمی زبان قرار دینے کے لئے پہل کی گئی تھی چنانچہ اس پر یہ کہنا جیسا کہ مذکورہ اشاعت میں کہا گیا ہے کہ ”ممتاز علی بھٹو اس زمانے میں اگرچہ پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر اور قومی جماعت کا حصہ تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی لسانی یا نسلی امتیاز پر مبنی سوچ کے اظہار سے کبھی نہ چوکے“ ؟ انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ لسانی اور نسلی امتیاز برتنے کی یہ فرد جرم ممتاز بھٹو پر عائد ہو نہ ہو اردویوں پر تو بہرحال ممتاز محقق پروفیسر طارق رحمن جن کا تعلق بریلی سے ہے اپنے تحقیقی مقالے میں ایک عرصہ ہوا عائد کرچکے ہیں۔ بقول ان کے اردوی ہندوستان کے شہروں سے ائے تھے اور سندھیوں کو جن کی اکثریت دیہات میں مقیم تھی لاشعوری طور پر اسی طرح کم تر سمجھتے تھے تھے جس طرح دنیا بھر میں شہر کے لوگ گاؤں دیہات والوں کو اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ ان کی تحقیقی مقالے تک رسائی کا لنک درج ہے۔

//www۔ researchgate۔ net/publication/ 237650672۔ Language۔ Politics۔ and۔ Power۔ in۔ Pakistan۔ The۔ Case۔ of۔ Sindh۔ and۔ Sindhi.tps

سندھی زبان کا بل کا پیش کیے جانے پر ہنگامے کیوں ہوئے اور کس نے کرائے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس زمانے میں کراچی کی سیاست پر مذہبی عناصر کا اثر و رسوخ تھا جنہوں نے تحریک پاکستان کی آخری دم تک مخالفت کی تھی اور بعد میں فوجی ڈکٹیٹر ضیا الحق کو برسر اقتدار میں لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور جس نے اپنے ڈولتے ہوئے اقتدار کو بچانے کے لئے ایم کیو ایم کو راتوں رات پیدا کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئین پاکستان سے متصادم لسانی تفریق کی بنا پر قائم ہونے والی یہ جماعت ضیا الحق کے زمانے میں ان دو جلسوں کے درمیان وجود میں آئی تھی جن میں سے پہلا جلسہ پیپلز پارٹی کی راہنما محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپریل 1986 میں لاہور میں کیا تھا اور دوسرا ستمبر 1986 میں انہیں کراچی میں کرنا تھا۔ لاہور میں اپریل 1986 کا جلسہ اتنا زبردست تھا کہ اس نے ضیالحق کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور کراچی میں ستمبر کے جلسے کے بعد ضیا حکومت کا زمیں بوس ہونا یقینی دکھائی دے رہا تھا۔ چنانچہ مشہورزمانہ خفیہ ہاتھ کو پوری مستعدی سے سرگرم عمل کیا گیا اور کراچی میں بے نظیر کے جلسے سے ایک مہینہ پہلے اگست 1986 میں نشتر پارک میں ایک جلسہ عام میں ایم کیو ایم نے اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا۔ منشور سے پہلے وجود میں انے والی یہ منفرد سیاسی جماعت تھی جو اس سے قبل ال پاکستان مہاجر اسٹوڈننٹس ارگنائزیشن (اے پی اسی ایم او) کے نام سے کراچی یونیورسٹی کے اردوی نوجوانوں کی تنظیم کے طور پر جانی جاتی تھی جنہیں کوٹہ سسٹم کے باعث نوکریوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا تھا۔


اس کے علاوہ شناخت کا بھی مسئلہ تھا جو اس لئے پیدا ہوا کہ کراچی جیسے کوسمپولیٹن شہر کی یونیورسٹی میں زبان کی بنیاد پر پنجابی، پٹھان سندھی اور بلوچی طلبہ کی تنظیمیں قائم تھیں جن کے سبب اردوی نوجوانوں کی جو خود کو صرف پاکستانی سمجھتے تھے یہ بات سمجھ میں نہیں اتی تھی کہ وہ خود کو کس تہذیب میں شمار کریں۔ ؟ وہ اردوی ابادی کے سندھ میں اتفاقا کثیر اجتماع اور اردوی زبان و تہذیب کے خود کو سندھی زبان و تہذیب سے برتر تسلیم نہ کروا پانے کے باعث سندھیوں میں ضم نہیں ہو سکے تھے اور نہ ہی ملک میں علاقائی سوچ سے بالا تر وہ فضا پیدا ہو سکی تھی جس کا نقشہ کھینچتے ہوئے قائد اعظم کہا تھا کہ ہم میں اب کوئی بنگالی ہے نہ پنچابی نہ سندھی نہ پٹھان نہ بلوچی۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ قائد اعظم کے ارشادات کے مطابق اگر ملک وقوم کے معاملات جمہوری طریقے سے چلتے رہتے اور نہ تو فوجی حکومت اتی اور نہ ہی دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا جاتا تو ممکن ہے بھائی چارے کا قومی ماحول پیدا ہو جا تا اور نہ تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا اور نہ ہی اردوی خود کو دوسروں سے مختلف خیال کرتے۔ لیکن جو ہوا سو ہوا اور پھر ہوتا ہی چلا گیا۔ چنانچہ فوجی آمریت کے خلاف 1986 میں عوامی تحریک نے جب زور پکڑا تو اسے ناکام بنانے کے لئے فوجی حکومت نے کراچی کے ناراض نوجوانوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انہیں پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا کر دیا جسے پنجاب اور دیگر صوبوں کے علاوہ سندھی اکثریت کی بھی زبردست حمایت حاصل تھی۔ اس طرح ضیا الحق کی حکومت نے لڑاو اور حکومت کرو کی ایسٹ انڈیا کمپنی والی پالیسی اپنا کر اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی تو نصیب ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں لسانی تعصب کی بنیادیں بھی رکھ دی گئیں جن پر سرکاری سرپرستی میں تعمیر ہونے والے عمارت بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں ایم کیو ایم کی بنیاد کا تعلق ممتاز بھٹو کے لسانی بل سے جوڑنا اگر نادانی نہیں تو سوائے انکھوں میں دھول جھونکنے کے اور کیا ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments