کشمیر کا الیکشن: کچھ حقائق اور تجزیے


پاکستان کے زیر تسلط کشمیر میں پچیس جولائی، بروز اتوار کو گیارہویں عام انتخابات کے 45 نشستوں کے لیے انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان میں زیر اقتدار پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نشستیں لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پے پاکستان پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پے پاکستان مسلم لیگ نواز نے رہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی آئی آئی) نے 45 میں سے 26 سیٹیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 11، پاکستان مسلم لیگ نواز نے (پی ایم ایل ’ن‘ ) 6 جبکہ جموں کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی نے ایک ایک نشست حاصل کی

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کشمیر میں اپنے جیت پر جشن کر رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں پی ایم ایل ’ن‘ اور پی پی پی الیکشن میں دھاندلی کا کہہ کر الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکاری ہیں میرے خیال میں اس کی وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ کیسے پاکستان تحریک انصاف نے کشمیر کے عام انتخابات جو 2016ء میں بوئے تھے صرف دو نشستیں حاصل کی تھیں مگر حالیہ انتخابات میں 26 نشستیں حاصل کیں۔

ویسے کشمیر کے بر عکس پورے پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں کچھ نہ کچھ انہونی چیزیں اور واقعات رونما ہو جاتے ہیں جیسے کہ حال ہی میں گزشتہ ضمنی انتخابات جو این اے 75 ڈسکہ میں اپریل 2021 میں بوئے تھے اس ضمنی انتخابات میں 20 کے قریب پریذائیڈنگ افسران غائب کیے گئے مگر حیرت اس وقت ہوئی جب الیکشن کمیشن نے ان افسران کی گمشدگی کی وجہ دریافت کی تو ان افسران نے موقف اختیار کیا کہ وہ دھند کے وجہ سے غائب بوئے تھے۔

مگر جب ہم کشمیر کے گزشتہ دس انتخابات کے نتائج کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضح ہے کہ ماضی میں اکثر و بیشتر الیکشن کے دوران جو بھی پارٹی برسراقتدار ہوتی تھی وہی پارٹی الیکشن میں زیادہ سیٹیں حاصل کر کے کامیابی حاصل کرتی تھی۔ اب یہ سوال ہے کہ کس طرح جو پارٹی گزشتہ انتخابات میں صرف دو نشستیں حاصل کر سکی تھی مگر اس نے اس انتخابات میں 26 سیٹیں حاصل کیں یعنی 2016 کے الیکشن کے برعکس 24 زیادہ سیٹیں۔

پی پی پی اور نواز لیگ ارکان اور لیڈروں کے دھاندلی کے بیانات کے برعکس میں نے اس فلسفے (یعنی جو پارٹی مرکز میں اقتدار میں ہوتا ہے وہی پارٹی کشمیر میں الیکشن کیوں جیتتی ہے ) کو سلجھانے کے لیے سوئٹزرلینڈ میں مقیم جلا وطن یونائیٹڈ پیپلز نیشنل پارٹی (UKPNP) کے صدر شوکت علی کشمیری سے رابطہ کیا آور وجہ پوچھی۔

”ازادکشمیر کے الیکشن میں اس طرح کے رزلٹ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ ازاد کشمیر میں اسی پارٹی کی حکومت ہونی چاہیے جو پاکستان میں برسراقتدار ہو“ ۔

جب میں نے سردار شوکت علی سے اس حکمت عملی وجہ پوچھی تو شوکت علی کشمیری نے جواب کچھ اس طرح دیا اور کہا ”

” ایسا پاکستانی اسٹبلشمنٹ اس لیے کرتی ہے تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان کے زیر انتظام ازادکشمیر اور گلگت بلتستان والے کتنے خوش ہیں کہ وہ ہمیشہ پاکستان کی اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جو اقتدار میں ہو یعنی یہ ان علاقوں کے لوگوں کی پاکستان سے والہانہ محبت ہے“

بقول سردار شوکت علی کشمیری، پاکستان کے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی سے آگاہ ہوتی ہیں، یہاں تو باقاعدہ ان پارٹیوں کے مقتدرہ کو انتخابات سے پہلے ہی بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کے پارٹی کے لیے انتخابات میں اتنی نشستوں کا اہتمام کیا ہے۔

اس حوالے سے ثبوت کے طور پر کشمیر سمیت پاکستان کے لوگوں نے نبیل گول اور پی ٹی آئی کے ایک ممبر کے وڈیو اور انٹرویو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا میں بخوبی دیکھے بوں گے۔

اب آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ان سب پارٹیوں سے کیے ہوئے وعدے وفا کیوں نہیں بوئے تو اصل وجہ پاکستان مسلم لیگ نون کی محترمہ مریم نواز تھیں۔

”مریم نواز صاحبہ نے اس سارے کھیل میں دراڑ ڈال دی اور انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بندر بانٹ کو سرعام چیلنج کیا اور کہا کہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ پرانا کھیل بند کیا جائے اور جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کو عزت دی جائے یہی وجہ تھی کہ مریم نواز نے زوردار کشمیر کیمپین چلائی اور لوگوں کو آگاہ کیا کہ اس الیکشن میں تمھارے وطن اور ووٹوں سے کیا ہونے والا ہے۔ مریم نواز کے بڑے بڑے انتخابی اجتماعات نے اسٹبلشمنٹ کے ہوش اڑا دیے اور بالآخر انہوں نے انتخابات کے آخری تین دنوں میں نئی حکمت عملی بنائی اور فیصلہ کیا کہ کوئی رسک نہیں لینا اور پوری ریاستی مزید طاقت سے الیکشن میں پی ٹی آئی کو جتوانے میں لگا دی یہی وجہ ہے کہ آخری لمحات میں اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستیں کم کر دیں اور پیپلز پارٹی والے اس پر بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں البتہ مسلم کانفرنس نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے“

شوکت کشمیری نے مزید کہا کہ ”اپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کے ایک انتہائی حساس ادارے کے افسر کو، جو ازادکشمیر کے امور کا انچارج تھا، مریم نواز سمیت اپوزیشن کے احتجاج ہر ٹرانسفر کیا گیا چونکہ وہ کھلے عام پی ٹی آئی کی کیمپین کر رہا تھا“

بقول شوکت کشمیری یہ باتیں کوئی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ زبان زدہ عام ہیں۔ ورنہ کوئی بتا سکتا ہے کہ نون لیگ کے صدر نے مظفرآباد یا کسی الیکشن جلسہ سے کیوں خطاب نہیں کیا چونکہ انھیں معلوم تھا کہ اسٹبلشمنٹ انھیں کسی بھی صورت کشمیر میں جیتنے نہیں دے گی

سردار شوکت نے آخر میں کہا کہ ”آزاد کشمیر میں چار پاورفل آفیسرز جن کی تعیناتی اسلام آباد سے ہوتی ہے کشمیر کی ساری انتظامیہ اور دوسرے امور کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں سے دو کا ذکر اور تبصرہ مریم نواز شریف اپنے کشمیر کے جلسوں میں بھی کیا تھا“

دوسری طرف یاد رہے کہ کشمیر کے قوم پرست بشمول دوسرے پارٹیوں کے سربراہان کشمیر کے انتخابات کا بائیکاٹ اس لئے کرتے ہیں کہ پاکستانی کشمیر میں سب امیدواروں کو انتخابات سے پہلے ایک حلف نامہ جمع کروانا پڑتا ہے بحیثیت امیدوار وہ نظریہ پاکستان، متنازع کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر یقین رکھتا ہے۔

اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیری انتخابات میں جب کوئی امیدوار انتخابات جیت بھی جائے تو اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد بھی امیدوار پے لازم ہے کہ وہ پاکستان سے وفاداری کے ساتھ ساتھ ریاست کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے نصب العین کی وفاداری کا بھی حلف لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments