ایک شریف خاتون کا تذکرہ


آزاد کشمیر کے ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر کی برانچ میں میری تعیناتی کے دن تھے۔ بینک کی جون کی کلوزنگ تھی، جس کا پریشر بینک میں کام کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ اس دن میں ساڑھے بارہ بجے مارکیٹ کا چکر لگا کر برانچ میں پہنچا تھا۔ برانچ کے اندر اور باہر بجلی کے بل جمع کروانے والوں کی لمبی لائن تھی۔ میں نے سرسری سا جائزہ لیا تو میری نظر ایک ادھیڑ عمر کی خاتون پر پڑی جو بل ہاتھ میں پکڑے قطار میں کھڑی تھیں۔ میں نے میسنجر کو بلایا اور کہا کہ وہ ان خاتون کو میرے کیبن میں لے آئے۔

وہ پسینہ پونچھتی ہوئی اندر آئیں تو میں نے انھیں صوفے پر بٹھایا، پانی پلوایا۔ ادھیڑ عمر کی بڑی ڈیسینٹ سی خاتون تھیں۔ ان سے بل لے کر کاؤنٹر جا کر جمع کروایا اور رسید لا کر انھیں دی۔ وہ بہت ہی شکرگزار ہوئیں اور مجھے دعائیں دینے لگیں۔ میں نے انھیں چائے کا پوچھا جس کے لئے انہوں نے نرمی سے انکار کر دیا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میں نے انھیں کہا کہ کسی بچے کو بل دے دیا کریں وہ جمع کرا دیا کرے۔ بیٹا!

میرے گھر میں بچہ کوئی نہیں اس لئے مجھے خود آنا پڑتا ہے۔ پھر میں نے انھیں کہا، آئندہ آپ سیدھی میرے پاس آ جایا کریں، لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کا بل فوراً جمع ہو جایا کرے گا۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور چلی گئیں۔ اب وہ ہر ماہ بل جمع کرانے میرے پاس آتیں اور بل جمع کرا کے چلی جاتیں۔ بینک میں آنے جانے سے ان سے جان پہچان بڑھی تو کبھی کبھار وہ کوئی چھوٹا موٹا کام بھی بتاتیں جو میں کروا دیتا۔ میری یہ ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ کسی کے ذاتی معاملات کے بارے میں کبھی کسی سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی دنیا میں دخل اندازی کرتا ہوں۔

ایک دن ایک لڑکا ان کا پیغام لایا کہ وہ مجھے گھر بلا رہی ہیں۔ میں فارغ ہی تھا اس لئے موٹر سائیکل پر اس لڑکے کو ساتھ لے کر ان کے گھر چلا گیا۔ چار کمروں کا ایک چھوٹا سا صاف ستھرا گھر تھا۔ گیٹ کے سامنے ہی برامدہ تھا جس میں وہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کو سخت بخار تھا اور کھانسی بھی تھی۔ مجھے ان کی حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔ لگ رہا تھا انہوں نے کافی دیر سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔ میں رکشہ لایا اور ان کے منع کرنے کے باوجود انہیں قصبے کے واحد پرائیویٹ ہسپتال میں لے گیا۔

ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا اور دوائیں لے کر انھیں گھر واپس لے آیا۔ ان کے پڑوس کی ایک خاتون نے انہیں دلیہ وغیرہ بنا کر دیا۔ میں نے ان سے بجلی کا بل لے کر بینک میں جمع کروا دیا۔ اگلے دو تین دن میں ان کی تیمارداری کے لئے جاتا رہا۔ وہ میری بہت شکر گزار ہو رہی تھیں، بار بار ان کی تیمارداری کرنے پر شکریہ ادا کر رہی تھیں۔ اس دن شام کو میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے پوچھ بیٹھا کہ وہ اکیلی کیوں رہتی ہیں۔ پھر جو کچھ انہوں نے بتایا وہ مجھے واقعی بہت درد ناک لگا۔ ان ہی کی زبانی سنئیے۔

یہ کہانی جموں شہر سے شروع ہوتی ہے جہاں ہمارا خاندان آباد تھا۔ سید شاہ عالم یعنی میرے ابا جان نے ایم اے کیا تو فوراً ہی انہیں لیکچرر کی نوکری مل گئی۔ نوکری ملنے کے بعد ہر گھر کی طرح ان کی بھی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ خالہ کی بیٹی سے بچپن کی منگنی تھی۔ بیٹیوں کو پڑھانے کا خاندان میں ابھی اتنا رواج نہیں ہوا تھا اس لئے مڈل پاس کرنے کے بعد ہی بیٹیوں کو گھر میں بٹھا کر ان کی شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ شاہ عالم کی بھی نوکری پکی ہوتے ہی ان کی منگیتر سے ان کی شادی ہو گئی۔

شادی کے دو سال بعد میں پیدا ہوئی۔ خاندان میں سب بیٹے کی امید لگائے بیٹھے تھے اس لئے میری پیدائش کی کسی کو بھی خوشی نہیں ہوئی۔ میری پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ابا ہمیں ساتھ لے کر اپنے کالج کی طرف سے ملی ہوئی رہائش میں منتقل ہو گئے۔ دو سال بعد عائشہ پیدا ہوئی اور اس کے ڈیڑھ سال بعد آمنہ آ گئی۔ اوپر تلے تین بیٹیاں پیدا ہونے پر اماں بہت چڑچڑی سی ہو گئیں تھیں۔ اکثر شرارت پر ہم تینوں کی بہت پٹائی ہوتی۔ لیکن ابا جان ہم سب سے بہت پیار کرتے تھے۔ اکثر اماں کو ڈانٹتے کہ ان بیچاریوں کا کیا قصور ہے ان کو نہ ڈانٹا کرو۔ تین بیٹیاں ہو جانے پر سب خاندان والے امی سے افسوس کا اظہار کرتے۔

بڑی بہن اور تھوڑی سمجھ دار ہونے کے ناتے چھوٹی بہنوں کو سنبھالنے ذمہ داری بچپن سے ہی میری ہو گئی تھی۔ اماں کو بیٹے کی شدید خواہش تھی اور اس بار علی پیدا ہوا تو جانو سب کی مراد بھر آئی۔ سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ علی سب کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ سب ہی اس کے لاڈ اٹھاتے تھے۔ بھائی کی جوڑی بناتے بناتے ایک اور بہن ثمینہ آ گئی۔ میں جو بچپن سے ہی بہنوں کو پالتی آئی تھی اسے قسمت نے وقت سے بہت پہلے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا دیا۔

سات بندوں کی فیملی میں ایک کمانے والا پروفیسر، گھر میں گزارہ مشکل سے ہو رہا تھا۔ پھر پارٹیشن کے ایک سال بعد کشمیر میں ہنگامے شروع ہوئے تو ہمیں بھی پاکستان کے لئے ہجرت کرنا پڑی۔ ہمارا اپنے تایا کی فیملی سمیت سیالکوٹ پہنچنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ شہاب پورہ میں ایک بڑے خالی مکان میں سر چھپانے کی جگہ مل گئی۔ کچھ عرصہ اس مکان میں تایا کی فیملی کے ساتھ رہے۔ اسی اثنا میں ابا جان کو آزاد کشمیر کے اس تحصیل ہیڈ کوارٹر کے کالج میں نوکری مل گئی۔

ہمارے حالات کچھ معمول پر آ گئے تھے۔ ابا تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے ہماری پڑھائی پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ بھائی سمیت ہم چاروں بہنوں کو بھی سکول میں داخل کرا دیا۔ ہماری پڑھائی جاری تھی اور کھینچ تان کر گزارہ بھی ہو ہی رہا تھا۔ یہاں اس وقت لڑکیوں کا کالج نہ ہونے کے باوجود ابا نے ہمیں اپنے کالج میں داخلہ دلوایا۔ میں بی ایس سی کر کے فارغ ہوئی تھی اور یونیورسٹی میں داخلے کا خواب دیکھ رہی تھی کہ ایک دن ابا کی اچانک طبیعت خراب ہوئی۔ ایک ہلکا سا دورہ بھی ان کا دل نہ سہ سکا اور بند ہو گیا۔ ان دنوں اتنی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ ابو کو ہسپتال لے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ہم سب پر تو ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کی وفات پر رشتے دار آئے اور پرسہ دے کر چلے گئے۔ تایا ابا کی فیملی بھی کچھ دن ہمارے ساتھ رہی اور پھر وہ بھی چلے گئے۔

ابھی تک ہم کالج کی طرف سے الاٹ گھر میں مکین تھے۔ اماں نے سیالکوٹ سے تایا ابا کو بلا بھیجا اور ان سے سیالکوٹ شفٹ ہونے کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی رہائش کے لئے کوئی کرائے کا مکان تلاش کرتا ہوں پھر آپ کو بلاتا ہوں۔ جب اماں نے شہاب پورہ والے الاٹ مکان کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ تو میری ملکیت ہے جس میں مشکل سے ان کا خاندان مقیم ہے۔ بھائی صاحب نے اپنے لئے خود الاٹ کروانا تھا جس پر انہوں نے توجہ نہیں دی۔ اگر تایا ابا چاہتے تو ہم بھی ان کے ساتھ رہ سکتے تھے کیونکہ وہ مکان کافی بڑا تھا۔ کافی ناراضگی کے بعد تایا ابا ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

ابو کے ایک دوست پروفیسر صاحب نے کوشش کر کے میری سرکاری سکول میں سینئر ٹیچر کے طور پر تقرری کرا دی۔ ان کے دو ایک اور دوستوں کی مہربانی سے ابو کے بقایا جات سے ہم نے یہ چھوٹا سا گھر بنا لیا۔ میری تنخواہ اور ابو کی پینشن سے اچھا گزارہ ہونے لگا۔ دو سال بعد چھوٹی بہن عائشہ نے بی اے کر لیا۔ میرے لئے ایک رشتہ آیا۔ ہمارے ہاں غیر سید سے بیٹیوں کی شادی نہیں کرتے۔ وہ سید فیملی تھی اور ان کا بیٹا انگلینڈ میں سیٹل تھا۔ اماں نے میرے بجائے چھوٹی بہن عائشہ کا رشتہ طے کر دیا وہ مجھ سے خوبصورت تھی اس لئے وہ انھیں پسند آ گئی اور آناً فاناً اس کی شادی ہو گئی۔ میں نے جو تھوڑی بہت بچت کی تھی وہ اس کی شادی کی نذر ہو گئی۔

میری شادی کی عمر گزرتی جا رہی تھی، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اماں جان بوجھ کر میرے لئے آنے والے رشتوں سے انکار کر رہی ہیں۔ اسی اثنا میں چھوٹی بہن عائشہ کے سسرال والوں نے آمنہ کا رشتہ مانگا۔ وہ ابھی بی اے میں پڑھ رہی تھی۔ اس کی شادی بی اے کرنے سے پہلے ہی ہو گئی اور وہ بھی عائشہ کے ساتھ انگلینڈ جا بسی۔ تایا ابا کا بڑا بیٹا کالج میں لیکچرر تھا اس نے مجھ میں دلچسپی ظاہر کی۔ میں چونکہ اب گھر والوں کا واحد سہارا تھی اس لئے میں نے اس کو ساری بات سمجھائی تو وہ بضد ہوا کہ ہم دونوں مل کر سب کچھ کر لیں گے۔

میں نے اسے امی سے بات کرنے کو کہا۔ امی کو تایا پر مکان کی بات پر بہت غصہ تھا۔ انہوں نے فوراً انھیں جھڑک دیا اور آئندہ رابطہ کرنے سے بھی منع کر دیا۔ پھر بھی اس نے تین چار سال انتظار کیا لیکن اماں کو میری شادی کی جلدی نہیں تھی۔ کیونکہ چھوٹی بہن اور بھائی ابھی پڑھ رہے تھے۔ بھائی کی ساری ضرورتیں پوری ہو رہی تھیں اس لئے اسے گھر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ امی کا لاڈلا بھی بہت تھا۔ اس نے یونیورسٹی کے ایک دوست سے مل کر یورپ کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے اپلائی کیا اور داخلہ ملنے پر اس دوست کی مدد سے وہ یورپ میں جا بسا۔ کبھی کبھار اس کا فون آ جاتا ہے۔ اتنے سالوں میں وہ واپس نہیں آیا۔ اللہ تعالی کی مدد اور سکول کی کچھ دوستوں کی وجہ سے چھوٹی بہن ثمینہ کی بھی شادی ہو گئی اور وہ بھی سمندر پار جا بسی۔

اب گھر میں اماں اور میں جب اکیلے ہوئے تو پھر اماں کو میری شادی کا خیال آیا۔ وہ مجھ سے بالا ہی بالا لوگوں سے میرے رشتہ کی بابت بات کرتیں لیکن اب اس استانی کے لئے ادھیڑ عمر اور بچوں والے ہی رہ گئے تھے۔ میرا اپنا جی بھی شادی سے مر گیا تھا۔ تایا زاد نے بھی انتظار کر کر کے شادی کر لی تھی۔ میری بالوں میں بھی چاندی جھانکنے لگی تھی۔ بہن بھائیوں کو پالتے پالتے پتہ ہی نہیں چلا کب میری شادی کی عمر چپکے سے ہی گزر گئی تھی۔

اماں کی وفات پر انگلینڈ سے دونوں بہنیں آئیں تھوڑا عرصہ میرے ساتھ گزارا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جو بوجہ پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے سر چھپانے کے لئے یہ چھوٹا سا گھر دے دیا تھا۔ میں اسی سال سکول سے ہیڈ مسٹریس کے طور پر ریٹائر ہوئی ہوں۔ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو ہول آتا ہے۔ زندگی کے دشت میں کتنے خوبصورت زریں سال اپنے ان بہن بھائیوں کے لئے گزار دیے جو اب اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں سے وقت ملے تو کبھی کبھی یاد کر لیتے ہیں۔

میں بھی یہ سوچ کر خوش ہو جاتی ہوں کہ چلو میری زندگی میرے بہن بھائیوں کے کام تو آ گئی۔ اگر ابا زندہ ہوتے تو کچھ اور ہی صورت حال ہوتی۔ ان کے حالات زندگی کے بارے میں جان کر میرا دل بہت دکھا۔ میری جب تک ان کے شہر میں پوسٹنگ رہی، ان سے رابطہ بھی رہا اور بھائیوں اور بیٹوں کی طرح میں نے ان کا خیال بھی رکھا۔ اب پتہ نہیں وہ کس حال میں ہوں گی۔ کافی عرصہ سے ان سے رابطہ نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments