کیا خود کش حملہ آور مایوس انسان ہوتا ہے؟


کہیں پڑھا کہ خود کشی کرنے والا فرد اور خود کش حملہ آور دونوں زندگی سے مایوس انسان ہوتے ہیں۔ تو قریبی دوست کا سنایا ہوا، واقعہ یاد آ گیا۔ آئیے ان کی ہی زبانی سنتے ہیں۔

خالد کو دوست نے فون کیا اور کہا: کچھ ضروری بات کرنی ہے، کیا ملاقات ہو سکتی ہے؟

خالد دوست کی رہائش گاہ پہنچا۔ دوست گھر سے باہر آئے اور کہا: گھر کے باہر ہی چلتے پھرتے بات کر لیتے ہیں۔

چہل قدمی کے دوران دوست نے کہا کہ ”آپ کے تو علم میں ہے، میرا بیٹا گوروں کے دیس میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے، کہ اس کی کچھ ایسے جہادی افراد کے ساتھ نشست رہتی ہے، جن کے نزدیک خود کش حملہ جائز اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ افراد خود کش حملہ آور کے لیے جنت اور حوروں کی بشارتیں بھی اس کو سناتے ہیں۔ ان دنوں وہ مجھ سے بھی ٹیلیفون پر اسی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ میں شدید پریشانی میں مبتلا ہوں۔“

مسئلہ تو واقعی گمبھیر تھا۔ یہ سب سن کر خالد کے تو خود ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ خالد برخوردار سے ٹیلیفون پر بات کریں گے اور اس کو سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ یہ سب فضول باتیں ہیں، ایسے افراد سے بچ کر رہو اور اپنی تعلیم مکمل کر کے خیر سے گھر کو لوٹو۔ خالد نے اولین فرصت میں برخوردار کو فون کیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے، باتوں کا رخ مروجہ جہاد کی طرف موڑ دیا۔

صاحب زادے فوراً ہی رٹی رٹائی باتوں پر آ گئے اور فی زمانہ مروجہ جہاد کی حمایت میں دلیلیں دیتے دیتے خود کش حملے اور حملہ آور کو حملے کے بعد جنت کی جو بشارتیں سنائی جاتی ہیں، سنانے لگ گئے۔ خالد نے تحمل سے سب باتیں سنیں اور اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں صاحب زادے کو سمجھایا کہ جن لوگوں کی صحبت تم نے اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ صرف تمہارے لیے ہی نہیں، پاکستان میں تمہارے خاندان کے لیے خطرہ ہیں۔ صاحب زادے نے وعدہ کیا کہ وہ اب ان لوگوں سے رابطہ نہیں رکھے گا۔ چند ماہ بعد بچہ تعلیم مکمل کر کے خیر سے وطن لوٹ آیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ لڑکا زندگی سے مایوس تھا؟

خالد اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ لڑکا ہرگز بھی زندگی سے مایوس نہیں تھا۔ وہ تو اپنی زندگی دین اسلام کے لیے خود کش حملہ کر کے وقف کرنا چاہتا تھا۔ وہ تو دین اسلام سے محبت کرنے والا عام جذباتی مسلمان تھا، جو مولوی نما کسی بھی فرد کی بات کو سچ سمجھ لیتا تھا اور جنت و حوروں کی کشش کی وجہ سے کسی بھی مجاہدے کے لیے خوشی خوشی تیار رہتا تھا۔ چاہے وہ عمل اکثر مفتی حضرات کے نزدیک حرام ہو، جیسے خود کش حملہ۔

یہیں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود کشی کرنے والا عام فرد اور خود کش حملہ آور دونوں زندگی سے مایوس ہوتے ہیں تو اس کا جواب بھی نفی میں ہی ملتا ہے۔ چونکہ خود کشی کرنے والا عام فرد تو یقیناً زمانے کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر مایوسی کے عالم میں جانتے بوجھتے کہ یہ فعل پسندیدہ نہیں ہے، خود کشی کرتا ہے۔ جب کہ خود کش حملہ آور خدا کی خوشنودی اور موجودہ زندگی سے آخرت کی بہتر زندگی کے لیے بخوشی یہ قدم اٹھاتا ہے۔ سوچ یقیناً دونوں کی منفی ہوتی ہے اور دونوں کو ہی ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments