خیبرپختونخوا: انسدادِ پولیو ٹیمز کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہل کار قتل، ایک زخمی


پشاور — خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں انسدادِ پولیو مہم میں محکمہ صحت کے اہل کاروں اور رضا کاروں کی حفاظت پر مامور ایک اور پولیس اہل کار کو نامعلوم افراد نے پیر کی صبح گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے مطابق یہ واقعہ پیر کی صبح کلاچی تحصیل میں اس وقت پیش آیا جب ہیڈ کانسٹیبل دلاور خان موٹر سائیکل پر انسدادِ پولیو مہم میں شامل رضا کاروں کے ساتھ ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔

کلاچی پولیس تھانے کے سربراہ خانزادہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ سے پولیس ہیڈ کانسٹیبل موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ابتدائی طور پر دو مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں فی الوقت انسدادِ پولیو مہم روک دی گئی ہے۔

ایک روز قبل پشاور میں انسدادِ پولیو ٹیم کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور آصف نامی اہل کار نواحی علاقے داؤدزئی کے گاؤں شعالی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔

اتوار ہی کو قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا میں انسدادِ پولیو مہم میں شامل محکمہ صحت کے اہل کاروں اور رضا کاروں کی حفاظت پر مامور پولیس اہل کاروں کو لے جانے والی گاڑی کو نا معلوم عسکریت پسندوں نے دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا تھا۔

بم دھماکے سے گاڑی کو نقصان پہنچا جب کہ اس میں سوار اہل کاروں میں سے ایک زخمی ہو گیا تھا۔

خیبر پختونخوا میں انسدادِ پولیو کے ہنگامی دفتر کے سربراہ عبدالباسط خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے بھر کے 18 اضلاع کے 95 فی صد علاقوں میں انسداد پولیو مہم جاری ہے۔

اُن کے بقول بعض علاقوں میں سیکیورٹی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر یہ مہم معطل کر دی گئی ہے۔ اُنہوں نے دیگر علاقوں میں انسدادِ پولیو مہم پر تسلی کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ جمعے کو صوبے کے 18 اضلاع میں پولیو ویکسی نیشن مہم شروع ہوئی تھی جس کے دوران 37 لاکھ سے زیادہ پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔

عبدالباسط خان سیکیورٹی خدشات کے علاوہ والدین کی جانب سے قطرے نہ پلوانے کو بھی پولیو کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب کے 11 اور بلوچستان کے اضلاع میں بھی پیر سے انسدادِ پولیو مہم شروع ہو گئی ہے۔

خیبر پختونخوا میں گزشتہ دو دہائیوں سے انسدادِ پولیو مہم میں حصہ لینے والے محکمۂ صحت کے اہل کاروں، رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں پر ہلاکت خیز حملے تواتر سے ہوتےآرہے ہیں۔ ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملے صوابی میں ہوئے ہیں۔

نو جون کو صوابی ہی میں انسدادِ پولیو مہم میں شامل دو اہل کار جب کہ تین جنوری 2020 کو صوابی ہی میں دو خواتین اہل کار نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments