شہباز شریف کی مفاہمت: بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد


امریکہ کے الیکشن کے وقت پاکستان میں حاکمیت کی سیاسی کشمکش تیز ہوتی نظر آئی۔ بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے ملک گیر بڑے بڑے عوامی جلسے کرتے ہوئے حقیقی عوامی حاکمیت کے مطالبے کو ملک میں نمایاں کر دیا۔ نئے امریکی صدر کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو کمزور کرنے کے صورتحال واضح ہونے لگی۔ آج یہ واضح ہوا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور چین کے خلاف امریکہ اور ہندوستان کی قریبی شراکت داری سے جنوبی ایشیا کے خطے میں مختلف صورت حال پیدا کرنے کے عوامل زیر کار ہیں۔ عالمی طاقتوں کے اس منصوبہ بندی میں پاکستان کو کئی ذمہ داریاں بھی دی گئی ہیں۔

علاقائی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کس کردار پر عمل پیرا ہے؟ اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں، صرف اندازے ہیں۔ کیونکہ ملکی پالیسیوں کے حوالے سے بھی پارلیمنٹ نا صرف غیر موثر بلکہ ”ربڑ سٹیمپ“ کی صورت اختیار کرتے معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کو علاقائی ذمہ داریاں عطا کیے جانے سے مقتدرہ کی حاکمیت کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے معاملات مقتدرہ سے طے کیے جانے سے ایک طرف جہاں مقتدرہ کی حاکمیت کو تقویت حاصل ہوئی ہے، وہیں اپوزیشن جماعتیں بھی کمزور صورتحال سے دوچار ہوئی ہیں۔ عوامی حاکمیت کی بحالی کے لئے مزاحمت کی جگہ مقتدرہ سے تعاون بلکہ تابعداری کے بیانیہ کو زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے ’جیو ٹی وی‘ پہ سلیم صافی کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ شہباز شریف نے انٹرویو میں نرم الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مفاہمت پر زور دیا۔ انہوں نے عمومی بات کی کہ سب کو پاکستان کی خاطر نئی شروعات کرنی چاہئیں۔ جبکہ اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ملک میں ماورائے آئین ہر شعبے پہ محیط کلی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان میں بہتری کی راہ کیسے اختیار کی جا سکتی ہے؟ مسلم لیگ (ن) میں دو مختلف بیانئے کی بات کوئی راز نہیں ہے بلکہ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ مزاحمت کا ہے اور شہباز شریف کا تعاون، مل جل کر چلنے کا۔

عوام میں نواز شریف اور مریم کا بیانیہ ہی مقبول عام ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد دھرنے کے وقت جلسے سے شہباز شریف کی تقریر پہ بہت تبصرے بھی ہوئے تھے کہ شہباز شریف نے تقریر کی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کو حکومت میں لائے جانے کی درخواست پیش کی گئی ہے کہ عمران خان نا اہل ہے، ہمیں حکومت میں لایا جائے۔ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا شہباز شریف کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کو راضی کر سکتا ہے؟ اس انٹرویو میں شہباز شریف صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کر کے چلنے کے اپنے بیانئے کی کوئی مضبوط دلیل دینے میں ناکام رہے۔

نیا سال شروع ہوتے ہی پی ڈی ایم کا اپوزیشن اتحاد پیپلز پارٹی کی وجہ سے خاتمے کی طرف چلا گیا۔ مقتدرہ نے آزاد کشمیر کا الیکشن جتوانے کا معاملہ ”یکسو“ کرتے ہوئے پیغام دیا کہ عمران خان حکومت کے لئے ان کی آشیر باد کا سلسلہ جاری ہے، فی الحال کسی اپوزیشن جماعت کی ”تعاون“ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں لانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی صورت آگہی کے اس دور میں مزاحمت کا بیانیہ عوام میں وسیع پیمانے پر مقبول ہے۔

معروف صحافی سہیل وڑائچ اس بات پہ زور دیتے نظر آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن ) کو الیکشن جیتنے کے لئے اپنا بیانیہ بدلنا ہو گا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ملکی حاکمیت کے نظام کو بدلنے کے لئے سیاسی جماعتیں مزاحمت کے بجائے مقتدرہ کی روایتی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے موجودہ طریقہ کار کو ہی اپنا لیں۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن جیتنے کے لئے غاصب حاکمیت کو تسلیم کرنا عوام کو منفی پیغام دینا ہو گا۔

ایک نوجوان نے اچھی ملازمت حاصل کرنے کے حوالے سے مجھ سے کہا کہ ”میں پی ٹی آئی ’میں شامل ہو جاتا ہوں“ ۔ میں نے نوجوان کے سوال کے محرک کو دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ اگر‘ پی ٹی آئی ’میں شامل ہوتے وقت ہی کوئی فائدہ مل رہا ہو تو ضرور شامل ہو جاؤ، لیکن اگر یہ توقع ہے کہ حامی بن جانے کے بعد کوئی فائدہ ملے گا تو یہ بڑی بیوقوفی ہو گی۔ اسی طرح اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ( شہباز شریف کا بیانیہ) یہ سمجھتے ہیں کہ مقتدرہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے تعاون کے یک طرفہ اعلان کے بعد حکومت میں آنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے، تو یہ بات خود فریبی ہی ثابت ہو گی کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک کسی فوجی حکومت کو اتنی تابعدار حکومت نہیں ملی جتنی عمران خان کی صورت سول کندھوں کے استعمال کے لئے موجود ہے۔

ملک میں اسٹیبلشمنٹ سے تعاون کرنے کے بیانیہ کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے اور اس بات کو ملک کے نظام کو بہتر طور پر چلانے کی ضرورت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ پاکستان میں بادشاہ مر جاتا ہے لیکن بادشاہت قائم رہتی ہے، سرکاری تنخواہیں پانے والی اعلی عہدیدار اپنی اس حاکمیت کو قائم رکھتے ہیں کہ جو پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے اور اس عمل میں سول مداخلت کو خارج از امکان اور ملکی مفاد کے منافی قرار دینے پر زور دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments