زرد صحافت


صحافت کسی بھی مہذب معاشرے کا ایک اہم ستون ہوتا ہے، صحافی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی جذباتی، سیاسی یا مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف سچ لکھے اور حقائق اپنے پڑھنے والوں کو پیش کردے

پاکستان کی صحافت اس کے بالکل الٹ چلتی ہے، یہاں صحافی مذہب سے وابستہ ہوں تو دوسرے مذہب والے کو نجانے کون کون سے فتوے جاری کر دیتے ہیں

اگر صحافی کسی سیاسی جماعت کے ساتھ دلی یا جذباتی وابستگی رکھتے ہوں تو ان کو سوائے اپنی پسندیدہ جماعت کے باقی تمام سیاسی جماعتیں چور، ڈاکو، بے ایمان اور غدار نظر آتی ہیں

اور تو اور یہاں تو بعض صحافی پر اداروں، شخصیات اور سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ تنخواہ دار ملازمین ہوتے ہیں جن کا صرف ایک ہی کام ہوتا ہے کہ اپنے مالکان کی صرف خوبیاں بیان کرنا ہے باقی وہ چاہے سیاہ کریں یا سفید لیکن ان صحافیوں کا کام ہوتا ہے کہ اپنے مالکان کے ہر کالے کرتوت پہ پردہ ڈالیں اور عوام کو بہکانے کی بھرپور مہم چلائیں

اب اگر آ جائیں میڈیا ہاؤسز کے کردار کی جانب تو وہ بھی خیر سے چار ہاتھ آگے ہی نظر آتے ہیں، اپنی ریٹنگ کے چکر میں اصل خبر کا اس قدر ستیاناس مار کر پیش کرتے ہیں کہ اس خبر میں سوائے گمراہی کے کچھ نہیں ہوتا، اپنی ریٹنگ کے لئے خبر کی شکل کو اس قدر مسخ کر دیتے ہیں کہ اصل پہلو قاری کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے

فرضی خبروں کا رجحان بھی آج کل صحافت کا اہم حصہ بن چکا ہے، کوئی واقعہ چاہے ہوا ہو یا نا ہو لیکن صحافی صاحب اس کے ہونے کی خبر اس شدت اور سنسنی سے پہنچائیں گے کہ بعض اوقات تو یقین کر لینے کو دل چاہتا ہے اور آج کل تو چونکہ دور ہے سوشل میڈیا کا، جہاں نا کوئی ایڈیٹر ہے، نا ادارے کی اجازت کی ضرورت ہے اور نا ہی اشاعت کا انتظار کرنے کی ضرورت۔

بس کہیں سے اڑتی ہوئی کوئی افواہ پکڑی اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹ کردی، یوں وہ پھیلتے پھیلتے ایک خبر کی شکل اختیار کر جاتی ہے، ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں دیکھنے میں آیا کہ ایک نام نہاد صحافی حضرت جن کو ٹویٹر نے حال ہی میں تصدیقی نشان عنایت کیا ہے انہوں نے ایک سیاسی خاندان کی انتہائی اندرونی خبروں سے اس وثوق سے اپنی ٹویٹس کا پیٹ بھرا کہ مختلف ٹی وی چینلز اور پبلشنگ اداروں نے ان ٹویٹس کو اپنے مین پروگرامز کا حصہ بنا ڈالا، حالانکہ جو بات ان صحافی حضرت نے سوشل میڈیا کی نذر کی وہ بظاہر خاندان کے چار لوگوں کے بیچ ہونے والی گفتگو سے متعلق تھی، لیکن ہمارے صحافی بھائی نے نے جس طرح الفاظ کا سہارا لے کر اس ملاقات کی روداد لفظ بہ لفظ بیاں فرمائی اس سے تو یہ گمان گزرا کہ وہ صحافی بھائی غالباً سلیمانی ٹوپی پہن اس اندرونی میٹنگ میں شامل حال رہے۔

آفرین ہے ایسے لکھنے والوں پر اور اس کو پھیلانے والوں پر۔

شرفا کی پگڑیاں اچھالنی ہوں یا پھر کسی بدکردار کو پاکباز ثابت کرنا ہو، آپ با آسانی کسی صحافی کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں صحافی بننے کے لیے صحافت پڑھنا ہرگز ضروری نہیں ہے، بس آپ کے اندر چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہے

اگر آپ بہت ڈھٹائی سے جھوٹ بول لیتے ہیں، اگر آپ کے اندر چمچہ گیری کی صلاحیت پائی جاتی ہیں اور اگر آپ منافقت کر سکتے ہیں تو مبارک ہو آپ بنے بنائے صحافی ہیں

اپنی صحافتی زندگی کے پہلے دن سائیکل سے بھی محروم صحافی اپنی چرب زبانی، چمچہ گیری، منافقت اور جھوٹ بازاری کی بدولت چند ہی مہینوں یا سالوں میں ٹویوٹا پراڈو، لینڈ کروزر، بنگلوں اور یہاں تک کہ پرائیؤیٹ جیٹ کا بھی مالک بن جاتا ہے

مشتاق احمد یوسفی صاحب نے لکھا تھا کہ پرانے زمانے میں کسے کو بدنام کروانا ہوتا تھا تو اس کے نام کی پرچی کسی طوائف کو پکڑوا دیتے تھے، پھر کیا تھا گلی کوچوں میں اس کی بدنامی کے چرچے ہونے لگتے۔ لیکن جب سے مادر پدر آزاد میڈیا آیا ہے تو طوائفوں والا کام نام نہاد صحافیوں سے لیا جاتا ہے۔ ایک عدد لفافہ پکڑائیں اور اس کے بعد ٹانگیں پھیلا کر صوفہ پہ نیم دراز ہو کر دیکھیں کہ کیسے پرائم ٹائم میں جھوٹے مواد پر مبنی فائلوں کے انبار کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اچھے اچھوں کو راتوں رات ولن بنا دیتے ہیں اور چوروں، ڈاکووں اور نشیؤں کو صادق اور امین بنا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments