ناصر ملک کا “مزاح کبیرہ”


کسی دانشوروں کا قول ہے کہ سب انسانوں کی زندگی میں آنے والے مسائل کم و بیش یکساں قسم کے ہوتے ہیں مگر ان کا سامنا کرنے کا انداز سب کا مختلف ہوتا ہے، لہذٰا انسانوں کی حقیقی پہچان ان کے مسائل سے نہیں بلکہ مسائل کے ساتھ نمٹنے کی قوت اور صلاحیت سے ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عملی زندگی کے مسائل بہت جانکاہ ہوتے ہیں اور انسان ان سنگلاخ پتھروں پہ چلتے چلتے اپنی ظاہری اور باطنی شگفتگی اور رعنائی کو رفتہ رفتہ کھو دیتا ہے۔ زوردار قہقہے لگا کر ہنسنا تو درکنار ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پہ آئے بھی زمانے بیت جاتے ہیں۔

ایسے تنگ و تاریک اور حبس زدہ ماحول میں اگر کوئی ذرا سی دیر کے لیے ہی سہی ہمیں ہنسنے مسکرانے پہ مجبور کر دے تو کتنا بھلا لگتا ہے۔ کوئی ایک جملہ، کوئی ایک لفظ، کوئی ایک منظر جو یاد داشت سے چمٹ جائے اور بار بار ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہمارے لبوں پہ بکھیر جائے تو کتنا اچھا لگتا ہے۔

مزاح سے لطف اندوز ہونے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کی زندگی سے مشکلات اور مصائب ختم ہو جاتے ہیں، لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ان مصائب سے خندہ پیشانی کے ساتھ نمٹنے کا حوصلہ آ جاتا ہے۔ اس بارے میں ممتاز مزاح نگار عطا الحق قاسمی صاحب کا قول بڑا معروف ہے کہ مزاح انسان کی زندگی کی تکالیف کو روک تو نہیں سکتا بس ان کی شدت میں تھوڑی کمی واقع کر دیتا ہے جیسے ضمیر انسان کو گناہ سے روک تو نہیں سکتا بس ذرا مزہ کرکرا کر دیتا ہے۔

محکمہ پولیس کی پر پیچ پگڈنڈیوں پر طویل عرصے سے محو خرام ایک اعلیٰ افسر سے مزاح نگاری کی توقع لق و دق صحرا میں موسلا دھار بارشوں کے خواب کے مترادف ہے۔ اس محکمے میں سب سے پہلے احساس کا جام چکنا چور ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ سے رغبت دل و دماغ سے ایسے غائب ہوتی جیسے گویا کبھی تھی ہی نہیں۔ مگر عجب اتفاق دیکھئے کہ محکمہ پولیس کے ایک افسر نے مزاحیہ مضامین پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب تصنیف کر ڈالی جس کو مزاح نگاروں کے سرخیل عطاء الحق قاسمی صاحب نے سند قبولیت عطا کی اور یوں رقمطراز ہوئے

”ناصر ملک کے مزاح پارے میرے نظریہ ادب بلکہ نظریہ مزاح کے عین مطابق ہیں وہ یوں کہ ان کے مزاح میں بھرپور سنجیدگی موجود ہے۔ مجھے وہ مزاح بھی عزیز ہے جو آپ کو صرف ہنساتا ہے مگر وہ مزاح عزیز تر ہے جو آپ کو ہنسانے یا زیر لب تبسم کے علاوہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آپ مزاح کبیرہ پڑھ کر دیکھ لیں اگر اس کے ہر صفحے پر آپ کو گدگدیاں محسوس ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی چبھن کا احساس بھی ہو تو پھر آپ میری بات پر ایمان لائیں کہ ناصر ملک اردو مزاح کے نئے دور کے سرخیل میں سے ہیں“

یہ حقیقت ہے کہ یہ کتاب قاری کو محض ہنسی کا سامان ہی مہیا نہیں کرتی بلکہ سوچوں کے نئے در بھی وا کرتی ہے۔ حیات انسانی کی جبلی کمزوریوں سے پردہ اٹھاتی ہوئی ہر تحریر احساس و ادراک کے نئے دریچوں کھولتی چلی جاتی ہے۔ تحریر میں چاشنی بھی ہے سلاست بھی، دل لگی بھی ہے نصیحت بھی، ہنسی مذاق کے پردوں میں چھپے آنسو بھی ہیں اور آنسوؤں کو پونچھتی نرم گرم لفظوں کی ریشم جیسی پوریں بھی۔

ناصر ملک صاحب نے دنیا کے کئی ممالک کے سفر کیے اور فطرت کے حسین مناظر کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رہن سہن، رسوم و رواج اور عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ کیا، ان کی تحریریں ان کے گہرے مشاہدے کی بہترین عکاس ہیں ان کے ہر ہر جملے کی بنت اتنی شاندار ہے کہ قاری داد دیے بنا نہیں رہ سکتا۔

یو این او مشن پر سوڈان روانہ ہوئے وہاں پہلے سے موجود عجیب و غریب عادات کے مالک ایک ادھیڑ عمر پاکستانی کا پڑوس نصیب ہوا، جس کے بارے میں لکھتے ہیں ”وطن پاک سے ہزاروں میل دور اس بے آب و گیاہ افریقی صحرا میں ہم سے پہلے موجود ایک ہم وطن کو پڑوسی پاکر نجانے کیوں ہماری کیفیت اس دیہاتی کی سی تھی جو کئی روز مسلسل ساگ کھا کھا کر اکتا جاتا ہے اور گھر سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ لیکن سارا دن مسلسل سفر کرنے اور راستے میں جنگل اور دریا عبور کرنے کے بعد جب کسی دور دراز کے دیہات میں کسی کا مہمان بنتا ہے تو اسے اس وقت شدید دھچکا لگتا ہے جب رات کے کھانے میں ساگ پیش کیا جاتا ہے۔ وہ سخت حیران ہو کر ساگ سے سوال کرتا ہے“ اوئے نیک بختا یہ تو بتا مجھ سے پہلے یہاں کیسے پہنچ گیا؟ ”

یہ چند لائنیں صرف ذائقے کے لیے یہاں پیش کی گئی ہیں، آپ پوری کتاب پڑھیے یقیناً آپ بہت محظوظ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments