اگر یہ کتا امریکہ میں گم ہوتا تو!


آج کل پاکستانی میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر کسی کمشنر صاحب کے کتے کی گمشدگی کے حوالے سے بڑی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ چونکہ آج کل میں امریکہ میں گزرے ماہ و سال کی یادداشتیں لکھ رہا ہوں تو سوچا لگے ہاتھوں اس موضوع پر بھی کچھ قلم بند کیا جائے۔ میں نے پالتو جانوروں کے لیے جو پیار اور دیکھ بھال امریکہ کی سوسائٹی میں دیکھی وہ قابل ذکر ہے۔ پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ میں گم ہونے والا کتا اگر امریکہ میں ہوتا تو اس کے مالک کو کسی شرمندگی کا سامنا نہ ہوتا، نہ ہی رکشے پر لاؤڈ سپیکر باندھ کر شہر میں اعلان کروانا پڑتا اور نہ ہی دنیا میں ہماری نوکر شاہی کے رویے کی جگ ہنسائی ہوتی۔

یہ مضمون لکھنے کا ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں اور نہ ہی امریکہ اور پاکستان کے رہن سہن کا تقابلی جائزہ لینا ہے بلکہ دیانت داری کے ساتھ ہماری معاشرت کے کچھ پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے کہ ہم جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اور مہذب دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں جانوروں کی حقوق کی بات کر نا کچھ عجیب سا معلوم ہو تا کہ یہاں ابھی انسانوں کو اپنے جائز، قانونی اور آئینی حقوق کے حصول کے لیے زمین آسمان ایک کرنا پڑتا ہے۔

خیر آئیے پہلے امریکہ میں پالتو جانوروں کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت پالتو کتوں، بلیوں اور دیگر جانور رکھنے والے خاندانوں کی تعداد 85 ملین ہے۔ وہاں ہر شہری کو اپنا پالتو جانور رجسٹرڈ کروانا پڑتا ہے۔ اس جانور کے گلے میں مالک کا نام اور ٹیلی فون لکھ کر لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ کسی حادثے یا گمشدگی کی صورت میں اسے فوراً اطلاع دی جاسکے۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور آپ کو کوئی بھی جانور گلی کوچوں میں آوارہ پھرتا نظر نہیں آئے گا۔ اگر نظر آ بھی جائے تو فوراً پولیس حرکت میں آ جاتی ہے اور گمشدہ یا بغیر مالک کے جانور کو کسی شیلٹر ہوم میں بھیج دیا جاتا ہے اور وہاں اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

امریکہ میں پالتو جانوروں کے لیے بڑے بڑے ہسپتال بنائے گئے ہیں۔ وہاں انسانوں کی طرح گھر کے کتے بلیوں کی صحت کے لیے انشورنس کروانے کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ امریکہ میں سروس اینمل کا تصور بہت اہم ہے جس کے ذریعے ضرورت مند انسانوں کی مدد کی جاتی ہے۔ سروس اینمل میں کتے سر فہرست ہیں جن کو مقامی قوانین کے تحت خاص حقوق حاصل ہیں۔ انہیں کسی بلڈنگ، ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ہم آئے روز سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز دیکھتے ہیں جن میں حادثے کی صورت میں خدمت گار جانور اپنے مالکوں کی جان بچاتے ہیں۔ خاص طور ہارٹ اٹیک کی صورت میں مالک کی مصنوعی سانسیں بحال رکھنے میں کتوں کو خاص قسم کی ٹرینگ دی جاتی ہے۔

میں نے ذاتی طور پر کچھ ایسے مناظر دیکھے اور کہانیاں سنیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے امریکی لوگ اپنے پالتو جانوروں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ میں ایک ایسی امریکی خاتون کو جانتا ہوں جو اپنے مخصوص حالات اور ذہنی کیفیت کی وجہ سے خود کشی کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی تھی لیکن جب بھی وہ اپنی جان لینے کا ارادہ کرتی تو اپنے پالتو کتے کا سوچ کر اپنا خیال بدل لیتی۔ وہ اس چھوٹے سے چو آوا نسل کے کتے کو بچپن سے اپنے بچوں کی طرح پال رہی تھی اور اس کے ہاں کوئی انسانی اولاد نہیں تھی۔

اسی خاتون نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ وہ امریکہ کی عدالت میں جا کر اپنے کتے کو اپنی اولاد جیسے حقوق دلانے کا مقدمہ دائر کرے کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ اس کا کتا اس کی اولاد کی طرح ہے، وہ اس کے ساتھ وہی جذباتی لگاؤ رکھتی ہے جو ایک انسان کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر کیوں نہ اسے ایک اولاد جیسے حقوق بھی حاصل ہوں۔ خیر جہاں تک مجھے معلوم ہے ابھی تک کسی عدالت میں یہ دعوی دائر نہیں کیا گیا اگر ایسا ہو جاتا تو پھر دنیا کے عدالتی نظام میں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہوتا۔

اسی طرح مجھے ایک تجربہ کار امریکی خاتون کا انٹرویو لینے کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور وہ صحت کے شعبے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی شاہانہ زندگی بسر کر رہیں تھیں۔ انہوں نے مہمان نوازی کی خاطر مجھے آئس کریم پیش کی۔ ابھی ہم آئس کریم کھانے کے مزے لے ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ کے دو چھوٹے چھوٹے سے پیارے کتے ڈرائنگ روم میں آ کر ان کی گود میں بیٹھ گئے۔ ہماری میزبان خاتون نے اپنے حصے کی آدھی آئس کریم بچائی اور جس برتن میں وہ خود کھا رہیں تھیں وہی کتوں کے سامنے رکھ دیا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، آپ ان جانوروں کے لیے الگ سے باؤل بھی استعمال کر سکتی تھیں۔ ان کے جواب نے مجھے اور بھی حیران کر دیا، ان کا یہ ماننا تھا کہ ایک برتن میں کھانے سے انسانوں اور جانوروں میں پیار بڑھتا ہے۔

میری زندگی کا ایک اور بہت یاد گار مشاہدہ ہے جس سے امریکی قوم کا اپنے جانوروں سے محبت کا ثبوت ملتا ہے۔ میں ایک گھر میں مہمان تھا تو صاحب خانہ مجھے اپنی ذاتی لائبریری اور قدیم اشیاء دکھا رہے تھے۔ وہاں شو کیس میں ایک گولڈن رنگ کی چھوٹی سی ڈولی بھی موجود تھی جس پر کسی کے مرنے کی تاریخ اور نام لکھا ہوا تھا۔ میرے متجسس چہرے کو دیکھ کر ان صاحب نے بتایا کہ یہ ان کے ایک وفادار کتے کی ارتھیاں ہیں جس کی لاش کو cremation کے بعد یادگار کے طور پر گھر کے چھوٹے سے میوزیم میں سجایا گیا تھا۔

ایک مرتبہ مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ آؤٹ ڈور کیمپنگ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ چار جولائی، امریکہ کی آزادی کا جشن منانے کا دن تھا۔ میرے سمیت وہاں موجود سبھی لوگوں اپنی سروں، سینے اور لباس پر امریکہ کے جھنڈے سجائے ہوئے تھے۔ وہاں ہر رنگ، نسل اور قومیت کے لوگ خوب ہلہ گلہ کر رہے تھے مگر ایک فیملی کا کتا سب کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا تھا۔ اس کالے رنگ کے کتے کے گلے میں امریکہ کا جھنڈا بطور سکارف باندھا گیا تھا۔

آؤٹنگ کے لیے آئے ہوئے سب بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں، اس امریکن ڈوگ کے ساتھ اپنی اپنی سیلفیاں بنوا رہے تھے۔ ہم بھی گھومتے گھماتے کتے کے مالک کے پاس چلے گئے اور ہیلو ہائے کرنے کے بعد اس کے کتے سے متعلق باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں نے پوچھا کہ آپ نے کتے کے گلے میں یہ امریکی جھنڈا کیوں باندھا ہوا ہے۔ کیا اس سے قومی پرچم کے پروٹوکول میں کوئی فرق تو نہیں پڑتا کیونکہ یہی وہ جھنڈا ہے جس میں ملک کے لیے جان دینے والے بہادروں کو لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ امریکہ میں اس حوالے سے کیا قانون ہے لیکن اگر ایسا فعل ہمارے ملک میں سرزد ہوتو شاید فاعل کو غداری کے مقدمہ کا سامنا بھی کرنا پڑے۔

میرے پاس اس موضوع پر لکھنے کے لیے بہت سی کہانیاں ہیں لیکن اتنا عرض کرتا ہوں کہ کمشنر صاحب نے اپنے گمشدہ کتے کی تلاش کے لیے جو اقدام اٹھائے وہ ان کی اپنے پالتو جانور سے محبت کا ثبوت ہے۔ تلاش گمشدہ کے لیے ان کے طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جو لوگ کسی جانور سے اتنا پیار کرتے ہیں یقیناً وہ تعریف کے مستحق ہونے چاہئیں۔ کاش ہمارے ملک میں بھی ایسے قوانین وضع کیے جائیں جس سے انسانوں کے حقوق کے ساتھ جانوروں کی سلامتی اور صحت کا خیال بھی رکھا جائے۔

مجھے وہ دن نہیں بھولتے جب میں ملک کی کسی بڑی یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں گلگت بلتستان میں کام کر رہا تھا۔ اچانک گلگت شہر اور نواحی علاقوں سے آوارہ کتوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی۔ معلوم ہوا کچھ لوگ آوارہ کتوں کو پکڑ پکڑ کر ایک ڈیم پر کام کرنے والے پڑوس ملک سے آئے ہوئے مزدوروں کو کھانے کے لیے بیچ رہے ہیں۔ لاہور کے ریسٹورانٹ کی خبریں ہمارے سامنے ہیں۔ کراچی میں آوارہ کتوں کا انسانی بستیوں پر حملے کی خبریں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ حالیہ اوکاڑہ میں بے چاری بکری کے ساتھ ہونے والے ظلم کو دیکھیں، پھر بقر عید کے دنوں میں معصوم جانوروں کو کلاشنکوف سے مارنے کے مناظر بھی وحشت ناک تھے۔ اس لیے ہمارے ہاں جانوروں کے تحفظ کی صورتحال پر زیادہ بات کرنا، اپنا خون جلانے کے مترادف ہے۔

ہمارے ملک کی تاریخ دیکھیں تو قائداعظم ؒ کی اپنے کتوں کے ساتھ تصویریں بہت یادگار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب چونکہ خود بھی پالتو کتے اور جانور رکھنے کے شوقین ہیں تو ان سے گزارش ہو گی کہ وہ انسانی پناہ گاہوں کی طرز پر لاوارث اور بے گھر جانوروں کے لیے بھی محفوظ آماجگاہ ہیں بنائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، جس ملک میں چڑیا گھر کے جانور بھوکے مر رہے ہوں وہاں آوارہ جانوروں کے لیے شیلٹر ہوم بنانا مشکل کام ہو گا لیکن اس کام کو سرانجام دینے کے لیے کئی صاحب دل اور صاحب ثروت خواتین و حضرات بھی آگے آ سکتے ہیں۔ بس حکومت کو جانوروں کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی، اپنے ملک کے شہریوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے حکومت اور پاکستان دونوں کا امیج بہتر ہوگا اور مخلوق خدا کا بھلا بھی ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments