مزدور تحریک کے بانی مرزا ابراہیم کی یاد میں


گیارہ اگست کو پاکستان کی ترقی پسند تحریک کے اہم ستارے اور مزدور تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کی 22 ویں برسی ہے، جو 11 اگست 1999 کو ملک کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، بالخصوص مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کرتے کرتے اپنے ساتھیوں، رفیقوں اور کامریڈوں سے جدا ہو گئے تھے۔ ان کا شمار برصغیر میں مزدور تحریک کے بانیوں میں ہوتا ہے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ریلوے مزدوروں کی تحریک کے بے تاج بادشاہ کے طور پر گزاری۔

ترقی پسندی اور ترقی پسند تحریک کی ابتدا سماجی زندگی کے آغاز سفر سے ہی ہو گئی تھی۔ زمانہ قدیم کا انسان جنگلوں اور غاروں سے نکل کر جب کھیتی باڑی کے دور میں داخل ہوا تو ایک طویل عرصہ تک اجتماعی سماجی زندگی یا ابتدائی اشتراکی عہد میں زندگی کی ارتقائی منازل طے کر رہا تھا۔ سماجی زندگی کی انہی ارتقائی منازل کے دوران نجی ملکیت نے جنم لیا تو غیر طبقاتی سماج طبقاتی معاشرے میں تبدیل ہو گیا۔ حاکم اور محکوم، آقا اور غلام، ظالم اور مظلوم کے تصورات متشکل ہوئے اور یہیں سے طبقاتی کشمکش اور چھنے ہوئے حقوق کے حصول کی اس طویل جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔

عہد غلامی کے بعد کرۂ ارض پر ایک مدت تک قبائلی سرداری اور جاگیرداری نظام کا داور رہا اور ہزاروں برس تک دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہت کا تسلط اسی نظام کا مظہر تھا۔ تاہم بقول علامہ اقبال ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“ یہ بادشاہتیں بھی ایک ایک کر کے دنیا کے نقشے سے معدوم ہوتی چلی گئیں اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ان کی جگہ سرمایہ داری نظام نے لے لی، جس کے باعث بنی نوع انسان جمہوری دور میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ آزادی، مساوات اور سماجی انصاف کے حصول کی جدوجہد زور پکڑتی چلی گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام، جس کی اساس محنت کے استحصال پر استوار ہے، کے خلاف انیسویں صدی کے وسط سے عالمی سطح پر جدوجہد جاری و ساری ہے۔

پاکستان میں مزدور تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم 1905 ء میں جہلم کے قریب قصبہ کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبد اللہ بیگ گاؤں کے ایک چھوٹے کسان تھے۔ کالا گجراں وہی گاؤں ہے جہاں نامور سوشلسٹ راہنما چاچا محمد دین، ڈاکٹر امام الدین، ان کی بیٹی باجی نسیم شمیم ملک اور نامور پنجابی شاعر درشن سنگھ آوارہ جیسی نامور ہستیوں نے جنم لیا اور پرورش پائی۔ مزدور راہنما کامریڈ لال خان کالا گجراں کے نواہی گاؤں بھٹیال میں پیدا ہوئے تھے، البتہ انہوں نے کالا گجراں کے پرائمری سکول میں ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ مرزا ابراہیم کے ایک بڑے بھائی مرزا اللہ دتہ چغتائی تھے، جو بعد ازاں پشاور سے اپنا اخبار نکالتے رہے اور ان کی ایک چھوٹی بہن عائشہ تھیں جن کا انتقال مرزا صاحب کے انتقال سے 2 برس بعد 2001 ء میں ہو گیا تھا۔

انقلابی راہنما مرزا محمد ابراہیم نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ سے حاصل کی، لیکن کٹھن گھریلو حالات نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ پہلے انہوں نے مقامی طور پر بطور مالی کام کا آغاز کیا، لیکن جلد ہی انہوں نے اینٹوں کے بھٹوں پر محنت مزدوری شروع کر دی۔ یوں ان کا بچپن مجموعی طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتے ہوئے گزرا، وہی اینٹوں کے بھٹے، جہاں نہ کوئی قانون لاگو ہوتا ہے، نہ کام کے اوقات کار اور نہ ہی کم از کم اجرت مقرر ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھٹہ مزدوروں پر مالکان کی جانب سے مسلط بونڈڈ لیبر، جس میں کمزور معاشی حالات میں جکڑے ہوئے غریب مزدوروں کو ایڈوانس رقم دے کر ان کے تمام کنبے کو غلام بنا لیا جاتا ہے اور چھوٹے بچوں تک سے مشقت کروائی جاتی ہے، کی وجہ سے ہمارا ملک اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں بدنام ہے۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے برصغیر میں محمد علی جوہر کی قیادت میں جاری خلافت موومنٹ میں حصہ لینا شروع کر دیا۔

بعد ازاں 1926 میں انہوں نے اپنے زمانے کی مشہور برج ورکشاپ جہلم میں بطور ہیلپر ملازمت کر لی۔ یہ متحدہ ہندوستان ریلوے کی ایک بڑی اور تاریخی فیکٹری تھی، جہاں سٹیل سے ریلوے کے پل بنانے کے علاوہ سٹیل کو پگھلا کر بڑے بڑے سلیبز کاسٹ کیے جاتے تھے۔ اینٹوں کے بھٹوں کی طرح یہ بھی انتہائی مشقت والا کام تھا، البتہ کام کے اوقات کار طے تھے اور تنخواہ مقرر تھی۔ یہی وہ فرق تھا جسے سمجھنے کی جستجو نے مرزا ابراہیم کو مزدوروں کو انجمن سازی یعنی ٹریڈ یونین کا شعور دیا اور انہوں نے باقاعدہ طور پر یونین میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت تک ریلوے میں ایک منظم یونین بن چکی تھی، جس کی بنیاد تو 1920 ء میں رکھی گئی تھی، البتہ اس کا محرک 1911۔ 1910 ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں کی ہڑتال اور مظاہرے تھے، جو وقت کے ساتھ مسلسل بڑھتے گئے اور مزدوروں میں انجمن سازی کے شعور اجاگر کرتے گئے۔

اسی دوران 1917 ء میں روس کے محنت کشوں نے لینن کی قیادت میں انقلاب برپا کر دیا، جس نے دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سماجی تبدیلی سے دنیا بھر کے محنت کشوں میں ایک نیا ولولہ پیدا ہو گیا۔ سامراج سے آزادی کی تحریکیں ابھرنے لگیں اور ملک بھر میں مزدوروں، کسانوں، ادیبوں اور نوجوانوں کی انجمنیں بننے لگیں۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے برطانوی سامراج کی مقامی حکومت کو 1920 ء میں ریلوے مزدوروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس طرح ریلوے پیں یونین کی بنیاد رکھ دی گئی۔

ادھر برصغیر کے ترقی پسندوں نے مل کر 26 دسمبر 1925 ء کو کانپور میں ایک تاریخ ساز کانفرنس منعقد کر کے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھ دی۔ کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی ملک بھر میں مزدوروں کی انجمنوں کے باہمی رابطے بڑھے، تربیت کا عمل شروع ہوا۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال نے ملکی سطح پر ایک منظم تحریک کو جنم دیا اور بدیشی سرکار کو مزدوروں کی انجمن سازی کے لیے قانون سازی پر مجبور کر دیا۔ ملک بھر میں مزدور تحریک میں اس قدر قوت آئی کہ برطانوی سامراج کو 1926 ء میں ملک میں پہلا ٹریڈ یونین ایکٹ بنانا پڑا، جس سے ملک بھر میں مزدوروں کو انجمن سازی کا باقاعدہ حق مل گیا۔

ریلوے کی برج ورکشاپ جہلم میں نوکری پکی ہوتے ہی مرزا محمد ابراہیم یونین سازی میں جت گئے اور جلد ہی ایک ہونہار راہنما کے طور پر ابھرے۔ انہوں نے مزدوروں کو منظم کر کے ان کے حقوق کے لیے منظم جدوجہد شروع کی تو 1930 ء میں جہلم ورکشاپس کی مقامی انتظامیہ نے ان سے جان چھڑانے کے لیے ان کا ریلوے پاور ہاؤس کی شاپ ٹرین ہولڈنگ ورکشاپس لاہور میں تبادلہ کروا دیا۔ اس وقت ریلوے میں دو یونینیں کام کرتی تھیں اور مرزا محمد ابراہیم نارتھ ویسٹ ریلوے یونین میں سرگرم تھے۔

وہ جلد ہی ورکشاپ یونین کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کا شمار ریلوے یونین کے اہم راہنماؤں میں ہونے لگا۔ اسی دوران جے گوپال نامی ایک ہونہار نوجوان طالب علم وہاں آ کر بیٹھنے لگا۔ پہلے تو انہیں شک ہوا کہ وہ انٹیلیجینس اداروں کا بندہ ہے، لیکن تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہے اور پارٹی کی جانب سے مزدوروں کی انجمن ساری میں معاونت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ مرزا محمد ابراہیم ان دنوں تقریباً 26 برس کے نوجوان تھے اور جلد ہی ان کی اس نوجوان جے گوپال سے دوستی ہو گئی اور اس کے توسط سے کمیونسٹ پارٹی نے مرزا ابراہیم کی باقاعدہ تربیت شروع کر دی۔ سٹڈی سرکل شروع ہو گئے اور مزدور راہنماؤں کو سمجھایا گیا کہ سرمایہ کیا ہے، محنت کیا ہے، سرپلس ویلیو کیا ہے، سامراج کیا ہے، حکمران طبقات مذہب کو اپنے استحصال کا ہتھیار کیسے بناتے ہیں، کس طرح مزدور طبقہ جدوجہد کر کے اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تو مرزا صاحب 1930 ء میں ہی بن گئے تھے البتہ تربیتی عوامل اور عملی جدوجہد کے بعد پارٹی کے لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہو گئے۔ بعد ازاں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریلوے مینز یونین کے بنیاد رکھی تو مرزا ابراہیم اس کے مرکزی نائب صدر اور وی وی گری اس کے صدر منتخب ہوئے جو بعد ازاں برصغیر کے بٹوارے کے بعد ہندوستان کے صدر بھی رہے۔

اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف زبردست نفرت پائی جاتی تھی اور لوگ بغاوت کے راستے پر گامزن تھے۔ روس میں 1917 ء کے انقلاب کا براہ راست اثر کلونیل سسٹم پر پڑا تھا اور دنیا بھر میں سامراجی تسلط کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں میں زبردست ابھار آ گیا تھا۔ ادھر 1913 ء میں سوہن سنگھ بھکنا اور لالہ ہردیال کی قیادت میں امریکہ میں بننے والی غدر پارٹی کے نوجوان پہلی عالمی جنگ کے بعد وطن واپس آئے تو ہندوستان پیں بھی پارٹی کو منظم کیا گیا اور ہر طرف آزادی کے نعرے لگنے اور سرخ پرچم لہرانے لگے۔

بعد ازاں اسی کی کوکھ سے ابھرنے والی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی انقلابی تحریک مسلح مزاحمت میں بدلنے لگی اور 23 مارچ 1931 کو بھکت سنگھ، راج گورو، سکھ دیو اور ان کے ساتھیوں کو سینٹرل جیل لاہور میں پھانسی دے دی گئی تو مرزا ابراہیم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کا شعور گلیوں، فیکٹری اور ورکشاپس میں پروان چڑھا تھا اور اسی مارکسی شعور کے روشنی میں وہ تمام عمر ایک مجاہد کی طرح اپنے موقف پر ڈٹ کر ملک پر مسلط جاگیرداری و سرمایہ داری نظام اور افسرشاہی کے قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔

دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو حکمرانوں نے 1946 ء میں فیصلہ کیا کہ جنگ کے دوران ریلوے میں بھرتی کیے گئے عارضی ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا جائے۔ ملکی معیشت تو پہلے ہی جنگ نے تباہ کر دی تھی اور ملک میں بھوک، ننگ، بیماری اور بے روزگاری آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف ریلوے مینز فیڈریشن، جو اس وقت ریلوے کی نمائندہ یونین تھی، سخت احتجاج کیا۔ یہ ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا اور اس دوران دہلی میں پولیس نے ہڑتال کر دی تھی، جبکہ نیول فورس اور انبالہ میں رائل ائر فورس نے بھی بغاوت کر دی تھی۔ ادھر ریلوے مینز فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی تو یکم مئی 1946 ء کو زبردست جلسے جلوس ہوئے اور صبح 7 بجے سے 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کر دیا گیا۔ بعد ازاں 27 جون کو رات بارہ بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس بھی دے دیا گیا۔ اس طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

حکومتی دباؤ میں آ کر فیڈریشن سے ملحقہ بعض یونینز نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس نئی صورت حال سے نپٹنے اور مزدوروں کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان بھر کے مزدور نمائندوں پر مشتمل اسٹرائیک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ مرزا ابراہیم منتخب ہوئے۔ اسٹرائیک کمیٹی نے ملک بھر کے ریلوے مزدوروں کی نمائندگی کرتے ہوئے ووٹنگ کے جمہوری حق کا راستہ اپنایا، جس میں 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مزدوروں کے اتحاد کو بھی برقرار رکھا اور بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھے کر کے ہڑتال کو بھرپور طریقے سے کامیاب بنایا۔

مرزا ابراہیم برصغیر کے بٹوارے اور قیام پاکستان تک کمیونسٹ پارٹی کے مزدور ونگ کی قیادت کرنے لگے تھے۔ میں نے گزشتہ ہفتے مرزا صاحب کی تصویر حاصل کرنے کی غرض سے اپنے محترم ساتھی اور بزرگ مزدور راہنما منظور احمد رضی کو کراچی فون کیا تو انہوں نے نان سٹاپ بولتے ہوئے پانچ سات منٹ میں ہی مرزا ابراہیم کی زندگی کا خلاصہ سامنے رکھ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کے فوری بعد دانیال لطیفی کے گھر وزیراعظم لیاقت علی خان سے مرزا ابراہیم کی ملاقات ہوئی تو لیاقت علی خان نے پیشکش کی کہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں تو انہیں وزارت محنت کا قلمدان دے دیا جائے گا۔

انہوں نے اس پیشکش کے یہ کہ کر رد کر دیا کہ مسلم لیگ پر ان جاگیرداروں، نوابوں اور اشرفیہ کا قبضہ ہے جو پہلے انگریزوں کے شریک اقتدار تھے اب آزادی کے بعد پوری آزادی سے اپنے عوام کا خون نچوڑیں گے۔ ان کے اقتدار میں عوام کی حالت نہیں بدل سکتی۔ یوں ان کا قیام پاکستان کے صرف دو تین ماہ بعد ہی حکمرانوں سے ٹکراؤ ہو گیا اور انہیں دسمبر 1947 ء میں گرفتار کر لیا گیا۔ یوں مرزا محمد ابراہیم پاکستان کی تاریخ کے پہلے سیاسی قیدی بن گئے۔

بعد ازاں انہیں شاہی قلعہ لاہور منتقل کر دیا گیا تا کہ اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں تشدد کے ذریعے ان کو سیاسی راستہ بدلنے پر مجبور کیا جا سکے یا پھر وہ اپنی سیاسی وابستگی کی قیمت ادا کریں۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے بدترین ایذا رسانی اور ناکردہ گناہوں کے اعتراف کے لئے شرمناک ہتھکنڈوں کی دہشت ناک شہرت رکھنے والا یہ عقوبت خانہ برطانوی سامراج نے 1924 ء میں برصغیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور اس کے راہنماؤں کو اذیتیں دینے کے لیے قائم کیا تھا۔

مرزا ابراہیم لیبر یونین میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 1948 ء میں نارتھ ویسٹ ریلوے ورکرز یونین کے صدر منتخب ہوئے، جس کا نام بعد ازاں ریلوے ورکرز یونین پاکستان رکھ دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ نامور شاعر فیض احمد فیض نائب صدر اور سوشلسٹ راہنما سی آر اسلم جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ 1948 ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس کے موقع پر مرزا ابراہیم، سی آر سلم، سو ھوگیانچندانی، جمال الدین بخاری اور پروفیسر ایرک سپرین ڈیلیگیٹ منتخب ہوئے تھے، لیکن مرزا ابراہیم ریلوے کی تاریخی ہڑتال کی کال دینے کے باعث ایک بار پھر گرفتار کرلئے گئے۔

اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں الگ اور مغربی پاکستان میں الگ پارٹی ونگ قائم کیے جائیں۔ سید سجاد ظہیر کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا اور ایک سینٹرل کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پروفیسر ایرک سپرین، مرزا محمد ابراہیم، سی آر اسلم، سبط حسن، مرزا اشفاق بیگ، محمد حسین عطا، سوبھوگیانچندانی اور جمال الدین بخاری شامل تھے۔ 1948 ء میں ہی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد بھی رکھ دی گئی تھی جس کے مرزا محمد ابراہیم صدر منتخب ہوئے تھے۔

مرزا ابراہیم نے سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں تو انہیں 1950 ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کا پہلا الیکشن کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر جیل سے ہی لڑا، جس کی کیمپین پارٹی کے ساتھ ساتھ عوامی تنظیموں بالخصوص ریلوے ورکرز یونین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ساتھیوں نے بڑے منظم انداز میں کی۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ منظور احمد رضی کے مطابق مرزا صاحب تو اس وقت جیل میں تھے اور ان کی 1200 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی کا غیر سرکاری اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔

لیکن مرکزی حکومت نے مداخلت کی اور الیکشن رزلٹ روک دیے گئے اور اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ایس۔ ایس۔ جعفری تین دن تک بار بار گنتی کرواتے رہے اور بالآخر مرزا صاحب کے 2500 سے زائد ووٹ مسترد کر کے احمد سعید کرمانی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کے سب سے پہلے الیکشنز میں ہی ہمارے ملک کی ہونہار اسٹیبلشمنٹ نے جھرلو کا طریقہ دریافت کر لیا جو اپنی پوری شد و مد کے ساتھ اب تک جاری اور جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ احمد سعید کرمانی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں متعدد عوامی اجتماعات میں اس بات کا کھلا اعتراف کیا تھا کہ مرزا ابراہیم الیکشن جیت گئے تھے، انہیں تو سرکار نے زبردستی جتوا دیا تھا۔

بعد ازاں 1953 ء میں راولپنڈی سازش کیس بنا تو مرزا صاحب کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں بشمول پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان کسان کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور انجمن جمہوریت پسند خواتین کو خلاف قانون قرار دے کر پابندی لگا دی گئی۔ پارٹی کی ساری لیڈرشپ کو پس دیوار زنداں بھیج دیا گیا۔ رہائی کے بعد مرزا صاحب نے ریلوے ورکرز یونین کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اپنے آخری سانس تک ریلوے مزدوروں کی قیادت کرتے رہے۔

مرزا ابراہیم کو 17 مرتبہ گرفتار کیا گیا اور 6 مرتبہ بدنام زمانہ شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانوں میں تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 20 برس جیل کاٹی اور اپنے نظریات اور محنت کش طبقات سے وابستگی کی قیمت ادا کرتے رہے۔ انہیں چھت کے ساتھ الٹا اور برف کے بلاکوں پر لٹایا جاتا رہا اور ظالم حکمران الیکٹرک شاک دیتے رہے، جن سے ان کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہتا رہتا تھا۔

ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور حکومت میں 1967 ء کی ریلوے مزدوروں کی تاریخ ساز ہڑتال بھی ان کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے، جو 13 روز تک جاری رہی اور اس قدر کامیاب تھی کہ ملک بھر میں ایک ٹرین بھی نہ چل سکی۔ اس ہڑتال نے ایوب آمریت کے خلاف جاری تحریک کو بڑی تقویت دی اور مزدوروں کی جدوجہد میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔

دسمبر 1970 ء میں الیکشن ہوئے تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کا زور تھا اور مسٹر بھٹو نے مرزا ابراہیم کو پیش کش کی کہ وہ ان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انہیں قومی اسمبلی کی ٹکٹ دے دی جائے گی۔ مرزا ابراہیم نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

میری مرزا صاحب سے شناسائی تو بچپن سے ہی تھی کیونکہ وہ میرے والد محترم کے ساتھی تھے، لیکن مجھے 1983 ء میں انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ ملا تو میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر قریب ریلوے ورکشاپس چلا جاتا تھا۔ مرزا صاحب کے اس ریلوے کواٹر میں بھی اکثر آنا جانا رہتا تھا جہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزار رہے تھے۔ اسی زمانے کامریڈ چاچا محمد دین کے جنازے میں شرکت کے لیے میں مرزا صاحب کے آبائی گاؤں کالا گجراں گیا تو مرزا صاحب کا گھر بھی دیکھ کر آیا۔ چاچا محمد دین بھی مرزا صاحب کی طرح بہت ہی نفیس اور کمیٹڈ انقلابی تھے اور ان کی زندگی بھی قربانیوں کی الگ داستان پیش کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے پارٹی کے ہول ٹائمر تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام راولپنڈی پارٹی آفس کا نظام چلانے اور مقامی تنظیم کو منظم کرنے میں گزارے۔

ریلوے ورکشاپس میں پہلی مرتبہ 1975 ء میں ریفرنڈم ہوا تو ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی اور مزدوروں کے لیے سوداکاری ایجنٹ مقرر ہوئی۔ اس جیت نے مرزا ابراہیم کو اتنی قوت فراہم کی کہ وہ مزدوروں کے تحفظ کے لیے بہترین شرائط کے ساتھ چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروا سکیں۔ انہوں نے ریلوے ملازمین سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے لمبی اور کٹھن جدوجہد کی، جس کے لیے انہوں نے افلاس برداشت کی، خاندان کی بہبود، بچوں کی تعلیم، اور ان کی صحت کا غم سہا، اپنوں سے جدائی اور پھر جیل کے اندر جسمانی اور نفسیاتی تشدد برداشت کیا۔

مرزا صاحب نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریلوے مزدوروں کو جو حقوق دلوائے ان میں پینشن کا حق، گریجویٹی، میڈیکل، چھٹیوں میں اضافہ اور مزدوروں کے بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات کے علاوہ حق ہڑتال شامل تھے۔ وہ ساری زندگی ملک میں بھوک، ننگ، غربت، جہالت، بیماری اور بے روزگاری کے خلاف جنگ لڑتے رہے۔ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے لیے نہ ہی کوئی جائیداد بنائی، نہ کوئی پلاٹ یا گھر لیا بلکہ ساری عمر ریلوے کوارٹرز میں گزاری اور عام ہسپتالوں میں علاج کروایا۔ ان کی عظمت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے نظریات پر کبھی سودے بازی نہ کی۔ انہوں نے اپنی جوانی میں جن انقلابی نظریات کو اپنایا، ایک مخلص، بے باک اور پرعزم انقلابی کے طور پر اپنی آخری سانس تک اپنے ان پر ڈٹے رہے۔

مرزا ابراہیم آج ہم میں نہیں ہیں، لیکن انقلابی تحریک اب بھی زندہ اور جاری و ساری ہے اور وہ تحریک کی صورت میں ہمارے ساتھ ہیں اور راہنمائی کر رہے ہیں۔ آج تو ملک میں ہر طرف لوٹ مار کا راج ہے اور ملک کی 95 فیصد سے زائد عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں ٹھیکہ داری نظام نے ٹریڈ یونین تحریک کو کمزور کیا ہے۔ کچھ مزدور راہنما حالات سے سودا کر گئے ہیں اور کچھ تو ملٹی نیشنل کارپریشنوں کی فنڈنگ سے پراجیکٹس چلانے کے لیے این جی اوز بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔

ادھر سامراج بھی اپنی پوری قوت سے تیسری دنیا کے وسائل کا استحصال کر رہا ہے، اور آئے روز نئی جنگیں مسلط کر رہا ہے۔ ملکی سطح پر پاکستان ملٹری بیوروکریسی، جاگیرداروں اور ملاؤں کی ایک مضبوط تکون میں جکڑا ہوا ہے۔ اقتدار کی اس تکون میں قوت کے توازن کو بدلنے اور ایک مضبوط ترقی پسند، جمہوری سیاسی قوت کو بالادست بنانے کی ضرورت ہے، جو ایک نئی سیاسی قوت پیدا کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک ایسی قوت جو ملک کو جاگیردارانہ شکنجوں سے نجات دلوائے، ملکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی جدوجہد کرے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور امن کی بنیاد پر علاقائی معاشی رشتے قائم کرے اور مذہبی تعصبات کو سیاست اور حکومت پر غالب نہ آنے دے۔

ہتھیار بند جہاد کو نہ صرف وقتی ضرورت کے تحت بلکہ اصولاً رد کرے اور سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس کی حمایت ختم کرے۔ شہری اور دیہی محنت کشوں، نچلے اور درمیانے طبقے کے عوام اور کاروباری طبقات کے مفادات کا تحفظ کرے اور ان سب کا جمہوری سیاسی عمل میں حصہ یقینی بنائے۔ یہ سب طبقات اور ان کے تحفظ پر قائم سیاسی قوت ہی ایسی جمہوری قوت پیدا کر سکتی ہے جو ایک طرف ریاست کے کاروبار حکومت اور انتظامیہ کو جمہوری قدروں کے ماتحت کر سکے اور دوسری طرف دفاعی محکموں بالخصوص فوج کو ان قدروں اور آئین کی پاسداری پر مجبور کر سکے۔ اگر ہم ایسی سیاسی قوت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ تو سیاست اور جمہوریت کے معاملات کو عدالتوں سے طے کروانے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی نظریہ ضرورت ہمارے آئین کا حصہ رہے گا۔

آئیے ہم ایسی جمہوری تحریک پیدا کرنے پر کمر بند ہو جائیں اور ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کو منظم کریں۔ یہی تحریک قومی خودمختاری کی ضامن ہے اور ہمارے ملک کو سامراجی قوتوں سے بچانے اور ایک نئی دنیا کی تخلیق کے لیے عالمی تحریک کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس کے بغیر نہ تو کوئی تبدیلی ممکن ہے، نہ ترقی، اور نہ ہی محنت کش عوام کے حقوق۔ یہی مرزا محمد ابراہیم کا نظریہ تھا اور یہی ان کی جدوجہد تھی۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments