کیا آپ اپنی بکری کو اس بات کی اجازت دیں گے؟
معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی جا رہی ہے۔ جنسی جرائم میں جس شدت سے اضافہ ہوا ہے اس پر سب حیران ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہمیں اپنی معاشرتی اقدار کا پاس ہی نہیں رہا۔ اب یہی دیکھیں کہ اوکاڑہ میں چند افراد نے ایک بکری کا گینگ ریپ کیا اور پھر اسے قتل کر دیا؟ اب لبرل تو یہ کہیں گے کہ اس کی ذمہ داری مجرموں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود بتائیں کہ کیا بکری اس معاملے میں بے قصور تھی؟
بکری کے مالک نے پرچہ درج کروایا ہے کہ اس کی بکری گھر کے سامنے بندھی تھی کہ دن گیارہ بجے کے قریب پانچ افراد اسے کھول کر ایک خالی احاطے میں لے گئے اور اسے گینگ ریپ کرنے کے علاوہ اس پر اس حد تک جسمانی تشدد کیا کہ وہ مر گئی۔ اب یہاں چند نکات اہم ہیں۔
پہلا یہ کہ بکری کے مالک نے بکری گھر کے سامنے کیوں باندھی تھی۔ حالانکہ اسے علم بھی تھا کہ آج کل حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس پر غضب یہ کہ اس نے بکری کو کپڑے بھی نہیں پہنائے تھے۔ اب اس پر اوباشوں کی نیت خراب نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ یوں دعوت گناہ دی جائے تو شیطان بہکا ہی دیتا ہے، آخر وہ پانچوں مرد تھے روبوٹ تو نہیں تھے۔
دوسری بات یہ کہ بکری چپ چاپ ان کے ساتھ کیوں چلی گئی۔ اس نے مزاحمت کیوں نہیں کی۔ شور کیوں نہیں مچایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا اس کی رضامندی سے ہوا تھا اور وہ برابر کی قصوروار ہے۔ اسے خود مشرقی روایات کا پاس کرنا چاہیے تھا۔ ایسے ہی کیوں منہ اٹھا کر نامحرموں کے ساتھ چلی گئی۔ بعد میں انہوں نے اس کا منہ باندھ دیا تو پھر شور مچانے کی آپشن ہی ختم ہو گئی تھی۔
اب آپ خود بتائیں کہ قصور ان پانچ افراد کا ہے یا بکری اور اس کے مالک کا؟ کیا آپ اپنی بکری کو اجازت دیں گے کہ وہ جب جی چاہے یوں اکیلی گھر سے باہر چلی جائے؟ وہ بھی مناسب کپڑے پہنے بغیر؟ یہ سب مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی گمراہی ہے جس کے سبب بکریاں اور مرغیاں یوں بے حیا ہو کر سرعام عریاں پھرتی ہیں۔ اور پھر جب ان کے ساتھ کچھ برا ہو جاتا ہے تو لبرل شور مچا دیتے ہیں اور ہمارے ملک کو بدنام کرتے ہیں۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی وجہ یہی ہے کہ جانور یوں کھلے عام سڑکوں گلیوں محلوں میدانوں میں دعوت گناہ دیتے پھرتے ہیں۔ اور وہ بھی ننگ دھڑنگ۔ کپڑے کی ایک دھجی تک نہیں ہوتی ان کے جسموں پر۔ ایسے میں جنسی جرائم میں اضافہ نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا؟ انہیں اس حالت میں دیکھ کر بعض لوگ اس حد تک فرسٹریٹ ہوں گے کہ بچوں، بچیوں اور عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کرنے پر اتر آئیں گے۔ آخر وہ روبوٹ تو نہیں ہیں نا؟
دیکھیں بکری آپ کی ملکیت ہے تو اسے آپ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ نہ وہ سکول جا سکتی ہے نہ کالج۔ اس کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ اسے کھلی چھوٹ دے دیں، وہ طرح طرح کے فیشن کرنے لگے، اونچی آواز میں بول کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے، تو پھر اس کی سلامتی کو خطرہ ہو گا ہی نا۔ وہ عزت بھی لٹوائے گی اور قتل بھی ہو گی۔ ذمہ دار وہی ہے وہ پانچ افراد تو نہیں جو مجرم قرار پا رہے ہیں۔ وہ بچارے تو عام سے انسان ہیں جنہیں ایک کمزور بکری دکھائی دے تو انہیں شیطان بہکا دیتا ہے۔
اگر کوئی بکری اکیلی کسی جگہ سے گزر رہی ہو اور کوئی درندہ اسے نشانہ بنا دے تو غلطی درندے کی ہو گی یا بکری کی؟ بکری کو اور اس کے مالک کو علم ہونا چاہیے کہ یہاں جنگل کا قانون چلتا ہے، انسانی نہیں جہاں قانون نافذ کرنے والے اس بات کو یقینی بنانے کے قائم کیے گئے ہیں کہ کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کرے اور اگر ایسا کرے تو غلطی اس کی مانی جائے گی اور وہ جرم کی سزا پائے گا۔
اچھا اب بات کرتے ہیں نور مقدم اور قرت العین بلوچ کے قتل کی۔ کیا کہا وہ بکریاں نہیں انسان تھیں؟ دیکھیں ہر کام کرنے کے لیے جیسے ہماری ملکیتی بکری کو ہماری اجازت درکار ہے، ویسے ہی ہمارے معاشرے میں عورتوں کا مقام ہے۔ کیا آپ کے مغرب زدہ فلسفے سے بہک کر ہم عورتوں کو بھی انسان تسلیم کر لیں؟ دیکھیں مجرموں نے نور مقدم اور قرت العین بلوچ کو قتل ضرور کیا لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا ہم اوکاڑے کی بکری کی بات کر رہے تھے۔ ساری غلطی اس بکری کی تھی مجرم تو معصوم و مجبور تھے۔ ان کی بات مت کریں، آئیں بکری اور اس کے مالک پر لعن طعن کرتے ہیں۔
اشاعت اول:Aug 2, 2021
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
- پاکستان کے برادران یوسف ہمسائے - 18/01/2024
- ہائے اللہ، سیاسی مداخلت کا یہ سائیکل کب تک چلے گا؟ - 16/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).