اور اب کرکٹ بھی کشمیر تنازع کی زد میں۔۔۔


مسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔ بھارت اور پاکستان نے 1947 سے لے کر اب تک تین جنگیں لڑی ہیں۔ بھارت اور چین بھی اسی خطے میں جنگ لڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کو وسیع پیمانے پر ایک ممکنہ ایٹمی فلیش پوائنٹ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان اختلافات کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ اب اس دشمنی نے کرکٹ کے کھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

کرکٹ دنیا کا دوسرا مقبول ترین کھیل ہے۔ بیس بال سے ملتا جلتا یہ کھیل اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جیو پولیٹیکل کشمکش کا یرغمال بن چکا ہے۔ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) بظاہر کچھ جنوبی افریقہ اور انگلش کرکٹرز کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منعقد ہونے والی لیگ میں کھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنوبی افریقہ کے کرکٹر ہرشل گبز نے گذشتہ ہفتے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بی سی سی آئی انہیں کشمیر پریمیئر لیگ میں کھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور علاوہ دیگر معملات کے یہ دھمکی بھی دے رہا ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر پریمیئر لیگ میں شرکت کی تو ان کے ہندوستان میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی (تاکہ وہ انڈین پریمیئر لیگ کے منفعت بخش مقابلوںمیں حصہ نہ لے سکیں)۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بی سی سی آئی کی مذمت کی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت نے کئی سال سے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیلی۔ تاہم بھارتی حکومت اس مرحلے پر بین الاقوامی کرکٹرز کو کشمیر پریمیئر لیگ میں کھیلنے سے روکنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟

ہندوستان اور پاکستان اس متنازع طور پر منقسم خطے کے اپنے اپنے زیر انتظام حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں ان ممالک کی افواج موجود ہیں۔ (اس خطے کا ایک حصہ، اکسائی چن، چین کے زیر کنٹرول ہے۔) اتفاق سے ایسا ہے کہ کرکٹ کشمیر کے دونوں حصوں میں مقبول ترین کھیل ہے۔

بھارت کو خدشہ ہے کہ پاکستان اس متنازع علاقے کے اپنے زیر انتظام حصے میں کرکٹ کا ایک بین الاقوامی ایونٹ منعقد کر کے سیاست کھیل رہا ہے۔ کشمیر پریمیئر لیگ 6 اگست کو شروع ہونے والی ہے یعنی 5 اگست کے صرف ایک روز بعد- اور اس تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ 2 سال قبل 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ دہلی نے نہ صرف اس علاقے کو اپنی خودمختاری سے محروم کیا بلکہ ان دفعات کو بھی ختم کر دیا جن کے تحت غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ پاکستان اور چین، دونوں نے بھارتی حکومت کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔ گزشتہ برس بھارت نے 5 اگست سے پہلے ممکنہ احتجاج روکنے کے لیے اپنے زیر انتظام حصے میں کرفیو نافذ کیا تھا۔

خود بھارتی فوج ماضی میں کچھ کرکٹ ایونٹس کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ جن میں کرکٹ اسٹارز کو کشمیر میں فوجیوں سے ملنے کی دعوت دینا بھی شامل ہے۔ بھارتی حکومت کرکٹ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے کیونکہ یہ کھیل آزادی کے حامی عسکریت پسندوں میں بھی مقبول ہے۔ کشمیری مقتول عسکریت پسندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اکثر کرکٹ میچوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان نے کرکٹ کو فروغ امن کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے نفرت انگیز قوم پرستی کا آلہ کار بنا ڈالا میں تبدیل کر دیا ہے۔ دونوں ممالک نے رواں سال کے اوائل میں اس پہاڑی علاقے کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن وہ کرکٹ لیگ کے حوالے سے تاحال کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر ان کے ممالک کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن دونوں نے کشمیری عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔

فریڈم ہاؤس کی رپورٹ (2021) میں کشمیر کے ہندوستان اور پاکستان کے زیر کنٹرول دونوں حصوں کو “آزاد نہیں” قرار دیا گیا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن کشمیر میں اس کے اقدامات اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 2018 سے منتخب اسمبلی موجود نہیں ہے اور اب یہ خطہ علاقہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بھی اپنی نمائندگی کھو چکا ہے۔

حال ہی میں پاکستانی کشمیر میں علاقائی پارلیمنٹ کے انتخابات ہوئے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا دعویٰ کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ پاکستانی کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران کشمیریوں کو خطے کی حیثیت کا فیصلہ کرنے میں مکمل آزادی کی پیشکش کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ خطے میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے پریشان نظر نہیں آتے۔ پچھلے ہفتے اس خطے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مقامی لوگوں کی ہلاکت پر احتجاج بھی کیا گیا۔ پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو بلیک آؤٹ کیا گیا۔ بنیادی طور پر، کشمیر کے دونوں حصوں میں جمہوریت شفاف نہیں ہے۔ ، جہاں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے بار بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دستاویزی شواہد پیش کر چکے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کو ادراک ہونا چاہیے کہ انسانی حقوق سے انکار اور سیاسی بنیادوں پر کرکٹ کا استحصال صرف انتہا پسندی پھیلائے گا جو کہ پہلے ہی پورے خطے میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ امریکی حکومت کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت اور پاکستان میں اگلے پانچ برس کے دوران بڑے پیمانے پر جنگ کا امکان موجود ہے۔ 2019 میں پلوامہ حملے کا ملزم کسی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتا تھا لیکن اس خودکش بمبار نے اپنے انفرادی فعل سے ہندوستان اور پاکستان کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔

ظاہر ہے کہ بھارتی حکومت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کشمیری عسکریت پسندوں میں شمولیت سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک اور خودکش حملہ دونوں ممالک کے درمیان تازہ بحران پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت نے چند ماہ قبل پاکستان کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کئے لیکن وہ کھلی بات چیت شروع کرنے سے گریزاں ہے۔ بھارتی کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے پتے کی بات کی ہے کہ اگر بھارت طالبان سے بات کر سکتا ہے تو پاکستان سے کیوں نہیں؟

اگر بھارت باضابطہ بات چیت شروع نہیں کر سکتا تو اسے کم از کم اپنے کھلاڑیوں کو اپنے مدمقابل پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ میچوں میں حصہ لینے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ کشیدگی کم ہو۔ اگر مستقبل قریب میں بھارت پاکستان کرکٹ سیریز ممکن نہ ہو تب بھی دہلی کو کم از کم ہندوستانی کشمیر سے کرکٹ شائقین کو کشمیر پریمیئر لیگ کے میچ دیکھنے کے لئے سرحد پار آنے کی اجازت دینی چاہیے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کم از کم بھارتی حکومت کو بین الاقوامی کرکٹرز کو کشمیر پریمیئر لیگ کھیلنے سے روکنا نہیں چاہیے۔ نفرت کو نفرت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معجزہ صرف محبت ہی کر سکتی ہے۔ کشمیریوں کو سانس لینے کا موقع ملنا چاہیے۔

(بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments