غریبوں کی جنت، پاکستان!


تیندوے کو انگریزی زبان میں لیپرڈ کہتے ہیں۔ یہ چیتے کی ایک نسل ہے جو اٹھاون ( 58 ) کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ جبکہ ہرن کے بھاگنے کی رفتار اسی ( 80 ) کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔ دیکھا جائے تو ہرن کے بھاگنے کی رفتار تیندوا سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جن احباب نے نیشنل جیوگرافک ٹیلیویژن چینل پر تیندوا کو کامیابی سے ہرن کا شکار کرتے نہیں دیکھا، ان کو ان اعداد و شمار کی مدد سے قائل کیا جا سکتا ہے کے کیوں کے تیندوا ہرن کے مقابلے میں بہت آہستہ دوڑتا ہے، اس لئے ایک تیندوا ساری زندگی ہرن کا شکار نہیں کر سکتا۔ حالانکہ یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ جب اعداد و شمار کو جان بوجھ کر ایسے پیش کیا جائے کے وہ گمراہ کریں تو اس کو اعداد و شمار کا مغالطہ کہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سی بڑی کمپنیاں اپنے کاروباری فائدے کے لئے ایسے مغالطوں کو استعمال کرتی ہیں۔

چند دن قبل وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے قوم کو خوشخبری سنائی کہ مہنگائی کی عالمی درجہ بندی کرنے والے ایک ادارے نے پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دیا۔ یہ ٹویٹ پڑھ کر بہت دیر سوچتا رہا کہ ایک طرف تو قوم کو یہ خوشخبری دی جا رہی ہے کے پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ غریبوں کی جنت۔ لیکن دوسری طرف ہر ہفتے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر غریب افراد کی اپنے بچوں سمیت خودکشی کی خبریں نظر آتی، اور ان خودکشیوں کی وجہ بھوک اور غربت بتائی جاتی ہے۔ اگر پاکستان سستا ترین ملک ہے تو پھر لوگ بھوک سے تنگ آ کر خودکشی کیوں کرتے ہیں۔ آبادی کا ساڑھے پانچ فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کیوں؟

پڑھائی اور نوکری کے سلسلے میں کچھ سال سویڈن اور ناروے میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ مہنگائی کی عالمی درجہ بندی کے مطابق یہ دونوں مہنگے ترین ممالک میں شامل ہیں۔ سویڈن میں ہمارے ہوسٹل کی عمارت کو صاف کرنے والی گوری مائی اپنی لینڈ کروزر گاڑی میں آتی تھی۔ یہ مشاہدہ مجھ جیسے دیسی بندے کے لئے تب بہت حیران کن تھا کہ اس مہنگے ملک میں صفائی کا کام کرنے والے ٹھاٹھ سے اپنی بہترین گاڑی میں آتے ہیں۔ ”مہنگے ملک“ سویڈن میں صفائی کا کام کرنے والا جوس کا وہ ڈبہ آسانی سے خرید سکتا ہے جو وہاں کا وزیر اعظم خریدتا ہے۔ جبکہ ”سستے ملک“ پاکستان میں صفائی کا کام کرنے والا دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے کھاتا ہے۔ ناروے دنیا کا چوتھا مہنگا ملک ضرور ہے، لیکن وہاں کم سے کم آمدنی بھی پاکستانی 3000 روپے فی گھنٹہ سے زیادہ ہے۔

جب کم سے کم آمدنی بھی اتنی ہو کے عوام خوشحالی کے ساتھ زندگی گزار سکیں تو کوئی بھی مہنگا ملک وہاں کی عوام کے لئے مہنگا نہیں رہتا۔ اور جہاں عوام کا بڑا حصہ غربت کی زندگی گزار رہا ہو، دو وقت کی روٹی، علاج، دوائی، اور بچوں کی تعلیم کے مسائل جھیلتے جھیلتے لوگوں کے بال وقت سے پہلے سفید ہو جائیں، تو ایسے ملک کے سستے ہونے کی خبر کا کیا کرنا!

کبھی ملک کو سستا ترین بتا کر غریب کی خودکشی سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں، اور کبھی بادل کے پھٹنے کو شہر میں سیلاب کی وجہ قرار دے کر اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران عوام کے شعور کا ادراک نہیں رکھتے۔ اپنی نا اہلیوں کو الٹی سیدھی بیان بازی سے چھپانے کی کوشش والے خود احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments