”اچھے دنوں“ کا انتظار کوئی شہباز شریف سے سیکھے


سیانے کہتے ہیں کہ اقتدار کے بے رحم کھیل میں امید محض ایک اضافی رویہ ہے۔ ٹھوس اعتبار سے یہ کامیابی کو یقینی بنانے والی حکمت عملی کی تشکیل میں مددگار ثابت نہیں ہوتا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے صدر مگر اپنی جماعت کو ایک بار پھر اقتدارمیں لانے کے لئے محض امید پر ہی کامل انحصار کرتے نظر آرہے ہیں۔

طویل اور پراسرار خاموشی کے بعد انہوں نے میرے بہت عزیز اور سینئر صحافی سلیم صافی کو انٹرویو دیا ہے۔ پیشہ وارانہ اعتبار سے میرا فرض تھا کہ مذکورہ انٹرویو کی بابت کچھ لکھنے سے قبل میں اسے سکرین پر دیکھتا۔ شہباز صاحب کی ان کہی باتوں کو ان کی بدن بولی کے ذریعے جاننے کی کوشش کرتا۔ ٹی وی دیکھنا عرصہ ہوا تاہم میں نے چھوڑ رکھا ہے۔ غالباً ان چہروں سے شدید حسد میں مبتلا ہو چکا ہوں جو ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوں تو اپنے چینل کے لئے Eye Ballsکا ہجوم جمع کرلیتے ہیں۔ میرا چہرہ اس تناظر میں پرکشش ثابت نہیں ہوا۔ جس چینل پر نمودار ہوتا تھا اس نے مالی بحران سے نجات حاصل کرنے کے لئے مجھے گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کر دیا۔ اس کی بدولت ہوئی ذلت نے ٹی وی سکرین سے دل اچاٹ کر دیا ہے۔ ”انگور کھٹے ہیں“ والا معاملہ۔

شہباز صاحب نے مگر سلیم صافی کو جو انٹرویو دیا وہ روزنامہ جنگ نے پیر کی صبح چھپے اخبار میں لفظ بہ لفظ چھاپا ہے۔ انگریزی میں اس عمل کو ٹرانسکرپشن کہتے ہیں۔ میں نے صبح اٹھتے ہی دوبار اسے بہت غور سے پڑھا ہے۔ شہبازصاحب رپورٹر یا اینکر کو پنجابی محاورے والی پکڑائی نہیں دیتے۔ کسی بھی سوال کا براہ راست جواب دینے سے کنی کتراتے ہیں۔ آپ شمال کا ذکر رہے ہوں تو نہایت معصومیت سے توجہ جنوب کی جانب مبذول کردیتے ہیں۔ سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہی رویہ اختیار کیے رکھا۔ کلیدی ”خبر“ ان کے انٹرویو کے ذریعے اگرچہ یہ ملی ہے کہ انہوں نے آزاد کشمیر کے حالیہ انتخاب اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں اپنی جماعت کی شکست کے بعد شرمساری یا غصے سے مغلوب ہو کر استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں بے پرکی اڑائی گئیں۔ وہ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے صدر تھے اور رہیں گے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ بھی نہیں چھوڑیں گے۔

یہ پیغام دینے کے بعد ان کے لئے لازمی تھا کہ میرے جیسے عام پاکستانی کو یہ بھی بتادیتے کہ ان کی جماعت کا حتمی بیانیہ کیا ہے۔ ترجیح مفاہمت کودینا ہے یا مزاحمت کو۔ اس سوال کا واضح جواب دینے کے بجائے وہ کسی ماہر لسانیات کی طرح مزاحمت اور مفاہمت والی تراکیب کے وسیع تر مفہوم پر توجہ دلاتے رہے۔ اپنے بڑے بھائی کی سوچ کو انہوں نے ہرگز رد نہیں کیا۔ تاثر بلکہ یہ دیا کہ ماضی کو بھلادینے کی خواہش نواز شریف صاحب کے ذہن پر بھی حاوی ہے۔ وہ مگر انسان بھی ہیں۔ کبھی کبھار سخت زبان اور لہجہ اپنا لیتے ہیں۔ اسے نظرانداز کر دینا چاہیے۔ لندن میں مقیم نواز شریف کی جذبات سے مغلوب ہوئی سخت زبان پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے غور بلکہ اس امر پر کیا جائے کہ مسلم لیگ (نون) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوتے ہوئے شہباز صاحب خود کیا چاہتے ہیں۔

نظر بظاہر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ماضی کو بھلاکر آگے بڑھاجائے۔ غالباً ان کی جماعت کے سنجیدہ اور تجربہ کار رہ نماؤں کی اکثریت بھی ایسی ہی تمنا کی حامل ہے۔ اگر میری جانب سے اخذ کردہ یہ تاثر درست ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ مسلم لیگ (نون) اس خواہش کے باوجود اتنی کنفیوژ اور پریشان کیوں نظر آ رہی ہے۔

شہباز صاحب نے ملکی سیاست کی موجودہ صورتحال کی بابت اپنا ورژن کھل کر بیان نہیں کیا۔ شمال کی بابت ہوئے سوال کا جنوب کے ذکر سے عادت کی بدولت مگر نومبر 1997 میں چلے گئے۔ اس مہینے ان دنوں کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نواز شریف کی دوسری حکومت کو اس کے قیام کے چند ماہ بعد ہی فارغ کرنے کی ضد میں مبتلا دکھائی دے رہے تھے۔ سردار فاروق لغاری اس مہینے صدر پاکستان تھے۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فارغ کیا تھا۔ اس کے بعد قبل از وقت انتخاب ہوئے تو نواز شریف ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹ آئے۔ یہ منصب سنبھالتے ہی انہوں نے قومی اسمبلی اور وزیر اعظم کی برطرفی کا حق دینے والی آئینی ترمیم کا خاتمہ کرتے ہوئے فاروق لغاری کو بلکہ برطانیہ جیسا علامتی سربراہ مملکت بنا دیا۔ 58 ( 2 ) B کے اختیارات سے محروم ہوجانے کے بعد لغاری صاحب نے لیکن سجاد علی شاہ کا کھل کر ساتھ دیا۔

صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے مابین جاری کش مکش نے کئی لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ ان دنوں کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے ”قدم بڑھانے“ کی امید باندھ لیں۔ جنرل صاحب مگر رضا مند نہ ہوئے۔ فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کو ”ہیوی مینڈیٹ“ والے وزیر اعظم کے روبرو سرنگوں ہونا پڑا۔ وہ بالآخر اپنے عہدوں سے فارغ بھی ہو گئے۔ نواز شریف کے لئے اقتدار کی گلیاں ممکنہ حریفوں سے خالی ہو گئیں۔ جنرل کرامت بھی لیکن اپنی آئینی مدت مکمل نہ کر پائے۔ اکتوبر 1998 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ ان کی جگہ نامزد ہوئے جنرل مشرف سے بھی اگرچہ سویلین حکومت گزارہ نہ کر پائی۔ کارگل ہو گیا۔ نواز شریف اس کی وجہ سے ابھرے بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے امریکی صدر کلنٹن کے روبرو حاضری کو مجبور ہو گئے۔ بحران ”ٹل“ گیا تو شہباز صاحب کی فراست سے رہ نمائی حاصل کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا۔ 12 اکتوبر 1999 اس کے باوجود مگر ٹل نہیں پایا۔

شہباز صاحب ماضی کو بھلانا چاہتے ہیں مگر نواز شریف کی پہلی حکومت کی غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی سے فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کے ساتھ اپنے بھائی کی چپقلش کی داستان بھی تفصیلات سمیت دہراتے ہیں۔ اس کے بعد کارگل اور جنرل مشرف بھی انہیں بھولے نظر نہیں آئے۔ ماضی سے چمٹے ہوئے ہی وہ یہ دعویٰ کرنے کو بھی مجبور ہوئے کہ عمران خان صاحب موجودہ آرمی چیف کی میعاد ملازمت میں مبینہ طور پر خوش دلی سے اضافہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ اس ضمن میں جو نوٹی فکیشن جاری ہوا اس میں نظر بظاہر ”بددیانتی“ سے چند قانونی سقم رکھے گئے تھے۔ یہ ”سقم“ سپریم کورٹ کی مداخلت کا سبب ہوئے۔ بالآخر شہباز صاحب اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور معاونت سے پارلیمان نے متفقہ طور پر ایک قانون تاریخی عجلت میں پاس کرتے ہوئے مذکورہ ”سقم“ کو دور کیا۔

”سقم“ کو مبینہ ”بددیانتی“ سے جوڑتے ہوئے شہباز صاحب نے درحقیقت بنیادی پیغام یہ دیا ہے کہ وہ ان دنوں مایوس تو ہیں مگر نا امید نہیں۔ انہیں غالباً امید ہے کہ عمران خان صاحب ”ان“ کے ساتھ تعلقات میں کسی روز کوئی اور ”بددیانتی“ کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ ماضی کے برعکس لیکن بددیانتی اب برداشت نہیں ہوگی اور یوں شہباز صاحب اور ان کی جماعت کے لئے اقتدار میں واپسی کی راہ بھی نکل آئے گی۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ”اچھے دنوں“ کا انتظار کوئی شہباز شریف صاحب سے سیکھے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں مکمل طور پر جھکی ہوا میں قلم گھسیٹ تو ان سے کچھ سیکھنے کے قابل نہیں رہا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments