فیصل آباد میں عورت مارچ کی اجازت نہ دینے پر ایمنسٹی کا اظہارِ تشویش


انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فیصل آباد میں خواتین کو ریلی نکالنے کی اجازت نہ دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا نے خواتین کو ریلی کی اجازت نہ ملنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیصل آباد میں عورت مارچ پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر تنظیم کو تشویش ہے۔

خیال رہے کہ یکم اگست کو خواتین، طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے فیصل آباد میں ریلی کا اہتمام کیا تھا، لیکن انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔

ایمنسٹی کی ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا دستور اور تمام اہم انسانی حقوق کے کنونشن پرامن اجتماع کے حق کا تحفظ کرتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ خواتین کو ریلی نکالنے کی اجازت کے علاوہ شرکا کو سیکیورٹی بھی دی جائے۔

ریلی کے منتظمین میں شامل علی سجاد، جو پیشے کے اعتبار سے اُستاد ہیں، نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کے بڑے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں خواتین کی سیاسی سرگرمیاں نسبتاً آسان ہیں، لیکن فیصل آباد میں ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔

علی سجاد نے الزام لگایا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں فیصل آباد میں خواتین کے خلاف کئی پر تشدد واقعات ہوئے جن کے خلاف شہر کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلبہ نے سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی کہ وہ فیصل آباد میں عورت مارچ منعقد کرنا چاہتے ہیں۔

علی سجاد نے کہا کہ فیصل آباد میں سماجی طور پر لڑکیوں کے لیے کسی بھی اجتماع کی کھل کر حمایت کرنا آسان نہیں تھا جس کے بعد لڑکیوں نے کچھ لڑکوں کو اِس مہم میں شامل کیا۔

علی سجاد کے مطابق خواتین کی ریلی کے انتظامات اُن کے ذمے تھے جس کے تحت یکم اگست بروز اتوار شام پانچ بجے پیپلز کالونی کے علاقے میں ایک ریلی نکالنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔

علی سجاد نے دعوٰی کیا کہ یکم اگست کو ریلی کی خواتین منتظمین میں سے ایک خاتون کو انتظامیہ کی جانب سے ٹیلی فون کر کے کہا گیا کہ اُنہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ جس پر انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور اُنہیں بتایا گیا کہ یہ ایک پرامن ریلی ہے۔

علی سجاد کے مطابق اِس پر انتظامیہ کے افسر سیخ پا ہو گئے اور اُنہیں ڈرانے دھمکانے لگے کہ اُن کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ وہ نقصِ امن کا خدشہ پیدا کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریلی سے متعلق اُنہوں نے انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا لیکن پھر بھی اُنہیں اجازت نہیں دی گئی۔

علی سجاد کہتے ہیں کہ اے سی فیصل آباد نے ہم سے زبردستی ایک بیانِ حلفی لیا جس میں ریلی ملتوی کرنے کا بیان تحریر تھا جس کے بعد اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا گیا۔

علی سجاد کے مطابق وہ فیصل آباد میں خواتین کے حقوق کے لیے ریلی تو ضرور نکالیں گے جس میں محرم کے باعث تاخیر ہو سکتی ہے۔

‘اجازت نامے کے بغیر ریلی نکالی جا رہی تھی’

دوسری جانب فیصل آباد انتظامیہ کے مطابق خواتین کی ریلی کے منتظمین کے پاس ریلی نکالنے کا اجازت نامہ نہیں تھا جس کے باعث اُنہیں روکا گیا۔

اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد ایوب بخاری کہتے ہیں کہ خواتین کی ریلی کے منتظمین نے ریلی نکالنے سے قبل نہ ضلعی انتظامیہ کو مطلع کیا اور نہ ہی پولیس کو ریلی کے بارے میں کوئی اطلاع دی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد سٹی ایوب بخاری نے بتایا کہ خواتین کی ریلی کے منتظمین نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک مہم شروع کر رکھی تھی۔ جس میں یکم اگست کی شام پانچ بجے ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کا علم ضلعی انتظامیہ کو 31 جولائی کی شب کو ہوا۔

اے سی سٹی فیصل آباد کے مطابق اگلی صبح ریلی کے منتظمین سے رابطہ کیا گیا اور ریلی نکالنے کی وجہ پوچھی گئی۔ ایوب بخاری نے بتایا کہ سرکاری طریقۂ کار کے مطابق جب بھی کوئی شخص یا تنظیم کوئی ریلی نکالتی ہے تو اس کے لیے مجاز اتھارتی سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ جس کے تحت ڈپٹی کمشنر یا مجاز اتھارٹی کسی بھی ریلی یا اجتماع کی اجازت دیتی ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے دستور کے مطابق پرامن مارچ ہر شہری کا حق ہے۔ ریلی کا علم ہونے پر انتظامیہ نے خود ریلی کے منتظمین سے رابطہ کیا اور کہا کہ ریلی نکالنے کے لیے باقاعدہ تحریری درخواست جمع کرا دیں۔ جس پر حکومت کو کوئی اعترض نہیں ہے۔

اے سی فیصل آباد کا مزید کہنا تھا کہ این او سی کے بعد ضلعی انتظامیہ اور پولیس شرکا کی سیکیورٹی اور ٹریفک پلان مرتب کرتی ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔

ایوب بخاری کے بقول خواتین کی ریلی کے منتظمین نے اُن کے دفتر میں بیانِ حلفی جمع کرایا جس پر تحریر تھا کہ وہ اجازت (این او سی) لینے کے عمل سے بے خبر تھے۔ جس کے بعد ریلی کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments