تقسیم کے وقت ریپ ہونے والی عورتوں کا لباس ناکافی تھا کیا؟


اگست کی آمد سوال اٹھاتی ہے!

کرنال؛

وہ سنکی اور خبطی سی خاتون تھیں! پہروں ایک ہی جگہ بیٹھی رہتیں، کبھی ہنستیں، کبھی روتیں اور کبھی آوازیں دیتیں،

”اری کانتا۔ ۔ ۔ رادھا۔ ۔ ۔ ۔ آشا۔ ۔ ۔ کہاں ہو، سنتی کیوں نہیں؟ شوبھا۔ ۔ ۔ رینوکا۔ ۔ ۔ رینا، کہاں چلی گئیں تم؟ ارے دیکھو، ماں کب سے آوازیں دے رہی ہے۔ اب نکل بھی آؤ جہاں چھپی بیٹھی ہو، دیکھو تو میں ہلکان ہو رہی ہوں“

وہ کرنال میں ہمارے گھر کے پچھواڑے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں اکیلی رہا کرتی تھیں۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر سارا دن اپنے آپ سے باتیں کرتیں، بچے ان سے ڈرتے ہوئے کبھی ان کے قریب نہ جاتے۔ کچھ بڑے ہوئے تو علم ہوا کہ وہ تقسیم میں ایسی تقسیم ہوئیں تھیں کہ کچھ حصہ لکیر کے ایک طرف رہ گیا اور جو بچ کے دوسری طرف پہنچا وہ ایک ریزہ ریزہ وجود تھا۔

چھ بیٹیوں اور رئیس شوہر کے ہمراہ وہ ملتان میں اپنی حویلی میں ٹھاٹ باٹھ سے رہا کرتی تھیں۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن، اپنے ہی دیس میں بھلا کس بات کی فکر؟ لیکن اس وقت سب نے آنکھیں پھیر لیں جب انسانیت کے بیچ میں مذہب آ گیا۔ باہر حملہ آور دیوان صاحب کی دولت اور چھ بیٹیوں کے سرور میں حویلی کے گرد گھیرا تنگ کر رہے تھے اور اندر دیوان صاحب کچھ اور ہی سوچے بیٹھے تھے۔

کانتا، رادھا، آشا، شوبھا، رینوکا اور رینا کا گلا کاٹنا ہی پرکھوں کی عزت بچانے کا آخری حل تھا۔ چھ بیٹیوں کو ذبح کرنا آسان نہیں تھا لیکن باہر وحشی ہجوم کے ہتھے چڑھنے سے بہتر تھا۔ جب تک حویلی کا دروازہ ٹوٹا، دیوان صاحب اپنا کام پورا کر چکے تھے۔ بے تاب ہجوم نے خون میں نہائے دیوان پہ مشتعل ہو کے تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔

نہ جانے کانتا، آشا اور رینوکا کی ماں ملتان سے کرنال تک کیسے پہنچیں؟
( راوی۔ ڈاکٹر مینو)

لاہور ؛

میں سینتالیس میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ ہر روز خبر آتی کہ مشرقی پنجاب سے لوگ لٹی پٹی حالت میں ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچ رہے ہیں۔ ایک کیمپ بادامی باغ کے قریب لگایا گیا تھا جہاں ٹرین سے زخمیوں کو اتار کے لایا جاتا اور طبی امداد فراہم کی جاتی۔ مردہ لاشیں تدفین کے لئے بھیج دی جاتیں۔

ہمیں وہاں نرسوں کی مدد کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس صبح کا منظر میں زندگی بھر نہیں بھول سکا۔ تین نرسیں چاروں طرف زمین پہ لیٹی زخمی عورتوں کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں۔ سسکتی کراہتی دم توڑتی ہوئی بچیاں، لڑکیاں اور عورتیں، شکستہ جسم، مضروب اعضا، کپڑوں کی جگہ چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی۔ میں کیسے بتاؤں کہ ہم نے کیا دیکھا جب ہم نے ایک اوندھے پڑے ہوئے جسم کو سیدھا کیا۔ بے نور آنکھوں کے ساتھ چھاتی پہ پستانوں کی جگہ دو سوراخ تھے جن پہ خون جم چکا تھا اور مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ میرے ساتھ والی نرس نے مجھے فوراً دوسری طرف دیکھنے کو کہا تھا لیکن میں اس سے پہلے ہی ابکائیاں لے رہا تھا۔

( راوی۔ ڈاکٹر احسان کاظمی)

سیالکوٹ ؛

”ان دنوں فضا میں خوف و ہراس، بے یقینی اور وحشت تھی اور کچھ علم نہیں تھا کہ زندگی کیا رنگ دکھائے گی۔ بیٹھک میں سب مردوں کی گھنٹوں میٹنگ ہوتی اور ہتھیار اکٹھے کیے جاتے۔ ابا جی جب اندر آتے تو اماں اور تائی اماں کے ساتھ کھسر پھسر کرتے۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں بوکھلائی ہوئی پھرتیں۔

میں پندرہ برس کی ہونے والی تھی۔ اماں مجھے اور چھوٹی دو بہنوں کو دیکھتیں اور آہ بھر کے سر جھکا لیتیں۔

اس دن آسمان کا رنگ کچھ عجیب سا تھا۔ سرخی مائل مٹیالا، کہیں کوئی پرندہ نظر نہیں آتا تھا، درختوں کے پتے بھی ساکت تھے۔ گھر کے سب مرد اکٹھے ہو کر گاؤں کے باہر جا رہے تھے۔ اطلاع پہنچی تھی کہ بلوائیوں کا ایک جتھا ہمارے گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گھر کی سب عورتیں پچھلی کوٹھڑی میں بند ہو گئیں تھیں۔ سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو سمجھایا جا رہا تھا کہ اگر بلوائی گھر تک آ پہنچے تو ہمیں اپنے آپ کو کیسے ختم کرنا ہو گا؟“

( راوی عظمت سیدہ)

تھوہا خالصہ، کہوٹہ، راولپنڈی ؛

مارچ سینتالیس کے دن تھے جب سکھ اکثریتی گاؤں تھوہا خالصہ پہ اردگرد کے علاقوں سے مسلمان جتھوں نے ہلہ بول دیا۔ جہاں سکھ مردوں نے مقابلہ کرنے کی ٹھانی وہاں عورتوں کے لئے فیصلہ ہوا کہ ان کی عزت کو داغ لگنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے گاؤں کے کنویں میں کود کے اپنی زندگی ختم کر لیں۔ نو مارچ کی شام تقریباً نوے عورتوں نے ریپ ہونے کے ڈر سے اس کنویں میں چھلانگ لگا کے اپنی زندگی ختم کی۔ ایک نوعمر عینی شاہد کے مطابق وہ سسکیاں بھرتی ہوئی آتیں، آہ بھر کے آسمان کو دیکھتیں اور کنویں میں کود جاتیں۔ کچھ کی گود سے ننھے منے بچے بھی لپٹے ہوئے تھے۔

کیا ہم منافق ہیں؟

تقسیم میں لکیر کے دونوں طرف تقریباً ایک لاکھ عورتیں بربریت کا شکار ہوئیں اور کوئی آج تک جان نہیں سکا کہ کس قاعدے اور کس قانون کے تحت ان کی زندگیاں اجڑ گئیں۔ روندنے والے کبھی کسی کٹہرے میں نہ لائے گئے نہ ضرورت سمجھی گئی۔ تاریخ کے اس المیے پہ بات نہ کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ آج ریپ کو عورت کے لباس سے جوڑ کے ان سب عورتوں کے وجود کو جھٹلا دیا گیا ہے جن کے وجود اس مٹی میں مٹی ہو گئے۔

ان درد ناک کہانیوں سے دونوں طرف کا معاشرہ بھی اپنا دامن جھاڑ کے علیحدہ ہو گیا کہ عورت کے جسم اور زندگی کی قربانی کو کیا ہی جی کا روگ بنایا جائے۔ زمانہ قدیم سے عورت مال غنیمت ہونے کی قیمت چکاتی آئی ہے سو تقسیم میں کیا انہونی؟

ہمارے جیسا ہی ایک دیوانہ ان کہانیوں کو اپنے خون جگر سے قلم بند کرتے ہوئے اپنی انگلیاں فگار کر بیٹھا۔ امید لگائے بیٹھا تھا کہ شاید کچھ اور اس جیسے دیوانے مل کر اس کالک کو دھونے کی کوشش کریں گے مگر وہ یہ بھول گیا کہ احساس اور درد کی دولت ہر کسی کا نصیب نہیں ہوا کرتی۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ اندھوں کے شہر میں آئینہ لے کر گھومنے والا ہی مجرم بنا اور فحاشی کا تمغہ سینے پہ سجا لیا۔ کیا کوئی ذی ہوش منٹو کو خبطی شرابی اور فحش قرار دے سکتا تھا جس کے گھر کی عورت اتنی بار ریپ ہوئی ہو کہ اس کے بعد ”کھول دو“ کے الفاظ کا ایک ہی مطلب سمجھتی ہو۔

المیہ یہ ہے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں ہم نے حقیقت سے منہ موڑتے ہوئے ریپ کی کہانیاں کہنے والے کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے فحش نگار کہا تھا اور آج بالکل اسی طرح ریپ کے ناسور کا علاج کرنے کی بجائے اس سے آنکھیں چراتے ہوئے ہم ریپ ہونے والی پہ اس کا بوجھ ڈالنے میں مصروف ہیں۔

مان لیجیے کہ عورت کا جسم اور زندگی ترازو کا وہ پلڑا ہے جو پدرسری نظام میں ہمیشہ ہلکا ہی رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments