پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی؟


آج کل کبھی نوجوانوں سے سیاست پر گفتگو کرنے کا موقع ملے تو اندازہ ہوتا ہے کے نوجوان نسل اس موضوع سے شدید اکتاہٹ کا شکار ہے۔ بزرگ افراد کے ساتھ بات چیت ہو تو ایسا لگتا ہے کے وہ ہر سیاستدان کو نکما، کاہل، فراڈ اور چور گردانتے ہیں۔ اور یہی سمجھتے ہیں کے اس قوم کی درستگی کا واحد حل ”ڈنڈا“ ہے۔ ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھا جائے تو سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات سے لے کر پارلیمنٹ میں ہونے والی طوفان بد تمیزی تک یہی محسوس ہوتا ہے کے اس ملک کی سب سے غلیظ چیز یہاں کی سیاست ہے۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر موجود بہت سے ”سینئر تجزیہ“ کار بھی عوام کو یہی سمجھا رہے ہوتے ہیں کے پاکستان میں جمہوریت ناکام ہے۔ اب سوال یہ ہے کے کیا واقعی پاکستان میں جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے یا میڈیا پر برپا ‏اس ہلڑ بازی کا مقصد عوام کو آئین، جمہوریت، پارلیمان، الیکشن، اور عوامی نمائندوں سے نفرت دلانا ہے۔ مقصد یہ کہ عوام خود کو اور سیاستدانوں کو ایسا نا اہل مان لیں جسے عسکری ڈنڈے کی اشد ضرورت ہے!

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے پہلے ہمیں دو بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔ پہلا سوال ”جمہوریت کی تعریف کیا ہے“ ؟ دوسرا سوال ”کیا پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی بھی ہے یا نہیں“ ؟ آپ پڑھے لکھے پروفیشنل افراد سے پوچھیں کے جمہوریت کی تعریف کیا ہے تو وہ الیکشن کے انعقاد کو ہی جمہوریت سمجھتے ہیں۔ بل فرض اگر الیکشن کا انعقاد ہی جمہوریت کہلاتا تو جنوبی افریقہ میں 1910 ء کے بعد تقریباً پون صدی الیکشن ہوتے رہے، لیکن بالآخر 1994 ء میں جا کر جنوبی افریقہ کو جمہوریت کا درجہ ملا!

جمہوریت کی عالمی درجہ بندی کرنے والے ادارے نے 167 ممالک کو ان ممالک کی جمہوریت کے حالات کے مطابق چار گروپس میں تقسیم کیا ہے جن میں بل ترتیب مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ حکومت، اور آمرانہ طرز حکومت شامل ہیں۔ 167 ممالک کی لسٹ میں ناروے اور آئس لینڈ مکمل جمہوریت کے گروپ میں بل ترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ جب کہ جنوبی افریقہ اور بھارت ناقص جمہوریت کے گروپ میں بل ترتیب پینتالیس اور تریپن نمبروں پر براجمان ہیں۔

جمہوری درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر ایک سو پانچ ہے، جب کہ پاکستان کو ہائبرڈ رجیم طرز حکومت والے ممالک کے گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔ ہائبرڈ رجیم میں وہ ممالک شامل ہیں جہاں عام انتخابات کا انعقاد آزادانہ اور شفاف طریقے سے نہیں ہوتا۔ ہائبرڈ رجیم والے ممالک میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے، عدلیہ آزاد نہیں ہوتی، کرپشن عام ہوتی ہے، میڈیا پر قدغن لگی ہوتی ہے، اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی۔ اس بات سے ہمیں ایک بات کی سمجھ تو آ گئی ہے کے پاکستان میں مکمل جمہوریت تو دور کی بات، یہاں کبھی ناقص جمہوریت بھی نہیں آئی۔

ہمارے ملک میں جمہوریت کیوں نہیں آئی یہ جاننے سے پہلے ہم سمجھتے ہیں کے جمہوریت کیا ہے۔ جمہوریت سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جہاں لوگ ان اہم فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا حق رکھیں جن کا تعلق ان کی زندگی سے ہے۔ اس نظام میں لوگوں کی رائے کی روشنی میں مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔ صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمائندے چنتی ہے، جو عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے ملک کو چلاتے ہیں۔ تاہم محض صاف شفاف انتخابات کا ہونا ہی جمہوریت کی واحد خصوصیت نہیں ہے۔

بنیادی انسانی حقوق کا احترام، کثیر جماعتی نظام، سیاسی رواداری، قانون کا احترام، جمہوری طرز حکمرانی، اور شہریوں کی انتخابی عمل میں شمولیت جیسے اصولوں کی پاسداری کے بغیر محض انتخابات کا انعقاد جمہوریت نہیں کہلاتا۔ جس ملک میں جمہوریت ان بنیادی اصولوں کے مطابق رائج ہو تو وہاں شہریوں کو انسانی وقار کا احترام، آزادی، برابری، عدل، اچھی حکمرانی، جان و مال کا تحفظ، اور اپنے منتخب نمائندوں کے احتساب جیسے حقوق ملتے ہیں۔ جمہوری عمل میں اختلاف رائے کا پایا جانا ایک صحتمندانہ علامت سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت میں ذات پات، رنگ، مذہب سے بالاتر، ملک کے تمام افراد برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ انصاف کے نظام میں ہر شخص یکساں جوابدہ ہوتا ہے۔ کسی فرد واحد یا ”محکمہ“ کو قانون کی نظر میں استثنٰی حاصل نہیں ہوتا۔

1954 ء میں گورنر جنرل ملک غلام محمد کے ہاتھوں دستور ساز اسمبلی کی برخواستگی کے بعد فوج اور بیوروکریسی کی نا تھمنے والی سازشوں کا باپ کھل گیا، جو آج تک جاری ہے۔ تب سے آج تک ملک کا سیاسی نظام اور پالیسی سازی مکمل طور پر مقتدر حلقوں کے کنٹرول میں ہے۔ حال ہی میں ہونے والے آزاد کشمیر کے عام انتخابات کی مثال لے لیجیے۔ انتخابات سے پہلے ہی کچھ تجزیہ کار انتخابات کے نتائج سے مطلق ہونے والے ”فیصلوں“ کو اشارتاً بتا چکے تھے، جو بعد میں درست بھی ثابت ہوئے۔

الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ سیاستدان نبیل گبول صاحب نے ایک ٹاک شو میں فرمایا کے ان کی سیاسی جماعت سے 16 سیٹوں کا وعدہ کر کے صرف 11 سیٹیں دی گئی، لیکن پھر بھی وہ صبر شکر کر رہے ہیں۔ جب میزبان نے پوچھا کے کس نے ان سے 16 سیٹوں کا وعدہ کیا تھا، تو نبیل گبول صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”ووٹرز“ نے۔ سیاست کا معمولی سا ادراک رکھنے والے افراد بھی جانتے ہیں کے ایسا وعدہ ووٹر تو نہیں کر سکتا، لیکن ”کوئی اور“ ضرور کر سکتا ہے۔

پاکستان کے ہائبرڈ نظام میں مکمل اجارا داری مقتدر حلقوں کی ہے، جب کہ سیاستدانوں کو محض عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے۔ جب تک ہر محکمہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کرے گا، پاکستان میں جمہوریت کے آنے کا کوئی امکان نہیں۔ عوام کے ووٹ کو عزت دیے بغیر، محض انتخابات کا ڈھونگ رچا کر ہم دنیا کی آنکھوں میں اس نام نہاد جمہوریت کی دھول نہیں جھونک سکتے۔ عالمی برادری میں گرتا ہوا قومی وقار، خطے کی مجموعی صورتحال، داخلی و خارجی سیکورٹی، اور بگڑتی ہوئی معیشت جیسے چیلنجز کے پیش نظر اس وقت ”اصل“ جمہوریت کے علاوہ پاکستان کو لاحق مسائل کا اور کوئی حل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments